میرا ماضی - دوسری قسط


مڈل سکول میں تعلیم کی ابتداء 

ھمارے  گاؤں کا سکول اُس زمانے میں پرائمری تک ھی تھا لہذا بچوں کو پانچویں کلاس پاس کرنے کے بعد چھٹی جماعت کے لئے مڈل سکول میں ھی جانا پڑتا تھا۔  یہ سکول ھمارے گاؤں  سے ساڑھے تین میل دور گوندلانوالہ میں واقع تھا ۔ میں نے بھی چھٹی جماعت میں یہ سکول جائن کیا ۔ یہ خاصا بڑا سکول تھا کیونکہ یہاں پر دس بارہ دیہات سے بچے پڑھنے کے لئے آتے تھے۔   اس لئے بچوں کی تعداد کافی ھوتی تھی ۔ عموماً یہاں پر چھٹی جماعت میں بچوں کی تعداد چالیس پچاس کے لگ بھگ رھتی تھی لیکن جس سال میں  نے داخلہ لیااُس سال بچوں کی تعداد اکیاسی تک ھو گئی تھی۔  اس لئے چھٹی جماعت کے لئے ایک اور کلاس روم کا انتظام کیا گیا تھا ۔


چھٹی جماعت میں آنے والی تبدیلیاں 

سکول  کے تبدیل ھونے کی وجہ سے کئی  تبدیلیاں آئیں ۔ یہ سکول ساڑھے تین میل دور تھا اور یہ سفر ھمیں پیدل ھی  طے کرنا پڑتا تھا ۔ اکٹر بچے تو پیدل ھی آتے جاتے تھے ۔ کچھ بچوں کے پاس سائیکل ھوتی تھی لیکن اُن کی تعداد بہت کم تھی  کیونکہ اکثر والدین سائیکل خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے ۔ اس لئے بچوں کو شدید دھوپ اور شدید  سردی میں  بھی پیدل ھی آنا جانا پڑتا تھا 


سکول بیگ 

اُس زمانہ میں انگلش چھٹی جماعت سے شروع ھوتی تھی ۔ اس کے علاوہ  فارسی ، الجبراء ، جیومیٹری اور زراعت کے سبجیکٹس کا بھی آضافہ ھو جاتا تھا اور ان کی کتابیں بھی خریدنی پڑتی تھیں جو سیکنڈ ھینڈ خریدی جاتی تھیں۔ یہ بھی والدین کے لئے ایک آضافی بوجھ ھوتا تھا اور  طالبِ علم کا بیگ بھی جسے اُس زمانہ میں “بستہ” کہا جاتا تھا کافی وزنی ھو جاتا تھا ۔ یہ بھی ایک تبدیلی تھی 

یہ بستہ بالکل سادہ سا تھیلا ھوتا تھا اور عموماً ملیشیے کے کپڑے کا ھوتا تھا اور کئی کئی سال تک چلتا رھتا تھا ۔ مجھے یاد ھے کہ مجھے ایک بستہ سکول میں دوسری جماعت کے وقت اگلی جماعتوں کی گنجائش کے مطابق سلوا کر دیا گیا تھا جو چھٹی جماعت تک میرے استعمال میں رھا۔  چھٹی جماعت میں جب بھائی جان مرحوم لاھور چلے گئے تو ان کا استعمال شدہ بستہ جو قدرے بہتر اور مضبوط تھا مجھے دے دیا گیا تھا ۔ آٹھویں جماعت مکمل کرنے تک یہی بستہ میرے استعمال میں  رھا اور شاید بعد میں سلیم نے بھی وہ بستہ استعمال کیا تھا ۔ 


فیس میں آضافہ

ایک تبدیلی یہ کہ پرائمری سکول میں فیس ( چندہ) چار آنے ھوتی تھی  جبکہ چھٹی جماعت میں فیس دو روپے چودہ آنے ھوا کرتی تھی ۔ یہ بھی والدین کے لئے اُس زمانے میں ایک  بڑا فرق سمجھا جاتا تھا اور گھر سے فیس رو دھو کر ھی ملتی تھی ۔ فیس چونکہ زیادہ ھو گئی تھی اس لئے مجھے ھمیشہ اس کا پرابلم ھی رھا۔  بعض اوقات دو دو تین ماہ کی فیس جمع ھو جاتی تھی

کچھ مستحق بچوں کی فیس معاف بھی کر دی جاتی تھی ۔ جس کے لئے موسمِ گرما کی چھٹیوں سے پہلے فیس معافی کی درخواستیں طلب کی جاتی تھیں ۔ جن کی پوری فیس معاف ھو جاتی تھی اُنہیں صرف چودہ آنے ادا کرنے پڑتے تھے اور جن کی فیس آدھی معاف  ھوتی تھی اُنہیں ایک روپیہ چودہ آنے ادا کرنے ھوتے تھے۔ میں نے بھی چھٹی اور پھر ساتویں جماعت میں فیس معافی کی درخواست دی تھی لیکن دونوں مرتبہ میری درخواست اس لئے مسترد ھو گئی تھی کہ ایک تو والد صاحب سرکاری ملازم تھے اور دوسرا ھماری زرعی زمین بھی تھی 


جوتوں کی مرمت

پیدل چلنے کی وجہ سے جوتوں کی  ٹوٹ پھوٹ ھوتی رھتی تھی  جن کی مرمت پر ھی اکتفا کیا جاتا تھا۔ کئی کئی مرتبہ جوتے کی مرمت کروا کر سال پورا کیا جاتا تھا ۔ اپنے جوتے کی مرمت کے لئے کھبی موچی کے پاس جانا تو مجھے یاد نہیں بلکہ اپنے جوتے کی مرمت یا تو ھم خود ھی گھر پر کرتے تھے یا پھر ھمارے ساتھ والے ھمسایوں نے اپنے جوتوں کی مرمت کے لئے سارا سامان رکھا ھوتا تھا۔ ھماری درخواست پر وہ ھمیں بالکل مفت جوتا مرمت کر دیتے تھے اور یہ شرف بھی صرف ھمیں ھی حاصل تھا ورنہ  کسی اور  کا جوتا وہ مرمت نہیں کرتے تھے ۔ سال میں  ھمیں گرمیوں میں ایک مرتبہ قینچی چپل اور سردیوں میں ایک مرتبہ کپڑے کے سفید بوٹ ملتے تھے ۔ چمڑے کا جوتا تو والدین مہنگا ھونے کی وجہ سے لے کر نہیں دے سکتے  تھے بلکہ بعض اوقات کپڑے کے نئے بوٹ کی بجائے پرانے بوٹ ھی استعمال کرنے پڑتے تھے ۔ اس لئے آٹھویں کلاس تک چمڑے کا جوتا پہننے کی نوبت نہیں آسکی تھی ۔ 

اسی طرح چھٹی سے پین سے لکھائی شروع ھوتی تھی تو ایک مرتبہ ایک پین خرید کر دے دیا جاتا  تھا ، بعد میں بس اُس کی نب ھی تبدیل کی جاتی تھی ۔ جو غالباً  چار آنے کی ملتی تھی۔ رف کاپی پر پینسل سے لکھا جاتا تھا اور  ایک پینسل کئی ماہ تک چلتی رھتی تھی ۔ 


 لنچ اور لنچ بکس

لنچ ھم گھر سے لے کر جاتے تھے ۔ لنچ بکس تو ھم نے شاید اُس وقت کھبی دیکھا بھی نہ ھو بلکہ اس سے ھم آشناء ھی نہیں تھے ۔ بس روٹی یا پراٹھے پر ھی کچھ سالن رکھ کر ایک رومال میں  باندھ کر دے دیا جاتا تھا، یہی ھمارا لنچ ھوتا تھا ۔ بچوں میں کھانے کے لئے پسند یا ناپسند کے نکھرے کرنے کا قطعی رواج نہیں تھا،  نہ ھی مائیں یہ چوچلے دیکھنے کی روادار تھیں ۔ بعض اوقات سکول  میں جاکر رومال کھولنے پر ھی معلوم ھوتا تھا کہ روٹی پر سالن کیا رکھا ھوا ھے؟ اگر بالفرض گھر پر بھی معلوم ھو جاتا  اور پچہ کو وہ سالن پسند نہ بھی ھوتا تو مولا بخش کے ڈر کی وجہ سے خاموشی سے لے کر بستہ میں رکھ لیتا  تھا اور سکول میں بھوک کے وقت اسے وہ سالن مزے دار بھی لگتا تھا ۔ بعض اوقات سالن کی بجائے چٹنی یا  آچار ھی سے گزارہ کرنا پڑتا تھا ۔ لنچ کرکے پانی سامنے لگے ھوئے نلکے سے پی لیا جاتا تھا ۔ 


سکول ڈریس

 سکول میں پہننے کے لئے کپڑے ملیشیے کے ھی ھوتے تھے یہی سکول ڈریس ھوتا تھا جو سکول کے ساتھ ساتھ گھر پر بھی استعمال ھوتا رھتا تھا ۔ یہ ڈریس ھر سال نیا  بنوانے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا تھا بلکہ جب تک وہ استعمال ھو سکتا تھا چلتا رھتا تھا ۔ بالکل بوسیدہ ھونے پر ھی اسے تبدیل کیا جاتا تھا ۔ ملیشیے کے نئے کپڑے بھی اتنی آسانی سے نہیں ملتے تھے 


بھائی جان مرحوم ڈوگرانوالہ سے لاھور منتقل

میری چھٹی کلاس شروع ھونے کے ایک دو ماہ بعد بھائی جان کے میٹرک کے امتحان ھو گئے اور والد صاحب نے اُنہیں لاھور بلا لیا تھا تاکہ اُن کی ملازمت کی کوشش کی جائے ۔ اب بھائی جان کے جانے کے بعد گھر کے تمام کاموں کی ذمہ داری بھی میرے اوپر آن ہڑی تھی  ۔ شہر سے سودا وغیرہ لانا، باھر سے ایندھن وغیرہ کا انتظام کرنا ، ساتھ کے گاؤں کوٹ بارے خان سے چکی سے آٹا پسوا کر لانا اور پھر ماموں جان کے کاموں میں ھاتھ بٹانا وغیرہ وغیرہ سب  کام  مجھے ھی کرنے پڑتے تھے۔ سلیم ابھی چھوٹا تھا تاھم حسبِ استطاعت وہ بھی میرے ساتھ ھاتھ بٹاتا تھا 


نانی صاحبہ کا انتقال پُر ملال 

اسی کلاس کے دوران ھی ھماری بہت ھی پیاری نانی صاحبہ انتقال فرما گئی تھیں جس کا ھم سب گھر والوں کو بہت صدمہ پہنچا تھا کیونکہ اُن کی وابستگی ھمارے ساتھ بہت ھی زیادہ تھی ۔ والدہ  صاحبہ تو  اس صدمہ کی وجہ سے دو تین ماہ تک علیل  بھی رھیں 


حافظ صاحب کا امامت سے استعفی اور قاری صاحب کی تقرری

مسجد کے امام یعنی حافظ صاحب کا نمازیوں سے اختلاف ھو گیا ، جس کی وجہ سےاُنہوں نے امامت چھوڑ دی ۔ اُن کی جگہ ایک  جید عالمِ دین  جو حافظ اور مستند قاری بھی تھے اور ویسے بھی پڑھے لکھے تھے ،سکول ٹیچر بھی رہ چکے تھے ، کا بطور امام و خطیب  تقررھوگیا۔  قاری صاحب گوجرانوالہ شہر کے رھنے والے تھے اور اردو سپیکنگ تھے ۔ بہت دلکش شخصیت کے مالک تھے ۔ لیکن میں چونکہ حافظ صاحب سے زیادہ متاثر تھا اس لئے اُن کے جانے  کے بعد  آھستہ آھستہ میرا حفظِ قرآن کا زوق و شوق  ختم ھوتا چلا گیا اور پھر یہ شوق مڈل مکمل کرنے تک  بالکل  ھی ختم ھو گیا اور میں نے اپنے دل میں آئندہ حفظ کا ارادہ بالکل ترک کر دیا تھا ۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ھو سکتی ھے کہ میرے ذاتی خیال میں مسجد کے نمازیوں نے حافظ صاحب کی قدر نہیں کی تھی بلکہ ان کے ساتھ زیادتی ھوئی ۔ دوسرا یہاں کا ماحول  پرائمری سکول  کے ماحول سے بالکل مختلف تھا ۔ لہذا وہ بھی یقیناً اثرانداز ھوا  ھو گا ۔


چھٹی جماعت کا ششماھی امتحان اور انگلش کے پیپر کا رزلٹ 

چھٹی جماعت میں گو کئی دیہات کے بچے پڑھتے تھے لیکن اللہ  کا فضل شامل حال رھا اور یہاں بھی میری تعلیمی پوزیشن بہت آچھی بن گئی تھی خاص کر انگلش اور اسلامیات تو میرے پسندیدہ سبجیکٹس  تھے اور ان میں میری پوزیشن ھمیشہ پہلی ھی رھی اور یہ سلسلہ اگلی کلاسوں میں  بھی برقرار رھا

ششماھی امتحان کا انگلش کا رزلٹ آیا  تو استاد صاحب  نے اعلان  کیا کہ پیپر میں عبدالطیف فرسٹ آیا ھے اور اُس کے 75 نمبر ھیں اور نسیم آحمد  سیکنڈ آیا ھے اور اُس کے 70 نمبر ھیں ۔ رزلٹ سن کر مجھے جھٹکا  سا لگا ۔ دوسرے لڑکوں نے بھی اسے محسوس کیا۔  اُس زمانہ میں حل کیا ھوا  پیپر طالب علم  کو دیکھنے کے لئے دے دیا جاتا تھا ۔ پیپر ملا تو میں نے جلدی  جلدی پیپر پر لگے ھوئے نمبر کاؤنٹ  کیے تو وہ 75 بنے ۔ میں پیپر لے کر استاد صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ سر میرے نمبر تو 75 بنتے ھیں اُنہوں نے کاؤنٹ کیے تو وہ  75 ھی  تھے.  میں نے دیکھا کہ لطیف کا چہرہ کچھ اُترا ھوا تھا ۔ بہرحال استاد نے پہلی پوزیشن کے لئے میرے اور لطیف  کے ناموں کا اعلان کر دیا 

میں نے دوبارہ پھر نمبروں کی کاؤنٹنگ شروع کردی تو ایک عجیب لطیفہ سامنے آیا۔ وہ  یہ کہ میں نے پیپر حل کرتے وقت جو آخری سنگل  شیٹ حل کرکے پیپر  کے ساتھ منسلک کی  تھی ، اس کی بیک سائیڈ پر استاد کے ھاتھ سے دس نمبر بھی لگے ھوئے تھے لیکن اتفاق یہ ھوا کہ ٹوٹل کرتے وقت نہ تو استاد نے وہ نمبر جمع کیے اور نہ ھی میری اُن پر نظر گئی ۔  اب جب وہ نمبر میری نظر میں ائے تو میں نے آچھی طرح  ایک دو مرتبہ ٹوٹل کیا تو میرے ٹوٹل  نمبر  85  بن رھے تھے میں پھر پیپر لے کر اُستاد کے پاس چلا گیا ۔استاد نے مجھے دیکھا تو کہنے لگے،  اب کیا مشکل ھے ۔ آپ کے نمبر پورے کر تو دئیے ھیں ۔ میں نے عرض کیا کہ سر میرے نمبر تو  85. بنتے ھیں ۔ اُستاد نے کہا کہ وہ کیسے ؟ میں نے عرض کیا کہ آخری  شیٹ پر لگے ھوئے دس نمبر ٹوٹل میں جمع نہیں ھوئے۔ میں نے وہ نمبر استاد کو دکھائے ۔ اب کلاس میں شور مچ گیا ۔ لڑکے استاد کے ارد گرد جمع ھو گئے۔  خاص کر لطیف کی حالت دیدنی تھی ۔ اس نے استاد کو بھی کہا کہ اب اعلان ھو چکا ھے لہذا بہتر ھو گا کہ اسے تبدیل نہ کیا جائے۔    لیکن استاد نے اس کی بات سے اتفاق نہ کیا اور دو تین مرتبہ میرے نمبروں کو کاؤنٹ کیا تو وہ  85. ھی بنے ۔ اُستاد نے باقی سب بچوں کو بھی کہا،  کہ تمام  بچے اپنے اپنے نمبرچیک کر لیں  اور اگر کوئی فرق آرھا ھو تو پیپر میرے پاس لائیں ۔ لیکن کسی بچے کے نمبروں میں بھی فرق نہ آیا تو استاد نے ایک دفعہ  پھر اعلان کر دیا کہ نسیم آحمد کے  نمبر 85 ھیں اور وہ فرسٹ آیا ھے اور لطیف کی  نمبر 75 ھیں  اور وہ سیکنڈ آیا ھے 

یہاں یہ بتا دوں لطیف  گوندلانوالہ کا  ایک لڑکا تھا ۔ وہ بھی ایک لائق لڑکا تھا اور اس کی  تعلیمی کاردگی بھی ھمیشہ آچھی رھی تھی لیکن  اتفاق کی بات کہ آنے والے اگلے تمام امتحانوں میں، آٹھویں جماعت کے فائنل امتحان سمیت ، وہ کھبی بھی پہلی یا دوسری پوزیشن  حاصل کرنے میں کامیاب نہ ھو سکا تھا بلکہ ان دونوں  پوزیشنوں  پر ھمیشہ میں اور میرا ایک دوست یوسف ھی براجمان رھے۔  کھبی وہ پہلی پوزیشن لے لیتا اور میں دوسری اور کھبی میری پہلی پوزیشن ھوتی تو وہ دوسری پوزیشن پر ھوتا۔ یوسف کا الجبرا اور جیومیٹری بہت ھی آچھے  تھے ۔ ان میں اُس کے نمبر ھمیشہ میرے سے زیادہ ھی رھے اس کے علاوہ اُس کی ھینڈ رائٹنگ بھی میرے سے زیادہ آچھی تھی ۔ میں انگلش اور اسلامیات میں ھمیشہ اُس سے اگے رھتا تھا۔ پوری محنت اور کوشش کے باوجود بھی وہ ان سبجیکٹس میں میرے سے کھبی اگے نہ نکل سکا۔  اس کے علاوہ  باقی سبجیکٹس میں ھم تقریباً برابر ھی رھتے تھے 


ساتویں کلاس اور ماسٹر دھلوی صاحب

اس طرح وقت اپنی رفتار سے گزر رھا تھا  اور ھم ساتویں کلاس میں آگئے تھے  ۔ امتحان  میں میرا  پہلا  نمبر اور یوسف صرف دو تین نمبر کے فرق سے دوسرے نمبر پر رھا تھا ساتویں کلاس میں ھمارے ایک اُستاد ماسٹر دھلوی صاحب ھوا کرتے تھے ۔ وہ ھمیں معاشرتی علوم پڑھایا کرتے تھے۔  ھلکا پھلکا سا جسم لیکن بہت حاضر جواب اور تیز طرار تھے ۔ وہ بہت ھی عجیب وغریب اُستاد تھے بلکہ یہ کہنا بہتر ھو گا کہ بہت ھی غیر ذمہ دار اُستاد تھے۔  اُ ن کا طریقہ کار یہ تھا کہ اُنہوں نے ھر کلاس کے نوٹس تیار کیے ھوتے تھے اور کلاس کے پہلے ایک دو ماہ میں تمام نوٹس طلباء کو لکھو دیتے تھے۔  اُس کے بعد ہورا سال وہ کسی طالبِ علم سے کچھ نہیں پوچھتے تھے کہ تم نے کچھ یاد کیا ھے یا نہیں۔  نہ ھی وہ کوئی ھوم ورک دینے کے قائل تھے ۔ وہ جب اپنے پیریڈ میں پڑھانے کے لئے آتے تو بچوں کو  نصاب کی بجائے خوب مزاھیہ کہانیاں اور لطیفے سناتے، اپنی سکول کے زمانے کی شرارتیں بتاتے اور بچوں کو  خوب ھنساتے اور دیگر  اُستادوں کے پڑھانے پر خوب تنقید کرتے  کہ یہ کیا بچوں کو مصیبت میں ڈال کر رکھتے ھیں وغیرہ  ۔  بچے بھی ان سے بہت خوش رھتے تھے ۔ اگر کوئی بچہ کہہ بھی دیتا کہ سر ھم کہیں معاشرتی علوم میں فیل نہ ھو جائیں تو فرماتے،  بالکل بے فکر ھو جاؤ۔  تم میں سے کوئی بھی میرے سبجیکٹ میں فیل نہیں ھو گا 

اُس زمانے میں سال میں چار امتحان ھوا کرتے تھے سہ ماھی ، ششماھی، نوماھی اور سالانہ۔   اُستاد خود ھی سوالنامہ تیار کیا کرتے تھے اور خود ھی نمبر لگایا کرتے تھے  ۔ ماسٹر دھلوی صاحب ایک ماہ  پہلے پیپر تیار کرکے طلباء کو پورا پیپر بتا دیا کرتے تھے ۔ کہ یہ یہ سوال پیپر میں آرھے ھیں آپ لوگ یاد کر لو یا پھر بوٹیاں تیار کر لو ۔ تو اس طرح معاشرتی علوم میں سبھی بچے آچھے نمبر لے کر پاس ھو جاتے تھے ۔ ھیڈ ماسٹر صاحب بھی  ماسٹر دھلوی صاحب کی ظاھری کارکردگی سے بہت خوش تھے ۔ لیکن کلاس میں کیا ھو رھا تھا،  ھیڈماسٹر صاحب اس سے لا علم تھے ۔ ساتویں جماعت کے سالانہ امتحان آنے والے تھے۔  حسبِ دستور ماسٹر دھلوی صاحب نے پورا پیپر بچوں کو بتا دیا ھوا تھا اور بچوں کو تاکید بھی کر دی تھی کہ کسی کو بتانا  نہیں کہ میں نے پیپر آپ لوگوں  کو بتا دیا ھوا ھے  ۔ 

 کہتے ھیں کہ چور کی چوری ایک نہ ایک دن تو پکڑی ھی جاتی ھے تو ماسٹر دھلوی صاحب  کے ساتھ بھی کچھ  ایسا ھی ھوا۔ ھوا یہ کہ امتحان شروع ھوئے ھی تھے کہ ھیڈ ماسٹر صاحب کو کسی نے مخبری کر دی کہ ماسٹر دھلوی صاحب نے پورا پیپر بچوں کو پہلے ھی بتا دیا ھوا ھے ۔ ھیڈ ماسٹر صاحب نے ماسٹر دھلوی صاحب سے پیپر طلب کر لیا کہ میں  ذرا پیپر دیکھنا چاھتا ھوں ۔ ھیڈ ماسٹر صاحب نے احتراماً دھلوی صاحب کے سوالات کینسل تو نہ کیے لیکن سوالوں میں دو سوالوں  کا مزید آضافہ کر دیا اور ان دو سوالوں کے نمبر تیس رکھ دئیے اور باقی ستر نمبر دھلوی صاحب کے دس سوالوں میں تقسیم کر دئیے۔   ماسٹر دھلوی صاحب کو پیپر معاشرتی علوم کا پیپر  شروع ھونے سے تھوڑی دیر پہلے ھی دیا گیا تاکہ وہ نئے سوال بچوں کو نہ بتا سکیں اور ہیپر کا وقت بھی زیادہ کر دیا تاکہ طلباء کو پیپر مکمل کرنے میں کوئی دشواری نہ ھو ۔ اس کے ساتھ ساتھ نگرانی بھی سخت کر دی گئی تاکہ کوئی طالب علم نقل نہ کر سکے 

اُس زمانے میں  جوابات لکھنے کے لئے شیٹس طلباء گھر سے لے کر آیا کرتے تھے جو سادہ شیٹس ھوا کرتی تھیں ۔ کلاس میں ایک لطیف نامی لڑکا تھا جس کا میں اُوپر ذکر کر چکا ھوں اُس کو معلوم نہیں کیا سوجھی کہ اُس نے ایک کاتب سے تمام ان سوالوں کےجواب لکھوا لیے جو ماسٹر دھلوی صاحب نے بتائے ھوئے تھے تاکہ اُس کے زیادہ نمبرز  آ سکیں ۔ وہ اوہر سادہ شیٹس رکھ کر کاتب کی لکھی ھوئی شیٹس  کمرۂ امتحان میں لانے میں کامیاب ھو گیا ۔ لیکن جب اس نے پیپر دیکھا تو اُس میں دس کی بجائے بارہ سوال تھے اگر وہ یہ دو سوال چھوڑ دیتا تو پھر شاید نہ پکڑا جاتا لیکن اُس نے باقی دو سوال خود لکھ کر کاتب کی لکھی ھوئی شیٹس کے ساتھ منسلک کر دئیے۔ ظاھر ھے کاتب کی لکھائی اور ایک ساتویں جماعت کے طالب علم کی لکھائی میں بہت زیادہ فرق تھا 

دوسری طرف چونکہ ھیڈماسٹر صاحب  بہت سنجیدگی سے ماسٹر دھلوی صاحب کو چیک کرنا چاھتے تھے۔ اس لئے جونہی پیپر ختم ھوا تو انہوں نے تمام پیپرز اپنے پاس رکھوا لئیے۔ اس پر ماسٹر دھلوی صاحب نے ھلکا پھلکا احتجاج بھی کیا کیونکہ عام روٹین یہی تھی کہ پیپرز متعلقہ استاد کو دئے جاتے تھے

ھیڈماسٹر صاحب نے جب پیپرز دیکھے تو اُن کے سامنے دو چیزیں آئیں ۔ ایک تو لطیف کا پیپر جس کی لکھائی میں بہت واضح فرق تھا ۔ دوسرا یہ کہ کلاس کے اکثر بچے ھیڈ ماسٹر صاحب کے درج کردہ دو سوالوں کے جواب لکھنے میں ناکام ھوئے تھے ۔ ھیڈ ماسٹر صاحب نے خاموشی سے لطیف کو اپنے دفتر بلایا اور پوچھا کہ اُس نے پیپر کس کاتب سے لکھوایا تھا؟ تھوڑی سی چوں چرا کے بعد اُس نے بتا دیا۔  پھر ھیڈ ماسٹر صاحب نے لطیف کو پوچھا کہ تمہیں یہ کس نے بتایا تھا کہ یہ یہ سوال پیپر میں آئیں گے ۔ پہلے تو لطیف خاموش  رھا پھر بولا کہ اگر میں نے بتا دیا تو مجھے مار پڑے گی۔ اور پھر بتا دیا کہ یہ سوال ھمیں ماسٹر دھلوی صاحب نے پہلے ھی بتا دئیے تھے البتہ دو سوال نہیں بتائے تھے ۔ بہرحال جب ماسٹر دھلوی صاحب کو طلب کیا گیا تو اُنہوں نے پہلے تو یہ بات ماننے سے قطعی انکار کردیا کہ اُنہوں نے پیپر بچوں کو بتا دیا ھوا تھا ۔ لیکن جب اُنہیں اندازہ  ھو گیا تو پھر پینترا بدل گئے کہ میں نے تو مشہور مشہور سوال طلباء کو بتائے تھے ۔ جب اُن کے سامنے لطیف کا پیپر رکھا گیا تو ہریشان ھو گئے لیکن فوراً ھی بولے کہ یہ ایک زھین لڑکا ھے ۔ اپنے زھن سے مشہور مشہور سوال لکھوا کر لے آیا ھو گا اور اتفاق سے وہ سب سوال پیپر میں بھی آگئے۔ اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ھے

ماسٹر دھلوی صاحب بچوں کو بتایا کرتے تھے  کہ اُن کے محکمہ تعلیم کے آعلی آفسران سے گہرے تعلقات ھیں ، لہذا ھیڈ ماسٹر سمیت کسی بھی اُستاد کو وہ کچھ بھی نہیں سمجھتے ۔ بعض اوقات دوسرے اُستادوں کو وہ کمّی اور اس جیسے القابات سے نوازتے تھے ۔ آفسروں سے تعلقات والی بات شاید  کسی درجے میں درست بھی ھو ، کیونکہ تمام  تر صورت حال واضح ھونے کے باوجود  بھی ھیڈ ماسٹر صاحب اُن کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے سکے اور ماسٹر دھلوی صاحب بد قسمتی سے آٹھویں جماعت میں بھی ھمارے معاشرتی علوم کے اُستاد رھے اور اُن کا پڑھانے کا طریقہ کار بھی وھی رھا ۔ اُس زمانہ میں آٹھویں جماعت کے سالانہ امتحان سیکنڈری بورڈ کے تحط ھوا کرتے تھے اور معاشرتی علوم اُن لازمی سبجیکٹس میں شامل تھا جس میں فیل ھونے والا طالبِ علم فیل ھی تصور ھوتا تھا اور مڈل کے امتحان کی کمپارٹمنٹ بھی نہیں ھوا کرتی تھی بلکہ اگلے سال تمام سبجیکٹس کا امتحان  دوبارہ دینا پڑتا تھا  ۔ ماسٹر دھلوی صاحب نے تو بچوں کو کچھ یاد ھی نہیں کروایا ھوا تھا اور پیپر بورڈ سے بن کر آنا تھا جو ماسٹر دھلوی صاحب کی پہنچ سے باھر تھا ،  لہذا جن بچوں نے خود سے کچھ توجہ دی  ھوئی تھی وہ پاس ھو گئے اور جنہوں نے کوئی توجہ نہ دی تھی وہ فیل ھو گئے ۔ اُس سال مڈل کے امتحان میں ھمارے سکول  میں فیل ھونے والوں  میں اکثریت اُن بچوں کی تھی جو معاشرتی علوم میں فیل ھونے کہ وجہ سے  فیل ھو گئے  تھے۔ تاھم میری اور یوسف کی پوزیشنیں اس امتحان میں بھی برقرار رھی تھیں یوسف پہلی پوزیشن پر تھا اور میں چند نمبروں کے فرق سے دوسرے نمبر پر تھا

جاری ھے

Share: