بابرکت رزق کے لئے بابرکت دروازے

مال و دولت کمانا انسانی فطرت میں ھے اور یہ اس کی ضرورت میں بھی شامل ھے  لیکن  کچھ لوگ جائز یا ناجائز طریقے سے مال و دولت تو بہت کما لیتے ہیں لیکن اس مال سے اُنہیں سکونِ قلب حاصل نہیں ھو پاتا۔  پھر عموماً مال کا حال یہ ھوتا ھے کہ  وہ یا تو اُن کی زندگی میں ھی ضائع ہو جاتا ہے یا پھر اُن کے مرنے کے بعد ان کے ورثاء اس کو ضائع کر دیتے ھیں۔   لیکن بہرحال اگے جا کر حساب انہیں ھی دینا ھوتا ھے ۔  کچھ لوگوں کی جمع پونجی تو گو کم ہوتی ہے، لیکن اس میں خیر و برکت کے ایسے غیبی اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے باعث رشک بن جاتی ہے۔

مال کمانے کے اسباب اختیار کرکے انسان کو رزق تو مل جاتا ھے لیکن اس رزق میں برکت کا ھونا ضروری نہیں ھے البتہ  اللہ تعالیٰ نے رزق  کے لئے اور اس میں برکت کے لئے کچھ دروازے مقرر فرمائے ہیں۔  جس نے ان دروازوں کو اختیار کر لیا ان شاء اللہ اس کے رزق میں ھمیشہ برکت رھے گی اور وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا۔

مال و دولت اور بابرکت رزق کے دروازے کن آعمال سے کھلتے ہیں؟ اور ان میں خیروبرکت کیسے پیدا ہوتی ہے؟  وہ اعمال ذیل میں پیشِ کیے جا رھے ہیں۔ 


پہلا دروازہ

 “نماز کا اھتمام کرنا”

حدیث مبارکہ کا مفہوم ھے کہ “جو لوگ پانچ وقت کی نماز کا اھتمام کرتے ھیں اللہ تعالی انہیں پانچ انعام عطا فرماتے ھیں جن میں ایک یہ ھے کہ دنیا میں اُن سے رزق کی تنگی ھٹا لی جاتی ھے” اور اس کے برعکس جو لوگ نماز اھتمام کے ساتھ نہیں پڑھتے، ان کے رزق سے برکت اٹھا لی جاتی ہے، وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان ھی رہتے ہیں۔



دوسرا دروازہ

 “توبہ و استغفار کرنا”

جن اسباب کے ذریعے اللہ تعالٰی سے رزق طلب کیا جاتا ہے' ان میں ایک اہم سبب اللہ تعالٰی کے حضور استغفار و توبہ کرنا ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کرتا ہے، اس کے رزق میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اُسے ایسی جگہ سے رزق دیتے ہیں جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ھوتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا :

ترجمہ : پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لئے باغ اور نہریں بنائے گا۔ (سورۂ نوح)



تیسرا دروازہ

 “صدقہ و خیرات کرنا “ 

صدقہ و خیرات رزق میں برکت کا بہترین ذریعہ ھے۔ حکم خداوندی ہے، تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا۔ انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا، اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا۔ غریب رشتہ دار کو صدقہ دینا دوہرے اجر کا باعث ہے،ایک صدقہ دینے اور دوسرا صلہ رحمی کا ثواب ہوگا۔


چوتھا دروازہ

 “تقویٰ اختیار کرنا”

  جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں، اللہ ان کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ھے : اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے۔اور اسے وھاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے۔


پانچواں دروازہ

 “کثرت سے نفلی عبادت کرنا”

 جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں، اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ حکم خداوندی ہے، اگر تم عبادت میں کثرت نہیں کرو گے، تو میں تمہیں دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا۔ لوگ سنتوں اور فرض پر ہی توجہ دیتے ہیں، اور نفل چھوڑ دیتے ہیں۔ جس سے رزق میں تنگی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔


چھٹا دروازہ

 “حج اور عمرہ کی کثرت کرنا”

حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہیں، جس طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی ہے۔ (ترمذی)

نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ”حج اور عمرہ کو یکے بعد دیگرے ادا کرو، اس لیے کہ انہیں باربار کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے ہی دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو“۔(ابنِ ماجہ)


 ساتواں دروازہ

 “رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا “

رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا بھی رزق میں برکت کا باعث ھے ۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔ حدیث شریف کی علمی تحقیق کچھ بھی ہو،  تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ وسعتِ رزق اور درازیٔ عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔


 آٹھواں دروازہ

 “کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا” 

غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں ان کے کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے اور رزق میں برکت کا بہت بڑا سبب ھے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا: یاد رکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور اُن کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘


نواں دروازہ

 “ اللہ پر توکل کرنا “

جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا، تو اسے ضرور ملے گا، اور جو شک کرے گا، وہ پریشان ہی رہے گا۔ جو اللہ پر توکل کرے گا اس کے لئے اللہ کافی ھو جائے گا ۔ اللہ تعالی کا  ارشاد ہے:  جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ اور حدیث میں یہ مضمون وارد ہے کہ ”اگر تم لوگ اللہ تعالی پر ایسا توکل رکھو جیسا کہ توکل رکھنے کا حق ہے تو حق تعالی تمہیں اس طرح روزی پہنچائے جس طرح پرندوں کو پہنچاتا ہے جو صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو سیر ہوکر لوٹتے ہیں“۔


دسواں دروازہ

 “ اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا “

 انسان جتنا  اللہ تعالی کا شکر ادا کرے گا، اللہ رزق کے دروازے کھولتا چلا جائے گا۔ قرآنِ کریم کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر انسان نعمتوں کا شکر ادا کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں اور اگر وہ نعمتوں کی ناشکری کرے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ انتہائی شدید ہے  ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ھے

ترجمہ’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔‘‘ (سورہ ابراہیم)


 گیارہواں دروازہ

 “گھر میں مسکرا کر داخل ہونا”

مسکرا کر گھر میں داخل ہونا  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سنت  ہے۔ حدیث میں آتا ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا اللہ تعالٰی فرماتے ہیں، کہ اُس شخص کا رزق بڑھا دوں گا، جو شخص گھر میں داخل ہو اور درود شریف پڑھ کر مسکرا کر سلام کرے۔


 بارھواں دروازہ

 “ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا”

جو شخص ماں باپ کا فرمانبردار ھوتا ھے، ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہیں ہوتا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ جس کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اسکی عمر لمبی( برکت والی )کر دی جائے اور اس کے رزق میں اضافہ کر دیا جائے تو وہ والدین سے اچھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں کیساتھ صلہ رحمی کرے۔ (صحیح الترغیب والترھیب للالبانی)


تیرھواں دروازہ

 “ہر وقت باوضو رہنا”

 جو شخص ہر وقت نیک نیتی کے ساتھ  باوضو رہے گا۔ تو اس کے رزق میں بھی کمی نہیں ہوگی۔ ایک بزرگ نے ایک مرتبہ ایک مجلس میں فرمایا ۔ رزق بڑھانے کے لیے چند اعمال ہمارے مشائخ کے مجربات میں سے  ہیں۔ ان میں سے ایک ہمیشہ باوضو رہنا ھے ۔ کئی آکابرین  نے اپنی کتابوں میں یہ بات لکھی ہے کہ جب ہم نے ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق کی پریشانیوں سے محفوظ فرما دیا۔  لہٰذا ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرنی چاہیے


چودھواں دروازہ

 “چاشت کی نماز پڑھنا” 

چاشت کی نماز پڑھنے یعنی روزی کمانے کے اوقات میں سے وقت نکال کر اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے اللہ رب العزت رزق میں برکت ڈال دیتے ہیں۔ چاشت کی نماز سے رزق میں برکت بڑھتی ہے۔ حدیث میں ہے چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے، اور تنگدستی کو دور کرتی ہے۔


پندرھواں دروازہ

 “روزانہ سورة واقعة پڑھنا” 

شعب الایمان کی ایک روایت میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے منقول ہے کہ جو شخص ہر رات سورہ واقعہ کے پڑھنے کا اہتمام کرے گا، وہ فقر و فاقہ سے محفوظ رہے گا۔نیز اس روایت کے راوی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادیوں کو روزانہ اس سورت کے پڑھنے کاحکم فرماتے تھے۔ اس سورہ کے پڑھنے سے رزق بہت بڑھتا ہے۔


 سولھواں دروازہ

 “ اللہ سے دعا مانگنا”

جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے، اللہ اس کو خواہش کے مطابق اسے عطا کرتا ہے۔  

دن رات اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے ۔(مسند ابی یعلی، مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ،)


 سترھواں دروازہ

 “صرف رزقِ حلال پر اکتفا کرنا”

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ(سورہ النساء)

اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ۔

اللہ تعالی نے برکت صرف رزقِ حلال میں رکھی ھے بے شک تھوڑا ھی کیوں نہ ھو ۔ حرام رزق سراسر دنیا وآخرت میں  تباھی کا باعث بنتا ھے چاھے کروڑوں یا اربوں میں ھی کیوں نہ ھو۔ جو شخص رزقِ حرام  سے بچے گا اللہ پاک اُس کی لئے برکت والے رزق کے دروازے کھول دیں گے ۔ 


آٹھارواں دروازہ

“اپنے مال کی زکوة ادا کرنا “

جو شخص پابندی سے ذكوة  دیتا رھتا ھے رب کریم اس کے مال میں برکت عطا فرماتے ھیں اور اس کا باقی مال بھی محفوظ، پاک اور بابرکت ہو جاتا ہے۔ زکوة دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے۔ سورۃُ الاعراف میں ہے :وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ:’’میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے ؛ اس لئے میں ان لوگوں کے لئے رحمت کا فیصلہ کروں گا ، جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ‘‘ ۔(الاعراف)


  اُنیسواں دروازہ

“اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لئے فارغ کرنا 

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: یقینا اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابن آدم اپنے کو میری عبادت کے لیے فارغ کر میں تیرے سینے کو غنا سے بھردوں گا اور تیرے فقر کو زائل کردوں گا، اور اگر تونے ایسا نہیں کیا تو میں تیرے ہاتھ کو مشغول کردوں گا اور تیرے فقر کو زائل نہ کروں گا“۔ 

حاصل بحث یہ ہے کہ دین دار لوگ فقر سے خوف زدہ نہیں ہوتے ہیں نیز ان کی غیب سے مدد بھی ہوتی ہے، اس کے برخلاف مالدار دنیار دار مستقل مشغول رہتے ہیں اور ہمیشہ ان کو فقر کا خوف دامن گیر رہتا ہے، دل ان کا غنی نہیں ہوتا۔


بیسواں دروازہ

“اللہ کی راہ میں خرچ کرنا

اللہ کی راہ میں حسب حیثیت خرچ کرنے کے عمل سے بھی رزق میں اضافہ ہوتا ہے یاور برکت ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے مال میں کوئی کمی نہیں آتی، اللہ تعالی کا فرمان ھے  ’’تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کروگے وہ اس کا بدلہ دیں گے اور وہ بہترین رزق دینے والے ہیں۔ ‘‘

 رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:’’ ہر دن جس میں لوگ صبح کرتے ہیں،دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ، ایک دعاء کرتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والوں کو بہتربدل عطا فرما۔ دوسرا دعاء کرتا ہے کہ جو نہ خرچ کرے اس کا مال تلف کر۔‘‘(صحیح بخاری)


اکیسواں دروازہ

 “ شرعی علوم کے لئے وقف لوگوں پر خرچ کرنا”


دینی طلبہ اور اداروں پر خرچ کرنا روزی میں برکت کا باعث ھے چنانچہ  نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے زمانے میں دوبھائی تھے، ان میں ایک نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں رہتا تھا اور دوسرا محنت ومزدوری کرتا تھا، محنت ومزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا

«لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ».

’’شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو‘‘۔

[سنن الترمذي]


بائیسواں دروازہ

“آخرت پر نظر ھونا “

انسان کا مقصد حیات اللہ کی عبادت کرنا اور اپنی عاقبت سنوارنا ہے اور اسی پر اس کی نظر ہونی چاہئے۔ یہ دنیا تو چند روزہ ہے اور اس کو ختم ہونا ہی ہے۔ انسان ابدی زندگی کو اپنا مطمح نظر بنائے، کیوں کہ دنیا ایسے شخص کے خود پیچھے آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس شخص کی آخرت پر نظر ہو اس کے دل کو اللہ تعالی قناعت عطا فرماتے ہیں، اس کے بکھرے ہوئے معاملات کو سمیٹ دیتے ہیں اور دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی سے مفلسی کو کھینچ لیتے ہیں۔ دنیا اس کے پاس حقیر ہوکر پیچھے آتی ہے، اس کی صبح و شام قناعت پر ہوتی ہے۔‘‘


تئیسواں دروازہ

 “نکاح کرنا “

 رزق میں اضافہ اور خوش حالی کے حصول کا ایک دروازہ  نکاح ہے۔نکاح کرنے سے دو نصیب جڑتے ہیں اور اللہ رزق میں اضافہ و برکت عطا فرماتا ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہون ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا ۔ اللہ بڑی وست والا اور علیم ہے۔‘‘


چوبیسواں دروازہ 

  “ تجارت میں سچائی اختیار کرنا”

تاجر کے رزق میں برکت اور اضافہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ تجارت میں سچ بولے۔ اپنا مال جھوٹ بول کر نہ بیچے، اپنے مال کی کمزوری بتاکر بیچے۔ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرے۔سچے تاجر کیلئے قیامت کے دن انبیاء اور صدیقین کی ہمراہی کی خوش خبری دی گئی ہے۔

 رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے اور اس میں جو کچھ عیب ہو اسے بیان نہ کرے اور جسے اس عیب کا علم ہو اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ اس کو بیان نہ کرے۔‘‘


پچیسواں دروازہ

  “ صبح سویرے کام پر نکلنا”

صبح سویرے کام کے لیے گھر سے نکلنے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خیر وبرکت رکھی ہے۔ رزق کے دروازے صبح اٹھ کر کوشش کرنے والوں کیلئے ہی کھلتے ہیں۔ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دعا فرمائی کہ ’’ اے اللہ میری امت کے منہ اندھیرے نکلنے والوں کو برکت عطا فرما ۔‘‘ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   فوجی دستہ صبح سویرے روانہ فرمایا کرتے تھے۔

مندرجہ بالا بابرکت  رزق کے بابرکت دروازوں کے علاوہ آسان اور روز مرہ کی زندگی پر منحصر کچھ آعمال اور بھی ھیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:-

سلام کہہ کر گھر میں داخل ہونا، نماز کیلئے مسجد جانا، جماعت سے نماز پڑھنا، مریض کی عیادت کو جانا،  جنازے کے ساتھ جانا،  حق بات کرنا، اللہ کے راستہ میں ھجرت کرنا اور ھجرت کرنے والوں کی نصرت کرنا ، غیبت نہ کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ تیر بہدف آعمال ، قرآن و سنت اور بزرگوں کے تجربات سے ماخوذ  ہیں، اللہ تعالی ہمیں ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

Share: