مسجد جانے اور باجماعت نماز کی فضيلت :


وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(43)

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔( سورہ البقرہ)

اس آیت مبارکہ میں نماز اور ذکوة کے حکم کے ساتھ باجماعت  نماز اداکرنے کا ارشاد بھی وارد ھوا  ہے اور بہت سی احادیث مبارکہ  میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے فضائل کثرت سے بیان کئے گئے ہیں

 نماز کی فضیلت كے بارے ميں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بے شمار إرشادات آحاديث مباركه كي كتابوں میں ذكر كيے گئے هيں ۔ نماز کے لئے مردوں كے لئے حكم يه هے كه وه مسجد جاكر باجماعت نماز ادا كرنے كي كوشش كريں - بہت سے حضرات نماز تو پڑھتے ہیں لیکن جماعت کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم سے جس طرح نماز کے متعلق بہت سخت تاکید آئی ہے اسی طرح جماعت کے متعلق بھی بہت سے تاکیدیں وارد ہوئی ہیں

 رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ ہو تی ہے۔ (البخاری و مسلم والترمذی )

فائده : جب آدمی نے نماز پڑھني هي ہے اورذياده سے ذياده ثواب کی طلب بهي ہے تو بهتر يهي هے کہ مسجد میں جاکر جماعت سے پڑھ لے تاکہ اتنا بڑا ثواب حاصل ہو جائے۔ آخر دنيا کے لئے بهي تو هم لوگ زیادہ سے زياده نفع كمانے كي كوشش كرتے هيں اور زياده نفع  حاصل کرنے کے لئے  دن رات إيک كرديتے هيں ليكن آفسوس کا مقام ھے کہ  دين كے بڑے نفع سے بھی بے توجہی کی جاتی ہے اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ ہم لوگوں کو دین کی پرواہ ھی نہیں اس کا نفع ہم لوگوں کی نگاہ میں نفع نہیں - جماعت کی نماز کے لئے جانے میں كاروبار كا نقصان سمجھا جاتا ہے اور مسجد جانے کی بھی دقت کہی جاتی ہے لیکن جن لوگوں کے یہاں ﷲ جل شانہ کی عظمت ہے اﷲ کے وعدوں پر ان کو اطمینان ويقين ہے اس کے اجرو ثواب کی کوئی قیمت ہے اس کے یہاں إس قسم كے عذر کچھ بھی وقعت نہیں رکھتے ایسے ہی لوگوں کی ﷲ جل شانہ نے قرآن پاک میں تعریف فرمائی ہے

مسجد جانے اور باجماعت نماز كے بيشمار فضائل آحاديث مباركه ميں وارد هوئے هيں إنتهائى إختصار كے ساتهـ چند فضائل كا ذكر  یہاں کیا جائے گا تاكه هميں باجماعت نماز كي قدرو قيمت كا پته چل جائے۔  چونكه هماري أخروي زندگي كي كاميابي كا دارومدار بهي همارى نماز پر هے إس لئے إسے زياده زياده قيمتي بنانا همارا فرض هے ۔ مسجد جانے اور باجماعت نماز کی فضيلت كے متعلق آحاديث مباركه ملاحظه فرمائيں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو گویا وہ آدھی رات تک قیام کرتا رہا۔ جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم:)۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم صفوں کے درمیان ایک سے دوسرے کونے تک چلتے اور ہمارے کندھوں، سینوں کو ہاتھ لگا کر سیدھا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ تم باہم اختلاف نہ کرو، وگرنہ تمہارے دلوں میں اختلاف ہو جائے گا‘‘۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے پہلی صف والوں پر رحمتیں بھیجتے ہیں‘‘ (صحیح ابن حبان)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’صفوں کو درست کرو، کندھوں کے درمیان برابری کرو، صفوں میں خلل کو بند کرو، اپنے ساتھیوں کے لئے نرمی پیدا کرو اور شیطان کے لئے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو صفوں کو ملاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ملا دیتا ہے، جو توڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دیتا ہے‘‘ (صحیح ابن خزیمہ)۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص مسجد میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو گھر کے لئے نماز کا حصہ رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کی نماز کے حصے میں بڑی خیر رکھی ہے (صحیح مسلم:)

یعنی گھر میں نوافل پڑھنے سے گھر والے بھی نمازی بن جائیں گے اس سے بڑھ کر اور کیا خیروبرکت ہو گی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص مسلسل چالیس روز تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دیتا ہے، ایک جہنم سے آزادی اور دوسری منافقت سے آزادی‘‘۔ (ترغیب و ترھیب:)۔

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص فجر کی نماز باجماعت ہو کر پڑھتا ہے ، پھر بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتا ہے حتی کہ سورج طلوع ہو جائے، پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اس کے لئے حج و عمرے کا ثواب مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے فرمایا: مکمل مکمل یعنی مکمل اجر و ثواب ملے گا‘‘۔ (ترغیب:)۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو اپنے گھر میں طہارت کرے پھر اللہ کے کسی گھر میں جائے کہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک (قدم رکھنے سے) اس کے گناہ معاف ہوں گے جبکہ دوسرے سے اس کے درجات بلند ہوں گے"۔ (صحیح مسلم)

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآله وسلم ہے:

"پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اگر بڑے گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو (یہ تینوں) درمیانی عرصہ کے گناہوں کو ختم کردیتے ہیں"۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "جو شخص صبح کو یا شام کو مسجد میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جنت میں ضیافت (مہمانی) تیار کی ہر صبح اور شام میں"۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "آدمی کی جماعت سے نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے بیس پر کئی درجے افضل ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی نے جب وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کو آیا اور نماز کے علاوہ کسی (حاجت) نے نہیں اٹھایا اور نماز کے علاوہ اس کا اور کوئی ارادہ نہیں ہوا تو وہ کوئی قدم نہیں رکھتا مگر اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک گناہ گھٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے۔ پھر جب وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے (اس کیلئے ویسا ہی اجر لکھا جاتا ہے گویا) وہ نماز ہی میں ہے اور فرشتے اس كے لئے دعائے خیر کرتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ) پہ رہتا ہے۔ اور فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ تو اس پر رحم کر یا اللہ تو اس کو بخش دے، یا اللہ تو اس کی توبہ قبول کر، جب تک کہ وہ ایذا نہیں دیتا یا جب تک وہ حدث نہیں کرتا (وضو نہیں توڑتا)" (متفق علیہ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو وہ باتیں نہ بتاؤں جن سے گناہ مٹ جائیں اور درجے بلند ہوں؟" لوگوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآله وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا: "وضو کا پورا کرنا سختی اور تکلیف میں (اچھی طرح وضو کرنا) اور مسجد کی طرف قدموں کا کثرت سے ہونا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے۔"

(رباط کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک نفس کا عبادت کے لئے روکنا اور دوسرا وہ رباط جو جہاد میں ہوتا ہے) (صحیح مسلم)

إيك حديث ميں هے كه نمازي جب نماز کے ارادہ سے چلتا ہے کوئی اور ارادہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتا تو جو قدم بھی رکھتا ہے اس کی وجہ سے ایک نیکی بڑھ جاتی ہے اور ایک خطا معاف ہو جاتی ہے اور پھرجب نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک وہ با وضو بیٹھا رہے گا فرشتے اس کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب تک آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے

اگر هم غور كريں تو معلوم هوگا كه اس امت پر ﷲ تعالی کی طرف سے انعامات کی بے پناه بارش هوئی هے جیسا کہ اور بھی بہت سے جگہ اس کا ظہور ہے اس لئے اول پچیس درجہ تھا بعد میں ستائیس ہو گیا بعص شراح نے ایک عجیب بات سمجھی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس پچیس درجه والي حدیث کا ثواب ستائیس درجه والی حدیث سے بہت زیادہ ہے اس لئے کہ اس حدیث میں یہ ارشاد نہیں کہ وہ پچیس درجہ کی زیادتی ہے بلکہ یہ ارشاد ہے کہ پچیس درجہ المضاعف ہو تی ہے جس کا ترجمہ دو چند اور دو گنا ہوگا ہے یعنی یہ کہ پچیس مرتبہ تک دو گنا اجر ہوتا چلا جاتا ہے اس صورت میں جماعت کی ایک نماز کا ثواب تین کروڑ پینتیس لاکھ چون ہزار چار سو بتیس (۳۳۵۵۴۴۳۲) درجہ ہوا حق تعالیٰ شا نُہ‘ کی رحمت سے یہ ثواب کچھ بعید نہیں اس كي رحمت بهت وسيع هے وه جتنا مرضي ثواب اپنے بندے كو عطا فرمادے اسے كوئى روكنے والا نهيں

اور غور كا مقام هے كه جب نماز کے چھوڑنے کا گناہ ایک حقبہ ہے تو اس کے پڑھنے کا ثواب یہ ہونا قرین قیاس بھی ہے حديث مباركه ميں حضورؐ آكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس طرف بهي اشارہ فرمایا کہ یہ تو خود ہی غور کر لینے کی چیز ہے کہ جماعت کی نماز میں کس قدر اجر و ثواب اور کس کس طرح حسنات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جو شخص گھرسے وضو کر کے محض نماز هی كي نیت سے مسجد میں جائے تو اس کے ہر ہر قدم پر ایک نیکی کا اضافہ اور ایک خطا کی معافی ہوتی چلی جاتی ہے

بنو سلمہ مدینہ طیبہ میں ایک قبیلہ تھا ان کے مکانات مسجد سے دور تھے انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب ہی کہیں منتقل ہو جائیں حضورؐ أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا وہیں رہو تمہارے مسجد تک آنے کا ہر ہر قدم لکھا جاتا ہے ایک اور حدیث میں هے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے نماز کو جائے وہ ایسا ہے جیسا کہ گھر سے احرام باندھ کر حج کو جائے ادس کے بعد حضورصلى الله عليه وآله وسلم ایک اور فضیلت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ جب نماز پڑھ چکا تو اس کے بعد جب تک مصلے پر رہے فرشتے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں فرشتے اﷲ کے مقبول اور معصوم بندے ہیں ان کی دعا کی برکات خود ظاہر ہیں

حضرت سالم حداد رحمة الله عليه ایک بزرگ هوئے هيں تجارت کرتے تھے جب آذان کی آواز سنتے تو رنگ متغیرہو جاتا اور زرد پڑ جاتا بے قرار ہو جاتے دکان کھلی چھوڑ کر عاشقانه شعر پڑهتے هوئے مسجد كي طرف روانه هوحاتے

محمد بن سما ایک بزرگ عالم هوئے ہیں جو امام ابو یوسف رحمة الله عليه اور امام محمد رحمة الله عليه کے شاگرد ہیں ایک سو تین برس کی عمر میں انتقال ہوا اس وقت دو سو رکعات نفل روزانہ پڑھتے تھے کہتے ہیں کہ مسلسل چالیس برس تک میری ایک مرتبہ کے علاوہ تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی صرف ایک مرتبہ جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا ہے اس کی مشغولی کی وجہ سے تکبیر اولی فوت ہو گئی تھی یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری جماعت کی نماز فوت ہو گئی تھی تو میں نے اس وجہ سے کہ جماعت کی نماز ثواب پچیس درجہ زیادہ ہے اس نماز کو پچیس دفعہ پڑھا تاکہ وہ عدد پورا ہوجائے تو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ محمد پچیس دفعہ نماز تو پڑھ لی مگر ملائکہ کی آمین کا کیا ہو گا ملائکہ کی آمین کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے احادیث میں یہ ارشاد نبوی صلى الله عليه وآله وسلم آیا ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہتا ہے تو ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں جس شخص کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہو جاتی ہے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو خواب میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے

اس قصے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جماعت کا ثواب مجموعی طور سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اکیلے میں حاصل ہو ہی نہیں سکتا چاہے ایک ہزار مرتبہ اس نماز کو پڑھ لے اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایک آمین کی موافقت ہی صرف نہیں بلکہ مجمع کی شرکت نماز سے فراغت کے بعد ملائکہ کی دعا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے ان کے علاوہ اور بہت سے خصوصیات ہیں جو جماعت ہی میں پائی جاتی ہیں ایک ضروری امر یہ بھی قابل غور ہے علماء نے فرمايا هے کہ فرشتوں کی اس دعا کا مستحق جب ہی ہو گا جب نماز صحيح معنوں ميں نماز بھی ہو اور اگر ایسے ہی پڑھی کہ پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر منہ پر مار دی گئی تو پھر فرشتوں کی دعا کا مستحق نہیں ہوتا۔ الله تعالى هم سب كو نماز باجماعت اور خوب خوب سنوار كر پڑهنے كي توفيق عنايت فرمائے - آمين ثم آمين يا رب العلمين



Share: