Vitamin Shuker Deficiency عملِ شکر کی کمی

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ (7)

اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔(سورہ ابراھیم)


رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے  حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی

 ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘ 

اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (ابو داؤد)

ہم میں سے 95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔  جب اکثر لوگوں سے یہ پوچھا جاتا ھے کہ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ  کیا آپ اپنے والد سے بہتر زندگی نہیں گزار رہے؟“ ہر شخص ہاں میں سر ہلاتا ہے!!  آپ کسی روز اپنے بچپن اور اپنے بچوں کے بچپن کا موازنہ بھی کر لیں‘ آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ 

آپ کے گھر میں بچپن میں ایک پنکھا ہوتا تھا اور پورا خاندان ”اوئے پکھا ادھر کرئیں“ کی آوازیں لگاتا رہتا تھا! سارا گھر ایک روپے کی برف خرید کر لاتا تھا۔ لوگ دوسروں کے گھروں سے بھی برف مانگتے تھے۔ ہمسایوں سے سالن مانگنا‘ شادی بیاہ کے لیے کپڑے اور جوتے ادھار لینا بھی عام تھا

 بچے پرانی کتابیں پڑھ کر امتحان دیتے تھے! لوگوں نے باہر اور گھر کے  لیے جوتے اور کپڑے الگ رکھے ہوتے تھے۔ دستر خوان پر دوسرا سالن عیاشی  سمجھا جاتا تھا! سویٹ ڈش میں صرف میٹھے چاول اور کھیر بنتی تھی ۔ مرغی یا تو جب بیمار ھو جاتی یا گھر کے کسی فرد کی بیماری کی حالت میں پکائی جاتی تھی اور بیمار بے چارے کو اس کا بھی صرف شوربہ ھی ملتا تھا

پورے محلے میں ایک ھی گھر میں فون ہوتا تھا اور سب لوگوں نے اپنے رشتے داروں کو وہی نمبر دے رکھا ہوتا تھا ۔ ٹیلی ویژن بھی اجتماعی دعا کی طرح دیکھا جاتا تھا۔ بچوں کو نئے کپڑے اور نئے جوتے عید پر ملتے تھے۔ سائیکل خوش حالی کی علامت تصور ھوتا تھا ۔موٹر سائیکل کے مالک کو بہت امیر آدمی  سمجھا جاتا تھا۔ گاڑی صرف کرائے پر ھی لی جاتی تھی‘ بس اور ٹرین کے اندر داخل ہونے کے لیے باقاعدہ دھینگا مشتی ہوتی تھی اور ایک دوسرے کے  کھُنّے سیک دیے جاتے تھے اور کپڑے پھٹ جاتے تھے

گھر کا ایک بچہ ٹی وی کا انٹینا ٹھیک کرنے کے لیے وقف ہوتا تھا وہ آدھی رات تک ”اوئے شیدے “ کی آواز پر دوڑ کر چھت پر چڑھ جاتا تھا اور انٹینے کو آہستہ آہستہ دائیں سے بائیں گھماتا رہتا تھا اور اس وقت تک گھماتا رہتا تھا جب تک نیچے سے پورا خاندان ”اوئے بس“ کی آواز نہیں لگا دیتا تھا۔پورے گھر میں ایک غسل خانہ اور ایک ہی ٹوائلٹ ہوتا تھا اور اس کا دروازہ ہر وقت باہر سے بجتا رہتا تھا

سارا بازار مسجدوں کے استنجا خانے استعمال کرتا تھا‘ نہانے کے لیے مسجد کے غسل خانے کے سامنے قطارلگتی تھی۔ نائی غسل خانے بھی چلاتے تھے‘ یہ سردیوں میں حمام کے نیچے لکڑیاں جلاتے رہتے تھے اور لوگ غسل خانوں کے اندر گرم پانی کے نیچے کھڑے رہتے تھے اور نائی جب ان سے کہتا تھا ”باﺅ جی بس کردیو پانی ختم ہو گیا جے اور لوگ کپڑے کے ”پونے“ میں روٹی باندھ کر دفتر لے جاتے تھے بچوں کو بھی روٹی یا پراٹھے پر اچار کی پھانگ رکھ کر سکول بھجوا دیا جاتا تھا اور  ”لنچ بریک“ کے دوران یہ لنچ پھڑکا کر نلکے کا پانی پی لیتے تھے

اور یہ وہ زمانہ تھا جس میں کھانا “کھانا “ نہیں ہوتا تھا بلکہ “روٹی “ ہوتا تھا! امیر ترین اور غریب ترین شخص بھی ڈنر یا لنچ کو روٹی ہی کہتا تھا‘ لوگ لوگوں کو کھانے کی نہیں “روٹی” کی دعوت دیتے تھے اور یہ زیادہ پرانی بات نہیں‘ چالیس اور پچاس سال کے درمیان موجود اس ملک کا ہر شخص اس دور سے گزر کر یہاں پہنچا ہے۔

آپ کسی سے پوچھ لیں آپ کو ہر ادھیڑ عمر پاکستانی کی ٹانگ پر سائیکل سے گرنے کا نشان بھی ملے گا اور اس کے دماغ میں انٹینا کی یادیں بھی ہوں گی اور کوئلے کی انگیٹھی اور فرشی پنکھے کی گرم ہوا بھی

حقیقت یہ ھے کہ ہم سب نے یہاں سے ھی زندگی شروع کی تھی بلکہ اس سے بھی نیچے والے درجہ سے ۔ اللہ کا کتنا کرم ہے اس نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا


آپ یقین کریں قدرت ایک نسل بعد اتنی بڑی تبدیلی کا تحفہ بہت کم قوموں  کو دیتی ہے ۔ آج اگر یورپ کا کوئی بابا قبر سے اٹھ کر آ جائے تو اسے بجلی‘ ٹرین اور گاڑیوں کے علاوہ یورپ کے لائف سٹائل میں کوئی زیادہ فرق نہیں ملے گا جب کہ ہم اگر صرف چالیس سال پیچھے چلے جائیں تو ہم کسی اور ہی دنیا میں جا گریں گے۔

لیکن سوال یہ ہے اتنی ترقی‘ اتنی خوش حالی اور لائف سٹائل میں اتنی تبدیلی کے باوجود ہم لوگ خوش کیوں نہیں ہیں؟  آپ جب بھی اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے گی تو  آپ کے ذہن میں اس کا صرف ایک ہی جواب آئے گا :-

 “ناشکری”

 ہماری زندگی میں بنیادی طور پر شکر کی شدید کمی ہے‘ ہم ناشکرے ہیں‘ آپ نے انگریزی کا لفظ (Dissatisfaction) ڈس سیٹس فیکشن سنا ہوگا‘ یہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ یہ ایک خوفناک نفسیاتی بیماری ہے۔ اور اس بیماری میں مبتلا لوگ تسکین کی نعمت سے ھمیشہ محروم رھتے  ہیں۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا لوگ پانی پیتے ہیں لیکن پانی پینے کے باوجود ان کی پیاس نہیں بجھتی۔ 

‘ یہ برف تک گھول کر پی جائیں گے لیکن اس کے باوجود ان کی زبان باہر لٹک رہی ہو تی ہے۔ 

ہم میں سے کچھ لوگ ”آل دی ٹائم“ بھوکے بھی ہوتے ہیں‘ یہ کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے ہیں لیکن ان کی بھوک ختم نہیں ہوتی۔

 اور ہم میں سے کچھ لوگ اربوں کھربوں روپے کمانے کے باوجود امیر نہیں ہوتے‘ کیوں؟

 آپ نے کبھی سوچا! 

کیوں کہ یہ لوگ ایک نہایت ھی خوفناک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی بیماری کا نام  (Dissatisfaction) ڈس سیٹس فیکشن“ ہے۔ ان کے پیٹ‘ ان کے معدے اور ان کی حرص کے صندوق مرنے تک خالی رہتے ہیں اور ہم من حیث القوم کسی نہ کسی حد تک (Dissatisfaction) ڈس سیٹس فیکشن کی بیماری کا شکار ہیں۔ 

 اور اس بیماری کی واحد وجہ وٹامن “شکر” کی شدید کمی ہے‘ شکر ہمارے اللہ کا عطا کردہ وہ واحد تحفہ  ہے جو ہماری خوش حالی میں خوشی‘ ہماری اچیو منٹ اور ہماری کامیابی کو کام  بناتا ہے!

انسان جب شکر چھوڑ دیتا ہے تو پھر یہ (Dissatisfaction) ڈس سیٹس فیکشن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ بیماری پھر مریض کا وہی حشر کرتی ہے جو اس وقت ہم سب کا ہو رہا ہے۔

ہم سب بلا شبہہ اپنے والدین اور اپنے بچپن سے بہت بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم پانچ سو روپے سے پچاس پچاس کروڑ روپے تک پہنچ چکے ہیں‘ ہم چالیس پچاس لاکھ روپے سے لے کر دو‘ تین‘ چار کروڑ روپے کی گاڑی سے اتریں گے اور ساتھ ہی یہ ضرور کہیں گے ”بیڑہ ہی غرق ہو گیا ہے“

 چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ھم ایک لمحے کے لیے اپنا بچپن یاد کریں‘ اپنے آج کے اثاثے اور زندگی کی نعمتیں شمار کریں اور پھر اللہ کا شکر ادا کریں۔ 

آپ کو نتائج حیران کر دیں گے‘ یقین کریں آپ کا شکر آپ کی زندگی سنوار دے گا ورنہ آپ کتنے ہی اچھے یا بڑے کیوں نہ ہوجائیں ۔ آپ ایک ادھوری‘ غیر مطمئن ، تسکین سے محروم،  اور  پریشانیوں والی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے ۔

اگر میں اپنی ذات کا جائزہ لوں تو میں بھی اس دور سے گزر چکا ہوں ۔ الحمدُ  للہ اب بیشک میں اور میرے بچے ھر لحاظ سے بہت بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔ میں  رب کائنات کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔اللہ پاک سے دعا ھے کہ اللہ پاک مجھے اور میرے بچوں کو اپنی نعمتوں کا بے حد شکر ادا  کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ناشکری کی بیماری سے ھم سب کو ھمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین یا  رب العالمین

اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں  کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اورشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراپنی نعمتوں  کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے ،  

آمین یا رب العالمین ۔

Share: