جنات کی پیدائش کب، کیسے اور کیوں ہوئی؟ جنات کے جدِّ امجد کا کیا نام ہے ؟
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (56)
اور ھم نے جن اور انسان کو پیدا کیا ہے تو صرف اپنی عبادت کے لیے۔ (سورہ الذاریات)
انسانوں کی طرح جنات بھی اللہ تعالی کی مخلوق ھیں ۔ جس طرح اللہ پاک نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اسی طرح جنات کو بھی اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لئے ھی پیدا کیا ۔ تاھم انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ۔ جنات سمیت کوئی بھی دوسری مخلوق اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ (4)
بے شک ہم نے انسان کو بہترین انداز پر بنایا ہے۔ ‘‘ (سورۃ تین، )
حضور اکرم ؐ کا ارشاد مبارک ہے۔
ترجمہ: ’’انسان اپنی خلقت میں سب سے اشرف ہے۔ خوب صورتی اور وضع قطع میں دنیا کی کوئی چیز اس کے مد مقابل نہیں ہے۔‘‘
انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کامطلب یہ نہیں ہے، کہ تمام کے تمام انسان اشرف ہیں ،بلکہ اس سے مراد یہ ہے، کہ وہی انسان اشرف ہے، جو اپنے مقصد پر قائم ہو، یعنی اللہ کی عبادت اور معرفت کے حصول کے لیے اللہ کے احکامات کی بجا آوری میں مشغول ہو اور جو اللہ پر ایمان ہی نہ رکھتا ہو یا ایمان رکھنے بعد شش و پنج میں مبتلا ہو، یہ اعزاز اس کے لیے نہیں ہے، لہذا کافر یا مشرک کسی فرشتے سے افضل نہیں ہوسکتااور دوسری بات یہ ہے، کہ انسان مطلقاًتمام مخلوقات سے افضل نہیں ہے، بلکہ انسانوں میں پیغمبرانِ خداتمام مخلوقات، انسانوں اور فرشتوں سے افضل ہیں اور فرشتوں میں جو خواص ہیں، وہ عام انسانوں سے افضل ہیں اور عام انسان عام فرشتوں سے افضل ہیں البتہ یہ کہ وہ کافر یا مشرک نہ ہو۔۔ مشرکین اور کفار کو تو سورۂ اعراف میں چوپایوں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔
جنات کو انسان کی پیدائش سے قبل پیدا کیا گیا تھا۔ اس مخلوق کے وجود کے تمام اکابرین قائل ہیں ۔ شیخ ابن تیمّیہ ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ اکابرین امت میں سے کسی نے بھی جنات کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ اکثر کفار بھی ان کے وجود کے قائل ہیں کیونکہ جنات کے وجود کے متعلق انبیائے کرام کے ارشادات حد تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں، جس کا یقینی طور پر معلوم ہونا لازمی ہے ۔ سوائے فلسفیوں کی ایک معمولی جماعت کے علاوہ جنات کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا ۔
اسلامی عقائد میں جن کا وجود متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے ۔ جن کے معنی چھپے ہوئے، پوشیدہ، دیو بھوت کے ہیں (نقاد اللغات)۔ جس لفظ میں ج اور ن ایک ساتھ آتے ہیں، اگر چہ ان پر تشدید بھی لگی ہو تو اس میں پوشیدگی کا مادہ کارفرما ہوتا ہے۔ مثلاً جنت ، جنین (وہ بچہ جو مادر رحم میں ہو) ۔ اسی طرح ایک اور لفظ جنون ہے جس کے معنیٰ عقل پرپردہ ڈالنا ہے۔ اسی طرح ’جنہ‘ ڈھال کو کہتے ہیں، جو ایک جنگی ہتھیار ہے جسے سامنے کرکے سپاہی اپنے مخالف کے وار سے خود کو بچاتا ہے۔ چناںچہ اسے ’جن‘ کا نام اسی لئے دیا گیا کہ یہ ہماری نظر سے پوشیدہ ہے ۔
قرآن کی اصطلاح میں ’جن‘ ایک غیر مرئی مخلوق ہے۔ اس مخلوق کا ذکر قرآن حکیم میں 8 سورتوں کی 12اور سورۃ جن کی 15آیات میں موجود ہے ۔
جنوں کی تخلیق کب اور کس طرح ہوئی؟ بعض محققین اور تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جنات کو آدم ؑ کی تخلیق سے بھی دو ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا تھا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَـمَاٍ مَّسْنُونٍ (26)
وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ (27)
اور ہم نے انسان کو کھنکناتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا ۔‘‘ (سورہ الحجر )
ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ (14)
وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ (15)
اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پید ا کیا ‘‘۔ (سورہ رحمٰن ) ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’صلصال‘ خشک مٹی کو کہتے ہیں اور جس مٹی میں آواز ہووہ فخار کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی جو آگ میں پکی ہوئی ہو اسے ’ٹھیکری‘ کہتے ہیں ۔ مارج سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابو الجن کہا جا سکتا ہے جیسے حضرت آدم ؑ کو ابوا لآدم کہا جاتا ہے ۔ لغت میں ’مارج‘ آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ) نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے ،نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے اور مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ، جس میں دھواں نہ ہو۔ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کے جسد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی۔ اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا اور بعد میں اس کی ذریت سے جنوں کی نسل پیدا ہوئی۔ ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے لیکن جس طرح ہم محض ایک تودہ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتشیں نہیں ہیں۔‘‘ ایک روایت میں آیا ہے کہ جنوں کو جمعرات کو تخلیق کیا گیا تھا ۔ جنوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا تھا جس کی تصدیق قرآن حکیم نے ان الفاظ سے کی ہے۔ ترجمہ: ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ‘‘ ۔ (سورہ الذاریات آیت 56)
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ انسان اور جن ، دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اورقرآن حکیم ان دونوں مخلوقات کیلئے ہدایت کا ذریعہ ہے ۔
اہل عرب دور جاہلیت میں بڑے تو ہم پرست ہوا کر تے تھے۔ 360 بتوں کی تو وہ پوجا اور پرستش کرتے ہی تھے اور اس میں شدت کا یہ عالم تھا کہ ہر خاندان اور قبیلے کا ایک الگ بت ہوا کرتا تھا۔ کوئی ایک قبیلہ دوسرے کے بت کی پوجا کا مکلف نہ تھا ۔ چناں چہ اسی دور میں جب عرب قوم کے لوگ کسی سفر پر روانہ ہوتے اور راستے میں کوئی وادی یا خوفناک بیابان آجاتا تو وہاں سے گزرتے وقت یہ الفاظ اد اکرکے گزرتے ۔ ’’ میں اس وادی کے سردار اور اس کی قوم کے بیوقوفوں سے پناہ چاہتا ہوں ‘‘۔ ان کے خیال میں بیابانوں پر جنات کا تسلط تھا اور جنوں کے سردار کی اس لیے پناہ طلب کرتے تھے کہ اس کے ما تحت بسنے والے جن کچھ اذیت نہ پہنچائیں ۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے رسوم اور اقوال سے انسانوں نے ان جنات کو اور بھی زیادہ مغرور بنا دیا تھا ۔ اس کے علاوہ اس مخلوق میں سر کشی ونافرمانی کا بھی مادہ موجود ہے اور اپنے مادے کی خاصیت کی بناء پر ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ آگ کا خاصہ یہی ہے کہ وہ سر اٹھائے اور سوزش اور جلن کو نتیجے میں دکھلائے ۔
جنات میں نیک اور بد دونوں اقسام ہوتی ہیں۔ یہ مختلف روپ دھار کر روئے زمین پر وارد ہوتے ہیں۔ انہیںمیں سے ایک جن کا نام ’ابلیس‘ ہے، جو انسان کی دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے اور اس نے نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت لے لی ہے۔ یہ وہی ابلیس ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی تھی اور حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح کیا گیا ہے۔
اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَآئِكَـةِ اِنِّىْ خَالِقٌ بَشَـرًا مِّنْ طِيْنٍ (71)
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک انسان مٹی سے بنانے والا ہوں۔
فَاِذَا سَوَّيْتُهٝ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِىْ فَقَعُوْا لَـهٝ سَاجِدِيْنَ (72)
پھرجب میں اسے پورے طور پر بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔
فَسَجَدَ الْمَلَآئِكَـةُ كُلُّـهُـمْ اَجْـمَعُوْنَ (73)
پھر سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔
اِلَّآ اِبْلِيْسَ ؕ اِسْتَكْـبَـرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِـرِيْنَ (74)
مگر ابلیس نے نہ کیا، تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
قَالَ يَآ اِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَىَّ ۖ اَسْتَكْـبَـرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ (75)
فرمایا اے ابلیس! تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، کیا تو نے تکبر کیا یا تو بڑوں میں سے تھا۔
قَالَ اَنَا خَيْـرٌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِىْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَهٝ مِنْ طِيْنٍ (76)
اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْـهَا فَاِنَّكَ رَجِيْـمٌ (77)
فرمایا پھر تو یہاں سے نکل جا کیونکہ تو راندہ گیا ہے۔
وَاِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِىٓ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ (78)
اور تجھ پر قیامت تک میری لعنت ہے۔
قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِـىٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ (79)
کہا اے میرے رب! پھر مجھے مردوں کے زندہ ہونے تک مہلت دے۔
قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ (80)
فرمایا پس تمہیں مہلت ہے۔
اِلٰى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ (81)
وقت معین کے دن تک۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّـهُـمْ اَجْـمَعِيْنَ (82)
کہا تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔
اِلَّا عِبَادَكَ مِنْـهُـمُ الْمُخْلَصِيْنَ (83)
مگر ان میں جو تیرے خالص بندے ہوں گے۔
قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ (84)
فرمایا حق بات یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں۔
لَاَمْلَاَنَّ جَهَنَّـمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْـهُـمْ اَجْـمَعِيْنَ (85)
میں تجھ سے اور ان میں سے جو تیرے تابع ہوں گے سب سے جہنم بھردوں گا۔
(سورہ ص ٓ)
یہ جن و شیاطین صرف روئے زمین پر ہی اپنے مذموم عزائم برپا کرسکتے ہیں ۔ آسمانی دنیا پر ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر وہ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہونے والی گفت و شنیدکی ٹوہ میں جائیںگے تو ان پر ستاروں کی مار لگائی جاتی ہے او ر وہ زمین کی طرف چیختے چلاتے واپس آجاتے ہیں ۔ چنانچہ ارشادِ الہی ہے۔
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِى السَّمَآءِ بُـرُوْجًا وَّزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِيْنَ (16)
اور البتہ تحقیق ہم نے آسمان پر برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظر میں اسے رونق دی ہے۔
وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيْـمٍ (17)
اور ہم نے اسے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا۔
اِلَّا مَنِ اسْتَـرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٝ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ (18)
مگر جس نے چوری سے سن لیا تو اس کے پیچھے چمکتا ہوا انگارہ پڑا۔
(سورہ الحجر )
اس آیۂ مبارکہ میں دو الفاظ رجیم اور مردود آئے ہیں ۔ رجیم کے معنیٰ سنگسار کرنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ جب یہ آسمانوں پر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب برسائے جاتے ہیں۔ اس سے کچھ شیاطین تو اسی وقت جل مرتے ہیں اور جو بچ کر آتے ہیں وہ نجومیوں اور کاہنوں سے مل کر شرارت کرتے ہیں (تفصیل کے لیے صحیح بخاری و تفسیر سورہ الحجر دیکھئے)
ستارے آسمان دنیا کی زینت ہیں جہاں رات کے وقت وہ مسافروں کی اور اوقات کی راہ نمائی کرتے ہیں اسی طرح جنات و شیاطین کو سبق سکھانے کا کام بھی دیتے ہیں۔
جنات میں جہاں بد طینت قسم کا گروہ تھا وہاں اچھے نیک اور بزرگ گروہ بھی تھے۔ وہ اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ان میں ہدایت حاصل کرنے کا عزم اور ولولہ تھا جس کی اولین مثال حضرت سلیمان ؑ کی ہے جن کے تابع فرمان رہ کر وہ مشکل سے مشکل امور سرانجام دیتے رہتے تھے۔ دوسری مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور نبوت کی ہے جب جنات نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن حکیم سنا تھا۔ اس گروہ نے جہاں آپؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا وہاں اپنی سماعت کو بھی منور کیا اور پھر اپنے قبیلے یا خاندان میں جاکر بڑی حیرت و استعجاب کے ساتھ اس واقعے کو سنایا۔
یہ واقعہ مکہ کے قریب وادی نخلہ میں پیش آیا جہاں آپؐ صحابہ کرام ؓ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً نا ممکن بنا دیا گیاہے، کوئی بہت اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کی بناء پر ایسا ہوا ہے۔ چناںچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگا نے کیلئے پھیل گئیں۔ انہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی ؐ کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپؐ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا ۔(صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ )
مکہ مکرمہ میں حرم کے قریب جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہاں اب ’مسجد جن‘ بنا دی گئی ہے ۔ بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپؐ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف بھی لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپؐ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (ابن کثیر)
جن و شیاطین کا ذکر قرآن حکیم میں 120سے بھی زائد مقامات پر آیا ہے ۔
’انس‘ بھی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آدمی اور شخص کے ہیں۔ لفظ انسان بھی اسی سے نکلا ہے ۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ متعدد بار دہرایا گیا ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ قرآن جو اللہ کی نازل کردہ آخری الہامی اور آسمانی کتاب ہے اس کا مخاطب دنیا کا ہر انسان ہے ۔