میرا ماضی - چوتھی قسط

 نویں کلاس میں داخلے کی تیاریاں 

نویں جماعت میں داخلے کی تیاریاں کچھ اس طرح شروع ھوئیں کہ لاھور سے بھائی جان تشریف لائے۔  وہ بہت ھی خوش تھے کہ میں نے امتحان میں بہت آچھی پوزیشن حاصل کی ھے ۔ چونکہ میرے نمبرز  کافی آچھے تھے اس لئے گوجرانوالہ کے کسی بھی آچھے ھائی سکول میں میرا داخلہ ممکن ھو سکتا تھا ۔ بھائی جان  نے گوجرانوالہ کا چکر لگایا اور کہنے لگے کہ داخلے کا تو کوئی پرابلم نہیں ھے ۔ جس سکول میں چاھو گے داخلہ مل جائے گا ۔  اور وہ دو تین دن کے بعد یہ کہہ کر وہ واپس لاھور چلے گئے کہ سائیکل وغیرہ کا انتظام ھوتے ھی والد صاحب آ کر آپ کا داخلہ کروا دیں گے 

بھائی جان اس وقت  تک جاب پر نہیں آئے  تھے (تاھم  شاید ایک دو ماہ کے بعد اُن کی انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ ، پونچھ ھاؤس میں اپوانٹمنٹ ھو گئی تھی ۔ ) لیکن اُس وقت والد صاحب کے لئے سائیکل اور دیگر آخراجات کا انتظام کرنا واقعی خاصا  مشکل مرحلہ تھا۔  بہرحال اُنہوں نے جیسے کیسے بھی ایک سیکنڈ ھینڈ سائیکل خریدی  اور دیگر آخراجات  کا انتظام کیا اور چھٹی لے کر گاؤں آگئے تاکہ مجھے ھائی سکول میں داخل کروا سکیں 


والد صاحب کی سائیکل کے ساتھ ڈوگرانوالہ آمد 

والد صاحب سائیکل لے کر تشریف لائے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ والد صاحب  نے لاھور سے ڈوگرانوالہ تک کا سفر سائیکل پر ھی طے کیا تھا ۔ یہ ایگل کمپنی کی چوبیس انچ کی بڑے سائز کی سائیکل تھی جس کے پیڈل پر میرے پاؤں بھی بمشکل ھی پہنچتے تھے۔  شام کو بھائی جان کے دوست جاوید صاحب والد صاحب کو ملنے کے لئے آ گئے ۔ اُنہوں نے سائیکل دیکھی تو پوچھا کہ یہ سائیکل کس کے لئے ھے ۔ والد صاحب نے میری طرف اشارہ کیا کہ اسے نویں جماعت میں داخل کروانا ھے یہ اس کے لئے ھے ۔ جاوید صاحب کچھ پریشان سے ھو گئے اور کہنے لگے کہ یہ چھوٹا سا بچہ اتنی بڑی سائیکل کیسے سنبھال پائے گا ۔ یہ تو اس کے اپنے سائز سے بھی بڑی ھے ۔ جاوید صاحب نے والد صاحب کو کہا کہ میرے خیال میں آپ کا یہ قدم درست نہیں ھے ۔ سائیکل بہت بڑی ھے ۔ اس کو کنٹرول کرنا اس کے لئے بہت مشکل رھے گا ۔ بہتر  یہ ھے کہ آپ اسے چھوٹے سائز کی  بیس انچ کی نئی سائیکل لے کر دیں تاکہ یہ بآسانی اسے چلا سکے ورنہ ایسا نہ ھو کہ آپ لوگوں  کو بعد میں پچھتانا  پڑے ۔  پھر کہنے لگے کہ میں نے خود بالکل نئی سائیکل رکھی ھوئی ھے اور میری سائیکل  بائیس انچ کی ھے یعنی وہ بھی سائز میں اس سائیکل سے چھوٹی ھے ۔ اس کے باوجود  میرا اب تک دو مرتبہ ایکسیڈنٹ ھو چکا ھے ۔ اس لئے آپ لوگ یہ غلطی ھر گز نہ کرنا۔ بلکہ بہتر یہ ھے کہ آپ اسے اپنے ساتھ لاھور لیجا کر وھاں داخل کروا دیں ۔ والد صاحب مرحوم سوچ میں پڑ گئے کیونکہ انہوں نےاس  طرف تو دھیان ھی نہیں دیا تھا ۔ انہوں نے اس سائیکل کا بھی انتظام پتہ نہیں کیسے کیا تھا؟  نئی سائیکل خریدنا تو اُن بیچاروں کے بس کی بات ھی نہیں تھی ۔ داخلے بند ھونے میں بھی تھوڑے دن ھی باقی تھے ۔ اتنے تھوڑے دنوں میں تو اب کچھ بھی نہیں ھو سکتا تھا ۔ جاوید صاحب  اور کئی دوسرے لوگوں کے ڈرانے کے بعد اس سائیکل پر مجھے سکول بیجھنے کا خطرہ مول لینے کے لئے  والدہ صاحبہ بھی بالکل تیار نہیں تھیں ۔ اُن  کا کہنا تھا کہ جان کی حفاظت پہلی چیز ھے جبکہ میں بضد تھا کہ آپ لوگ  فکر نہ کریں میں اس سائیکل کو سنبھال  لوں گا ، کیونکہ میں ھر صورت سکول میں داخلہ لینا چاھتا تھا لیکن والد صاحب خود بھی واقعی کافی خوفزدہ ھو گئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ بچہ کسی حادٹے کا شکار ھو جائے۔  اس لئے وہ بھی کسی قسم کا کوئی رسک لینے کو تیار نہیں تھے ۔ اب مشورے شروع ھو گئے کہ اب کیا کیا جائے؟  ۔ ھر کوئی اپنا مشورہ دے رھا تھا ۔  زیادہ تر نے مجھے لاھور بیجھنے کا  ھی مشورہ دیا لیکن  والدہ  صاحبہ کسی بھی صورت مجھے اپنے سے جدا کرنے کو تیار نہیں تھیں اور اپنی انبالوی زبان میں بار بار یوں کہتی تھیں کہ “ یو تو اک دو دن واسطہ کہیں چلا جا  تو میری انکھاں  مچ جاں “ یعنی اگر یہ ایک دو دن کے لئے بھی کہیں چلا جاتا ھے تو میری تو آنکھیں بند ھو جاتی ھیں ۔ خود والد صاحب بھی مجھے لاھور لیجانے کے حق میں نہیں تھے ۔ مشورے میں ایک بات یہ بھی آئی کہ اس سال داخلے کا پروگرام کینسل کر دیا  جائے اور اگلے سال  سکول میں داخل کروایا جائے ۔ بھرحال یوں ھی مشورے چل ھی رھے تھے کہ سکولوں  کے داخلے بھی بند ھو گئے ۔ تاھم جرمانے کے ساتھ اب بھی داخلہ ممکن تھا اور میرا اب  بھی گھر والوں سے یہی اصرار تھا کہ سائیکل کے حوالے سے کسی ڈر خوف کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ، مجھے سکول داخل کروا دیا جائے ۔ میں سائیکل آسانی سے کنٹرول کر لوں گا ۔ لیکن گھر  والے اس کے لئے قطعی تیار نہیں تھے  ۔ اسی دوران میرا دوست یوسف مجھے ملنے کے لئے آیا ۔ وہ بھی بہت پریشان تھا کیونکہ اس سال اُس کے بیچارے غریب والدین مالی دُشواریوں کی وجہ اسے نویں جماعت میں  داخلہ دلوانے سے قاصر تھے ۔ اس لئے فی الحال اس کا بھی  پروگرام اگلے سال کا ھی بنا تھا گویا یہ سال تو ضائع ھو ھی گیا تھا کیونکہ امتحان اور نتائج لیٹ ھونے کی وجہ سے تعلیمی سال ختم ھونے میں ویسے بھی چار پانچ ماہ ھی باقی  رہ گئے تھے لیکن یوسف کا اگلے سال میں بھی داخلہ یقینی نہیں تھا ۔ اس لئے وہ بھی بہت ٹینشن میں تھا ۔ جب میں نے اپنی سٹوری اُسے سنائی تو اُسے قدرے اطمینان ھوا کہ میں بھی اُس کے ساتھ ھی ھوں ۔ کہنے لگا چلو پھر اگلے سال آکٹھے ھی داخلہ لے لیں گے ۔ تاھم ھم دونوں کو اس بات کا بہت قلق اور آفسوس تھا کہ باوجود ھم  سکول میں پہلی اور دوسری پوزیشن لے کر پاس ھوئے تھے لیکن پھر بھی دونوں اس سال نویں جماعت میں نہ بیٹھ سکے 


میری زندگی کا نیا رُخ اور حفظِ قرآن کی ابتداء 

تمام تر مشوروں کے بعد جو فیصلہ ھوا  اُس نے سرے سے میری زندگی کا رخ ھی بدل دیا ۔ ھوا یوں کہ والدین نے اس نقطہ پر غور کیا کہ “میں ماضی میں حفظِ قرآن الکریم کے لئے بہت اصرار کرتا رھا ھوں اور ھم نے اسے میٹرک کی بعد حفظ کروانے کا وعدہ بھی کیا ھوا ھے “ تو گویا میٹرک کے بعد قرآن پاک حفظ کرنے کا پروگرام تو بنانا  ھی ھے تو بہتر یہی ھو گا کہ یہ پروگرام  ابھی بنا لیا جائے اور اب حفظ شروع کروا دیا جائے اور حفظ مکمل کرنے کے بعد سکول میں داخل کروانے کا پروگرام  بنایا جائے ۔ اس طرح کچھ وقت بھی گزر جائے گا اور اگر بھائی جان جاب پر آگئے تو سکول آخراجات پورے کرنے میں بھی آسانی ھو جائے گی جو فی الوقت ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ھے ۔ 

اب یہاں بھی مشکل یہ سامنے آئی کہ حفظِ قرآن کریم  کا مدرسہ بھی گوجرانوالہ شہر  میں تھا  تو اس کے لئے میرا  گوجرانوالہ جانا ضروری تھا اور قیام بھی وھیں ھونا تھا البتہ ھر ھفتے ایک دن کے لئے گھر آسکتا تھا  لیکن اس کے لئے والدہ صاحبہ کسی صورت بھی تیار نہیں تھیں ۔ حقیقت یہ ھے مجھے گھر پر ھی رکھنے پر والدہ صاحبہ اور والد صاحب پوری طرح متفق تھے  گویا میرا گھر پر رھنا بہت ھی ضروری تھا بلکہ یہ  امی اور ابا جی کی سب سے پہلی ترجیح تھی۔  اگے جو بھی کرنا تھا وہ گھر پر رہ کر ھی ھونا  تھا۔ جبکہ میں اب سکول کے علاوہ دوسرے کسی بھی پروگرام  کے لئے تیار نہیں تھا اور سکول جانے پر ھی مضر تھا ۔ بھائی جان اُس وقت لاھور میں تھے اگر وہ ڈوگرانوالہ میں موجود ھوتے تو شاید امی ابا جی کو  کسی نہ کسی طرح  مجھے سکول بیجھنے پر رضامند بھی کر لیتے ، کسی حادثے کا خوف والدین کے سر ہر بُری طرح سوار تھا اس کی وجہ سے میری طرف سے سکول  جانے والی بات  تو گھر والے کسی صورت ماننے کو تیار ھی نہ تھے 

جاوید صاحب نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے شدت سے  یہ بات محسوس کی  کہ “انہوں  نے  آباجی کو کچھ زیادہ ھی ڈرا دیا ھے “ پھر وہ گھر آکر آباجی کو تسلیاں دینے لگے کہ فکر والی کوئی بات نہیں ھفتہ دو ھفتہ کے بعد یہ روٹین میں آجائے گا ۔ آپ اسے سکول میں داخل کروا دیں  اگر ضرورت پڑی تو ھفتہ دو ھفتہ یہ میرے ساتھ بھی سکول جا سکتا ھے  لیکن آباجی نہ مانے 

ھماری مسجد میں جو امام  صاحب تھے وہ ایک جید عالمِ دین ، حافظِ قرآن  اور مستند قاری تھے ( تاھم یہ ضروری نہیں ھوتا کہ ھر آچھا عالم ، حافظ اور قاری حفظ کے معاملے میں آچھا اُستاد بھی ثابت ھو سکے اس کا تجربہ مجھے الریاض میں اپنے مدرسہ میں بھی بارھا ھوتا رھا)۔  قاری صاحب  کے پاس صبح اور شام کچھ وقت کے لئے بچے ناظرہ قرآن پاک  پڑھنے آتے تھے لیکن اُس وقت  حفظ کا کوئی طالب علم اُن کے پاس نہیں تھا کیونکہ اُس وقت  حفظ کا ھمارے گاؤں میں سرے سے کوئی ماحول  موجود ھی  نہیں تھا ۔ ھمارے گاؤں میں قرآن پاک حفظ شروع کرنے والا اور مکمل کرنے والا میں پہلا  ھی بچہ تھا 

والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے اپنے طور پر یہ پختہ ذھن بنا لیا تھا کہ گھر چلانے کے لئے کسی ایک  فرد کا گھر  پر ھونا بہت ضروری ھے ۔ بھائی جان پہلے ھی لاھور جا چکے تھے اور سلیم ابھی چھوٹا تھا اس لئے میرا گھر پر رھنا ھی ضروری سمجھا گیا تھا ۔  مجھے چونکہ ھر صورت گھر پر رکھنا ضروری طے پایا تھا اس لئے فیصلہ یہ کیا گیا کہ مجھے قاری صاحب کے پاس حفظ کے لئے بٹھا دیا جائے اور اس طرح مجھے گھر سے باھر بھی نہیں جانا پڑے گا اور گھر کے تمام کام بھی بدستور چلتے رھیں گے اور قرآن پاک بھی حفظ ھو جائے گا  اور پھر اُس کے بعد مجھے سکول بیجھ دیا جائے گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قطعاً درست فیصلہ نہیں تھا،   اس فیصلے کی وجہ سے مجھے بہت مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور حفظ کا تمام دورانیہ میں نے ذھنی ٹینشنز میں ھی  رہ کر گزارا ۔ حفظ کے لئے جو ماحول ھونا چاھیے ھوتا ھے وہ سرے سے یہاں بالکل موجود نہیں تھا  ۔ حوصلہ آفزائی کی بجائے  یہاں قدم قدم پر حوصلہ شکنی کا ماحول موجود تھا ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ میرا ذھن بھی اب اس کے لئے تیار نہیں  ھو رھا تھا بلکہ میں نے تو اپنے دل میں ھائی سکول جانے کا پروگرام بنایا اور بسایا ھوا تھا۔ گو چوتھی اور ہانچویں کلاس کے بعد  میں خود حفظِ قرآن پر اصرار کرتا رھا تھا لیکن اُس وقت گھر والے اس پر تیار نہیں ھوئے تھے اور تین سال مڈل سکول میں پڑھنے کے بعد میرا ذھن  مکمل طور پر تبدیل ھو چکا تھا ۔ گویا اب میں ذھنی طور پر اس کے لئے تیار ھی نہ تھا اور حقیقت یہ تھی کہ مجھے ذھنی طور ہر تیار کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں ھو رھی تھی۔   میرے گھر والوں کی  دلچسپی صرف مجھے  گھر پر رکھنے تک  ھی محدود تھی اور  تمام تر  فکر اُسی کی ھو رھی تھی ۔ ورنہ اُس وقت گوجرانوالہ مدرسہ میں مجھے داخل کروانے کا اگر پروگرام بنایا جاتا تو میں شاید خوشی سے تیار بھی ھو جاتا اور مجھے بھی سہولت رھتی لیکن ایسا بھی نہ ھو سکا

ایک دن  والد صاحب اور میں کہیں جارھے تھے تو راستے میں مسجد کے امام صاحب قاری اہراھیم صاحب مل گئے ۔ والد صاحب نے اُن سے میرے متعلق بات کی تو اُنہوں نے بھی والد صاحب کو یہ مشورہ دیا کہ فی الحال آپ اس کو سکول جانے دیں اور شام کے وقت میرے پاس بیجھ دیا کریں ، اس طرح پانچ چھ سیپاروں تک تو کوئی مسئلہ نہیں ھو گا ۔ پھر اگلا پروگرام ترتیب دے لینا لیکن والد صاحب نے کہا نہیں فی الحال تو سکول نہیں بیجھنا بلکہ حفظ کے بعد ھی سکول  کا پروگرام بنائیں گے ۔ 


قاری ابراھیم صاحب کی خدمت میں پہلی حاضری 

 گھر میں ماحول کافی کشیدہ چل رھا تھا میں والد صاحب کے چہرے پر پریشانی کے واضح آثار دیکھ رھا تھا جو خود میرے لئے بھی ناقابلِ برداشت ھی تھے پھر  اُنہوں  نے واپس لاھور بھی جانا تھا ۔اُن کی پریشانی کا فی الوقت حل یہی تھا کہ میں اُن کے ساتھ مسجد میں قاری صاحب کے پاس چلا جاؤں اور حفظ کا سلسلہ شروع کردوں ۔ رھا سکول میں داخلہ اس کا تو اب دور دور کوئی امکان نظر نہیں  آ رھا تھا ۔  والد صاحب مجھے سکول نہ بیجھنے کا پختہ فیصلہ کر چکے تھے 

والد صاحب مجھے لے کر قاری صاحب کی خدمت میں چلے گئے ۔ قاری صاحب نے مجھے یاد کی ھوئی سورتیں سنانے کا حکم دیا جو میں نے والد صاحب کی موجودگی میں قاری صاحب کو سنا دیں  اور قاری صاحب نے مجھے اگے سبق پڑھا دیا اس طرح میرا حفظ کا سلسلہ شروع ھو گیا ۔ والد صاحب اُس دن بہت ھی خوش تھے ۔ تاھم میرے اوپر سکول کا جنون  سوار تھا سو میرے دل میں یہی بات تھی کہ اگلا تعلیمی سال شروع ھونے تک   ( جس میں چند ماہ ھی باقی تھے ) جتنا قرآن یاد ھو گیا وہ کر لوں گا پھر سکول چلا جاؤں گا اور سکول کے ساتھ ساتھ آھستہ آھستہ حفظ کا سلسلہ بھی جاری رکھ لوں گا تاھم ایسا نہ ھو سکا


والد صاحب کی سائیکل کےساتھ لاھور واپسی 

والد صاحب مجھے قاری صاحب کے پاس بٹھا کر کافی مطمئن ھو گئے تھے اور اُن کی چھٹی بھی ختم ھو گئی تھی۔  وہ واپس لاھور جانے لگے تو اُنہوں نے سائیکل بھی لے جانی چاھی لیکن میں نے اصرار کیا  کہ یہ سائیکل تو آپ میرے لئے لائے  تھے اسے یہاں ھی میرے پاس رھنے دیں۔  میں اسے چلاتا رھوں گا ۔ لیکن والد صاحب فرمانے لگے کہ فی الحال آپ کو سائیکل کی ضرورت نہیں ھے اور لاھور میں ھمارے پاس بھی سائیکل نہیں ھے اور ھمیں بھی سائیکل کی کافی ضرورت رھتی ھے ۔ جب آپ سکول جاؤ گے تو اُس وقت آپ کو سائیکل مل جائے گی ۔ لہذا وہ سائیکل بھی ساتھ لے گئے بلکہ اُنہوں نے ڈوگرانوالہ سے لاھور تک کا سفر بھی  اسی سائیکل پر طے کیا

یہ سائیکل بھی اپنی ایک تاریخ رکھتی ھے ۔ یہ سائیکل لاھور سے ڈوگرانوالہ آئی اور پھر لاھور چلی گئی ۔ جب تک بھائی جان لاھور میں رھے وہ اس سائیکل کو استعمال کرتے رھے ان کے لالہ موسی جانے کے بعد کچھ عرصہ یہ سائیکل لالہ موسی میں بھی بھائی جان کے استعمال میں رھی ۔  پھر والد صاحب کی ضرورت کے پیشِ نظر یہ سائیکل واپس لاھور آگئی۔   میرے لاھور جانے تک  یہ سائیکل  والد صاحب کے زیرِ استعمال رھی ۔ پھر میں لاھور چلا گیا تو میرے سعودی عرب جانے تک یہ سائیکل میں نے خوب خوب  استعمال  کی ۔  میرے سعودی عرب چلے جانے کے بعد والد  صاحب یہی سائیکل استعمال کرتے رھے ۔ والد صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سائیکل دوسرے سامان  کے ساتھ ڈوگرانوالہ آ گئی ۔ وھاں بھی یہ سائیکل کافی عرصہ استعمال ھوتی رھی اور ھو سکتا ھے یہ سائیکل  اب بھی ڈوگرانوالہ میں کہیں گھر کے کسی کونے میں  کسی نہ کسی شکل میں موجود ھو 


جاری ھے

Share: