والدین سے حسنِ سلوک کا حکم
وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ کِلاَھُمَا فَلاَ تَقُل لَّھُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُل لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً رَّبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوسِکُمْ إِن تَکُونُواْ صَالِحِیْنَ فَإِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوراًO
اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو ، اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”ہوں “ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے(صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا ) تمھارا رب تمھارے دل کی بات خوب جا نتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ جلَّ جلالُہ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا ، اس کے بعد فرمایا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ۔اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں؛ بلکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں، انھیں کی برکت سے ہوں ، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں؛بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں ۔
اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے ،ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کوبیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی پاکیزہ نسبت عطا کی ہے؛ غرض ر شتے بناکر اللہ تعالی نے ان کے حقوق مقرر فرمادیے ہیں ، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے ، لیکن والدین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں اپنی بندگی اورا طاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا ھے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ھی ہے ۔
ماں کا مجاہدہ
سب سے زیا دہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کر تی ہے، سورة احقاف میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَاناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْھاً وَوَضَعَتْہُ کُرْھاً
اس ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔ حمل کے نو ماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب کچھ ماں ھی برداشت کر تی ہے ۔، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے ،اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے ،
ماں کی موجودگی میں جہاد میں نہ نکلنے کی رخصت
عن معاوية بن جاهمة السلمي، ان جاهمة جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله اردت ان اغزو وقد جئت استشيرك، فقال:" هل لك من ام؟" قال: نعم، قال:" فالزمها، فإن الجنة تحت رجليها".
معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پوچھا: کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے
باپ کی قربانی
جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کر تا ہے ، سردی ہو یا گر می ،صحت ہو یا بیماری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معا ش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے
بچہ بیما ر ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہو جا تے ہیں ، ان کی نیندیں حرام ہو جاتیں ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خا طر ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں ۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کر تے ہیں؛
اللہ تعالی نے جہاں اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے وہیں والدین کی شکرگزاری کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے ،سو رة لقمان میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ، إِلَیَّ الْمَصِیْرُ
کہ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اٹھایا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے ،کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ؟تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرما یا: ”نہیں ہر گز نہیں ، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا ۔
جائز اُمور میں والدین کی اطاعت کا حکم
اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ھے ﴿وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا﴾ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے ، تکبر نہ کرے ، ہر حال میں ان کی اطاعت کرے ، إلّا یہ کی وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر ان کی اطا عت جا ئز نہیں۔سورہٴ عنکبوت میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
وَوَصَّیْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْناً وَإِن جَاھَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کا ذور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے شریک ٹھہرائے جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو ان کا کہنا مت ماننا ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے ؟ تو انھوں نے فرما یا: تو ان پر اپنا مال خرچ کر ، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر ، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فر ما یا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھاڑو، کہیں کپڑوں کا غبار اور دھول ان کو لگ نہ جا ئے۔
بڑھاپے میں والدین سے حسنِ سلوک کا خصوصی حکم
اللہ تعالی نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایک، یا دونوں تیری زند گی میں پڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو ان کو ”اف “بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر با ت کر نا ۔ حضرت تھا نوی رحمہ اللہ نے بیا ن القرآن میں ”اف “ کا تر جمہ ”ہوں “ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ”ہوں “بھی مت کہنا ۔ اللہ رب العزت نے بڑھا پے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ والدین کی جوانی میں تو اولاد کو نہ” ہوں“ کہنے کی ہمت ہوتی ھے اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے ،پھر بڑھاپے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا ناک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کر نا تو دور کی با ت ہے، ان کو” اف“ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہار بھی مت کر نا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فر ما یا کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ” اف “ سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ جلَّ شانہُ اسے بھی حرام فرمادیتے۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر والدین بوڑھے ہو جائیں اور تمھیں ان کا پیشا ب دھونا پڑجا ئے تو بھی” اف“ مت کہنا کہ وہ پچپن میں تمہارا پیشا ب پاخانہ دھوتے تھے۔(۷)
والدین کا ادب
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ فرماتی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا:
لا تَمْشِ أمامَہ، وَلَاتَقْعُدْ قَبْلَہ، وَلاَتَدْعُہْ بِاسْمِہ، وَلَاتَسْتَبَّ لَہ
یعنی ان کے آگے مت چلنا ، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا ۔
بڑھا پے میں جب والدین کی کوئی بات نا گوار گزے تو ان سے کیسے گفتگوکی جا ئے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
وَقُل لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْما
ان سے خوب ادب سے با ت کر نا
یعنی اچھی بات کر نا ، لب ولہجہ میں نرمی اور الفا ظ میں توقیر و تکریم کا خیال رکھنا ۔ قول کریم کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: خطا کار اور زر خرید غلام سخت مزاج اور ترش رو آقا سے جس طرح با ت کر تا ہے، اس طرح با ت کر نا قول کریم ھے ۔
آگے فرمایا
وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ
﴾ یعنی ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکتے رہنا
حضرت عروہ رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے قران میں والدین کے سامنے جھکے رہنے کا حکم دیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ اگر وہ کوئی با ت تیری نا گواری کی کہیں تو ترچھی نگاہ سے بھی ان کو مت دیکھ کہ آدمی کی ناگواری اول اس کی آنکھ سے پہچانی جا تی ہے۔اور فرمایا کہ ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ تیری وجہ سے ان کی دلی رغبت پوری کر نے میں فرق نہ آئے اور جس چیز کو والدین پسند کریں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کر نے میں کنجوسی مت کرنا۔
حضرت مفتی محمد شفیع صا حب رحمہ اللہ نے معارف القر آن میں لکھا ہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم کسی زمانے و عمر کے ساتھ مقید نہیں ، بہرحال ہر عمر میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا واجب ہے؛کیونکہ والدین کی خدمت اور ان کی رضا مندی میں اللہ تعالی کی رضامندی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی نا راضگی ہے۔
اللہ تعالی کی رضا والد کی رضا میں اور اللہ تعالی کی ناراضی والد کی ناراضی میں ھے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: " پروردگار کی رضا والد کی رضا میں ہے اور پروردگار کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔" (ترمذی، ابن حبان، الادب المفرد)
حدیث مبارکہ میں اگرچہ " والد" کا لفظ آیا ہے جبکہ معنیٰ و مفہوم میں والدہ بھی بدرجہ اولیٰ اس میں شامل ھے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں اس کا ذکر ھے
والدین ، اللہ تعالی کی رضا و ناراضگی کا سبب
حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ فرماتے کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
رضا اللہ مع رضا الوالدین و سخطُ اللہِ مع سخطِ الوالدین
یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔
والدین ، اولاد کی جنت یا جہنم کے دروازے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
مَنْ أَصْبَحَ مُطِیْعًا فِی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ، وَانْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، وَمَنْ أمسیٰ عَاصِیًا للہ فی وَالِدَیْہِ أَصْبَحَ لَہ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ مِنَ النَّارِ، وَانْ کَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا، قال الرجلُ: وانْ ظَلَمَاہُ؟ قال: وانْ ظَلَمَاہُ، وان ظَلَمَاہُ، وان ظلماہ․
یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فرما نبر دار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اوراگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے ۔اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فرمانی کی، اس کے بتائے ہوے احکاما ت کے مطا بق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اوراگر والدین میں ایک زندہ ہواوراس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔
حضرت رفاعہ بن ایاس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رونے لگے، کسی نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ تو انھوں نے فرمایا :
کَانَ لِيْ بَابَانِ مَفْتُوْحَانِ الی الجنَّةِ وَأُغْلِقَ أحدُھما
یعنی میرے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے، اب ایک (والدہ کی وفات پر) بند ہوگیا ہے؛ اس لیے رو رہا ہوں۔ کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ ََ
والدین کے لیے دعا کا اہتمام
اللہ تعالی نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے وہیں پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے؛ چناں چہ ارشاد خداوندی ہے:
رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً
یعنی: اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر رحم فرماجیسا کہ انھوں نے بچپن میں (رحمت و شفقت کے ساتھ) میری پرورش کی ہے۔
ہر نماز کے بعدوالدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں، دو بہت آسان دعائیں جن کی تعلیم خود اللہ جلَّ شانہُ نے قرآن کریم میں دی ہے، ایک ماقبل والی اور دوسری یہ:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ
اے میرے پروردگار ! روزحساب تو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔
حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
مَنْ صَلّی الصَّلَوَاتِ الخَمْسَ فَقَدْ شَکَرَ اللہَ، وَمَنْ دَعَا لِلْوَالِدَیْنِ فِيْ أَدْبَارِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فَقَد شَکَرَ الْوَالِدَیْنِ․
جس نے پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا تو گویا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جس نے پانچ نمازوں کے بعد والدین کے لیے دعا ئے خیر کی تو گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔
نیک اولاد ، جنت میں درجات کی بلندی کا سبب
ہر ماں باپ جو جنت میں درجات کی بلندی چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اصلاح کا فکر کریں اور اچھی تربیت دیں تاکہ وہ ان کے لیے دعا کریں اور ان کے مرنے کے بعد ان کے لیے مغفرت طلب کریں۔
پرورش میں کوتاہی کرنے پر زیادہ تر بچے والدین کو نہ دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور نہ ہی مغفرت طلب کرتے ہیں جس سے ان کے درجات بلند ہوں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
*إنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ ليرفَعُ الدَّرجةَ للعبدِ الصَّالحِ في الجنَّةِ فيقولُ: يا ربِّ، أنَّى لي هذِهِ؟ فيقولُ: باستِغفارِ ولدِكَ لَكَ.*
اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا جنت میں درجہ بلند کرتا ہے تو بندہ کہتا ہے: اے میرے رب! میرے لئے یہ کیسے ہوا؟
تو اللہ فرماتا ہے: تیرے لئے تیری اولاد کی دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔ مسند احمد
والدین کی فرمانبرداری ، درجات کی بلندی کا سبب
حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کی ملاقات کے لیے گئے تو وہا ں عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسی علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آیا تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ اے اللہ ! تیرا یہ بندہ کون ہے ؟ اللہ تعالی نے فرمایا :
کَانَ لاَ یَحْسُدُ النَّاسَ عَلٰی مَا آتاھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہ، وَکَانَ لاَ یَعُقُّ وَالِدَیْہِ، وَلاَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَة
یہ شخص تین کا م کر تا تھا ( ۱ ) جو چیزیں میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو نعمتیں عطا کی ہیں ان پر حسد نہیں کرتا تھا (۲)والدین کی نا فرمانی نہیں کر تا تھا (۳) چغل خوری نہیں کر تا تھا ۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک ، رزق و عمر میں اضا فہ کا سبب
حضرت انس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یعنی جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بَرُّوْا آبَاءَ کُمْ تَبُرَّکُمْ أَبْنَاوٴُکُمْ․
تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہا ری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔
موت کے بعد والدین سے حسنِ سلوک کا طریقہ
والدین یا ان میں کوئی ایک فوت ہوجائیں اور زندگی میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک میں کھبی کوتاہی ھو گئی ہوئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا۔حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حضور اقدس صلی اللہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسن سلوک کروں؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نَعَمْ، اَلصَّلاةُ عَلَیْھِمَا، وَالاِسْتِغْفَارُ لَھُمَا، وَانْفَاذُ عَھْدِھِمَا مِنْ بَعْدِھِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِیْ لاَ تُوْصَلُ الاّ بِھِمَا، وَاکْرَامُ صَدِیْقِھِمَا․
ہاں! ان کے لیے رحمت کی دعا کر نا ، ان کے لیے مغفرت کی دعا کر نا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نا فذ کرنا اور اس صلہ رحمی کو نبھانا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کرنا ۔ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان سے ملنے کے لیے آئے اور پوچھا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمھارے پاس کیوں آیاہوں ؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، تو فرمایا: میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَصِلَ أبَاہُ فِی قَبْرِہ فَلْیَصِلْ اخْوَانَ أبِیْہِ بَعْدَہ
جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ قبر میں صلہ رحمی کرے تو اس کو چاہیے کہ ان کے بعد ان کے دوستو ں کے ساتھ اچھا سلوک کرے،
میرے والد عمر رضی اللہ عنہ اور تمھارے والد کے درمیان دوستی تھی میں نے چاہا کہ میں ا سے نبھاوں (اس لیے تم سے ملنے آیا ہوں)۔
والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھنا
والدین کے چہرے کو محبت کی نظر سے ایک مرتبہ دیکھنا ایک مقبول حج کے ثواب کا درجہ رکھتا ھے چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"عن ابن عباس، أن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: ما من ولد بار ینظر إلی والدیه نظرة رحمة إلا کتب الله بکل نظرة حجة مبرورة، قالوا: وإن نظر کل یوم مائة مرة؟ قال: نعم، الله أکبر وأطیب."
(الجامع لشعب الإیمان للبیهقي)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو صالح اولاد محبت کی نظر سے اپنے والدین کو دیکھے تو اسے ہر نگاہ پر اللہ تعالیٰ ایک مقبول حج کا ثواب بخشتا ہے، لوگوں نے پوچھا: اگر دن میں سو مرتبہ دیکھے تو ؟ فرمایا: تب بھی ، اللہ بہت بڑا ہے اور بڑا پاکیزہ ہے (یعنی ہر مرتبہ دیکھنے کا ثواب حج مقبول کی صورت میں دے گا۔)
والدین کی حیات میں اور موت کے بعد حسنِ سلوک
جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک باحیات ہوں تو ان کو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، جتنا ہوسکے ان کی خدمت کرے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں توان کے ساتھ اب حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی وصیت کو نافذ کرے، ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرے، شرعی حصص کے مطابق میراث کو تقسیم کرے، خود دینی تعلیم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے،ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرے ،ان کی طرف سے صدقہ کرے ، ان کی طرف سے نفلی حج و عمرہ کرے ،کہیں کنواں کھدوائے یا لوگوں کے پینے کے پانی کا انتظام کرے، دینی کتابیں خرید کر وقف کرے،مسجد بنوائے، مدرسہ بنوائے یا دینی علم حاصل کرنے والے مہمانانِ رسول کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کرے،والدین کے قریبی رشتہ داروں اور تعلق والوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، نفلی اعمال کر کے ان کے لیے ایصالِ ثواب کرے، اپنے علاقہ، ملک اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مال کے ساتھ ان کی خبرگیری کرے،
والدین کے ساتھ حسن سلوک میں ان کی خدمت ، اطاعت، ادب واحترام سب کچھ آجاتا ھے کیونکہ حسن سلوک میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔والدین کی خدمت میں یا ان کی اطاعت و فرماں برداری میں یا ان کے ادب و احترام میں کوتاہی کرنا حسن سلوک کے منافی عمل ہے۔ بہرحال والدین کے ساتھ حسن سلوک افضل ترین اور محبوب ترین اعمال میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین، ثم آمین۔