لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ O
"ضرور تمہارے لئے رسول اللہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے"
اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اور والدین کے لیے مستقبل کا قیمتی اثاثہ ہے ؛یہی وجہ ہے کہ ان کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت اور رونق سے تعبیرکیاجاتاہے ؛لیکن یہ (اولاد)رونق وبہار اور زینت وکمال کاسبب اسی وقت بن سکتی ہے جب انھیں زیورتعلیم سے آراستہ کیا جائے ،بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما کا خیال رکھا جائے،ان کی دینی تربیت وپرداخت کو ضروری سمجھاجائے، نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انھیں پروان چڑھانے کا اہتمام کیا جائے ۔
شریعت مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کے سلسلہ میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں ، ان میں سب سے اہم اور مقدم حق اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے ۔ تاھم بدلتے ھوئے حالات کے پیشِ نظر اولاد کے لئے حتی المقدور عصری تعلیم کا بھی ضرور اھتمام کرنا چاھیے ۔ لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اخروی فلاح وکامیابی کا دار و مدار ہے ۔ دین وایمان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے متاع گراں مایہ ہونے کا احساس دل میں جاگزیں بھی ہو،اگر خدانخواستہ کوئی دین وایمان کو معمولی چیز سمجھتاہے تو پھر اس سے خاتمہ بالخیر کی توقع رکھنا بھی مشکل ہے ۔
اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایاجاسکتاہے جو قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں ذکر کیا گیا ہے: حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلَام جب بسترِ مرگ پر آخری سانسیں گن رہے تھے تو انھیں یہ فکر بار بار ستائے جارہی تھی کہ میری اولاد میرے بعد کس کی عبادت کرے گی؟ بالآخر انھوں نے اپنی اولاد کو بلا کر یہ سوال کیا کہ میرے بعد تمہارا معبود کون ہوگا؟ ۔بیٹوں نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی موجودگی میں جس طرح دین برحق پر قائم رہے اور اپنے آباء واجداد سیدنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام اور اسحق عَلَیْہِ السَّلَام کے پرودگار کی عبادت کرتے رہے اسی طرح آپ کے بعد بھی ہم اسی رب العالمین کی بندگی کریں گے جس کی تعلیم وتلقین ہمارے بڑوں نے فرمائی ہے ۔ قرآن پاک میں اس طرح اس کی منظر کشی کی گئی:
اَمْ كُنْتُـمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِيْۖ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰـهَكَ وَاِلٰـهَ اٰبَآئِكَ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ اِلٰـهًا وَّاحِدًاۚ وَّنَحْنُ لَـهٝ مُسْلِمُوْنَ (133)
کیا تم حاضر تھے جب یعقوب (عَلَیْہِ السَّلَام) کو موت آئی تب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے کہا ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ( ابراھیم عَلَیْہِ السَّلَام )اور اسماعیل( عَلَیْہِ السَّلَام) اور اسحاق( عَلَیْہِ السَّلَام )کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں (البقرۃ :۱۳۳)
یہاں یہ بات بھی بہت آچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ھے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کوئی معمولی غلطی نہیں ھے بلکہ یہ کوتاھی آخرت میں مواخذہ کاسبب بھی بن سکتی ہے،اسی لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے :
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْـهَا مَلَآئِكَـةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّـٰهَ مَآ اَمَرَهُـمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (6)
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (اور) اس پر فرشتے سخت دل قوی ہیکل مقرر ہیں وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ھے
نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کہ ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم رھے بلکہ مضبوط رہے ۔
اولاد کی تربیت کی قسمیں
۱-ظاہری تربیت
ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست و برخاست، میل جول،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں ، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں ۔
باطنی تربیت۔
اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ کو درست رکھنا ، انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کرنا جس میں سرفہرست قرانی تعلیم ھے اور ان کے اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے ۔
اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے ۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے ۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں ۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں ۔
حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:’’اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت۔ اس لیے کہ قرآن کریم یاد کرنے والے اللہ کے عرش کے سایہ میں انبیاء کرام کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔‘‘(طبرانی)
اس حدیث پاک میں جنابِ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ بچوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے بہترین راہنمائی فرما دی کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے محبت کرنا، ان کے اہل بیت، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرنا بچوں کو سکھایا جائے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی تلقین کی جائے ۔ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سے بہترین تحفہ قرآنی تعلیم ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کے لیے روپیہ، پیسہ اور طرح طرح کی جائیداد، پراپرٹی جمع کرتے تھکتے نہیں کہ یہ چیزیں ہمارے بعد ہماری اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں گی ، لیکن ان کی دینی علوم کی پیاس بجھانے کی ہم ذرا بھی فکر نہیں کرتے، حالانکہ جائیداد اور مال ودولت سے صرف دنیاوی حاجات کا تکفل ھو سکتا ھے جب کہ قرآن وحدیث اور دینی تعلیم تو دنیا وآخرت دونوں میں کام آتی ہے۔
۳ عملی تربیت
بچوں کی تربیت کا آسان اور مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ والدین ان کے سامنے اپنا عملی نمونہ پیش کریں مثلاً ۔
۱- جو والدین خود پانچ وقتہ نمازوں کا اھتمام کرتے ھیں ان کے بچے خود بخود نمازی بن جاتے ھیں ۔ باپ اگر اذان سنتے ہی فورا تمام کاموں کو ترک کرکے نماز کے لئے مسجد چلا جاتا ہے تو عنقریب وہ اپنے اس طرز عمل سے اپنے بچوں کو ان شاء اللہ نماز کا پابند بنا لے گا۔
2- جو باپ گھر میں داخل ہوتے وقت پہلے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور “السلام علیکم” کا التزام کرتا ہے اور اپنے بیوی بچوں کو دیکھ کر مسکراتا ہے تو اس طرح اس کے بچے بھی گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینا، سلام کرنا اور مسکرانا سیکھ لیں گے۔
3- جو باپ اپنے والدین کا احترام کرتا ہے اور ان کے ماتھے اور ہاتھوں کو چومتا ہے ۔ ان کی خدمت خوشی اور دلجمعی سے کرتا ھے اور ان کی فرمانبرداری کو عین سعادت سمجھتا ھے تو مسقبل میں اس کے بچے بھی اس کے ماتھا اور ہاتھ چومیں گے ، اس کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھیں گے اور اس کی فرمانبرداری کریں گے۔
4- جو باپ وقت ملنے ہر گھریلو کام کاج میں هاتھ بٹاتا ہے تو اس سے اس کے بچے بھی ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہم تعاون کرنا سیکھیں گے۔
5- جو ماں حجاب، نماز اور تلاوت قرآن کی پابند ہو تو اسے دیکھ کر اس کی بیٹی بھی حجاب، نماز اور تلاوت قرآن پاک کی پابند بنے گی۔
6- جو ماں باپ باہمی اتفاق و مفاہمت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، اپنی اولاد کے سامنے لڑائی جھگڑا اور آواز بلند نہیں کرتے تو ان کے بچے گھر سے محبت کرنے والے، ایک دوسرے کے ساتھ الفت و محبت اور باہمی اتفاق ومفاہمت سے زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں ۔
7- جو باپ صلہ رحمی کرتا ہے، اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ احسان کرتا ہے اور ان سے محبت کے رشتے استوار کیے رہتا ہے تو اس کی اولاد بھی اس سے یہ صلہ رحمی اور حسن سلوک کرنا سیکھتی ہے۔
8- جو باپ بعض امور میں اپنے بیوی بچوں سے رائے مشورے لیتا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر گفت و شنید کرتا ہے اور ان کی رائے کا احترام کرتا ہے تو اس سے اس کے بچے بھی باہمی گفت و شنید، باہمی رائے مشورے اور مثبت رویہ اپنانے کی عادت سیکھتے ہیں۔
9- جو باپ اپنی اولاد کے ساتھ سچائی اپناتا ہے تو اس کی اولاد بھی اس سے سچائی سیکھتی ہے اور جو باپ اولاد کے ساتھ وعدہ وفائی کرتا ہے تو اس کی اولاد بھی اس سے یہ وعدہ وفائی سیکھتی ہے۔
10- جو ماں باپ صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے ہیں اور ایک منظم اور مرتب زندگی گزارتے ہیں تو اس سے وہ اپنے بچوں کو ایک مرتب و منظم زندگی گزارنا سکھاتے ھیں ۔
11- جو ماں اپنے خاوند کا ادب، اکرام واحترام اور فرمانبرداری کرتی ھے، اسے اپنے سر کا تاج سمجھتی ھے اور عملاً ایسا کرکے بھی دکھاتی ھے تو اس کی بچیوں میں یہ خوبیاں خود بخود پیدا ھو جاتی ھیں
12- جو ماں اپنے سسر اور ساس کو ماں باپ کا درجہ دیتی ھے۔ سسرال والوں کی خدمت کرکے خوش ھوتی ھے تو اس کی بیٹیاں خود بخود یہ صفت حاصل کر لیتی ھیں اور سسرال جا کر بہت جلد اپنا مقام بنا لیتی ھیں ۔
13-جو ماں خود گالی گلوچ اور تاڑ پھاڑ سے پرھیز کرتی ھے اس کی اولاد کی زبانیں بھی اس سے تازندگی محفوظ ھو جاتی ھیں الغرض یہ کے بچے والدین کو جو عمل کرتے دیکھتے ھیں وہ اسے اپنی زندگی میں لے آتے ھیں
بچپن میں اولاد کی تعلیم و تربیت کا طریقۂ کار
چھوٹے بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ نقش علی الحجرکی طرح مضبوط وپائیدار ہوتی ہے ۔ قرآن وحدیث میں یہ حقیقت واشگاف انداز میں بیان کی گئی کہ ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے ۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا فرمان عالیشان ہے ہر نومولود، فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں ۔یعنی بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا؛ لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔
یہ حقیقت ھے کہ بچپن میں اولاد کی تربیت جوانی کے بالمقابل بہت آسان ہے، جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم ونازک پودوں کو بہ سہولت کہیں بھی موڑا جاسکتاہے اسی طرح بچوں کے خیالات،افکار اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے بآسانی لایاجاسکتا ہے اورجب وہ بڑے ہوجائیں اور اُن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہ سہی؛مگر مشکل ضرور ھو جاتی ہے اس لیے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے ۔
رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے ؟اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث وسیرت میں موجود ہیں ۔حضرت عمروبن ابی سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (رواہ مسلم)۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں :ایک روز اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا کہ آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے والدہ سے دریافت فرمایا: تم نے اسے کیا دینا چاہا؟ والدہ نے عرض کیا کہ کھجور دینا چاہتی تھی، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے والدہ سے ارشاد فرمایا: سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتی تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں )یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (رواہ ابوداؤ )
غور کیجیے کہ اللہ کے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے ۔
نوجوانوں کی تربیت کا لائحہ عمل
بچپن میں لاڈ، پیار اور غفلت و لاپرواہی کے سبب بعض اوقات اولاد کی تربیت میں کچھ کمی رہ جائے تو بڑے ہونے کے بعد بھی اس کمی کا ازالہ ممکن ہے ؛مگر مثبت نتائج کے لیے عجلت کا مظاہرہ نہ کیاجائے اور تربیت میں تدریجی انداز اختیار کیاجائے؛ چنانچہ بچوں کے بڑے ہوجانے کے بعد غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے : ۱-افہام وتفہیم۔۲-زجروتوبیخ۔۳-مارکے علاوہ کوئی دوسری سزا مثلاً غصہ و ناراضگی کا اظہار وغیرہ۔ یعنی غلطی ہوجانے پرحکمت عملی کے ساتھ تربیت کا اہتمام کیا جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحتاً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں ۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو نصیحت و موعظت کے مختلف انداز اختیارکیے جائیں ساتھ ہی اس کے دل میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے ۔اور سب سے بڑھ کر گھر کے ماحول کو خالص دینی بنانے کی ہرممکن کوشش کی جائے ؛تاکہ وہ رفتہ رفتہ دین سے قریب ہونے کا عادی ہوجائیں ۔ مذکورہ بالا امور کی انجام دہی کوایک چیلنج کے طور پر لیاجائے۔ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ ’’امت کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کے اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور نظام محمدی کا وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے ۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقل و ذہن کو اسلام پر پوری مطمئن کر دیا جائے … ‘‘ اس اہم اور بنیادی کام سے تغافل برتنا ایک سنگین جرم ہے، جس کا خمیازہ یقینا بھگتنا پڑے گا۔ نوجوانوں کے درمیان مقصد زندگی سے ناآشنائی، تزکیہ و تربیت کی کمزوری، اور ان کے اندر فکری، تعمیری اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھنا بہت بڑا المیہ ہے ۔
اولاد کی تعلیم کے حوالے سے والدین کی قسمیں
اولاد کو صرف عصری علوم دلانے والے والدین
وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف عصری علوم کے حوالے کردیتے ہیں ،ان کی دینی تعلیم وتربیت کی طرف یا تو بالکل توجہ نہیں کرتے یا معمولی سی توجہ کو کافی اور مفید سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح وہ عصری علوم پر خاطر خواہ محنت کو ضروری سمجھتے ھیں اتناہی یا اس سے زیادہ بنیادی دینی تعلیم یعنی قران پاک ، عقائد و اعمال، معاشرت و اخلاق اور معاملات و آداب وغیرہ سے متعلق ضروری امور ان کے قلب ودماغ میں راسخ کریں تاکہ فتنوں کے اس دور میں الحاد وارتداد کی کوئی لپیٹ انھیں متاع ایمان سے محروم نہ کر دے ۔
اولاد کو صرف دینی علوم کے لئے وقف کرنے والے والدین
وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف دینی تعلیم کے لیے وقف کردیتے ہیں اور انھیں دانستہ یا نادانستہ طور پر بنیادی عصری تعلیم سے بھی نابلد رکھتے ہیں ۔ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بدلتے حالات کے پیش نظر اولاد کو عصری علوم سے واقف کرانے کا اہتمام بھی ضرور کریں تاکہ مستقبل میں ان کی اولاد کسی بھی موقع پر دوسروں کی محتاج نہ رہے۔
اولاد کو دینی اور عصری علوم دلانے والے والدین
وہ والدین جواپنی اولاد کو دونوں یعنی عصری اور دینی علوم سے آراستہ کرتے ہیں اور عصری علوم کے ساتھ ساتھ قرانی تعلیم اور اسلامی تربیت کے ذریعہ ان کواچھی طرح آراستہ وپیراستہ کرتے ہیں ۔وہ والدین واقعی قابل صد مبارک باد ہیں ،اگے چل کر یہ بچے معاشرے کا بہترین حصہ بنتے ھیں ۔ ایسے والدین کو اپنے اس نظام کو فروغ دینے اور خاندان وقبیلے کے دوسرے سرپرستوں تک اس کی ترغیب پہنچانے کی بھی فکر کرنی چاہیے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کو دونوں علوم ( دینی اور عصری علوم) کی تربیت فراھم کرنے کے لئے والدین کو انتھک محنت کرنی پڑتی ھے سو والدین کو اس محنت کے لئے زھنی طور پر تیار رھنا چاھیے
اولاد کو بچپن سے کسی پیشہ سے وابستہ کرنے والے والدین
وہ والدین جو معاشی مجبوریوں یا دیگرمعقول و نامعقول اسباب کی بنا پر اولاد کے روشن مستقبل کا سودا کر دیتے ہیں اور بچپن ھی سے انھیں اپنے یا کسی دوسرے پیشہ سے وابستہ کردیتے ہیں ۔ انھیں سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کا یہ عمل اولاد کے مستقبل کے لیے سم قاتل اور زہر ہلاہل سے کم نہیں ،اس لیے بنیادی طور پر دینی وعصری علوم کے مکاتب واسکولز سے رجوع ہوکر بچوں کو قابل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ علم کی روشنی سے سارا گھر منور ہوجائے اور یہ بچے بڑے ھو کر دین ودنیا دونوں میں مفید و کارآمد ثابت ہوسکیں
المختصر یہ کہ اولاد کی تربیت کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ تربیت ہی انسان کی شخصیت کو نکھارتی، معاشرے کا مفید انسان بناتی ہے، تربیت سیکھے ہوئے علم کو عمل میں لانے اور درست سمت میں استعمال کا طریقہ سکھاتی ہے۔ تربیت یافتہ اولاد ہی دین و ملت کا بہترین سرمایہ بنتی ہے۔لہٰذا والدین کو چاہیے اپنی اولاد کی دینی و دنیوی تربیت کو ہرگز نظر انداز نہ کریں، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی نکات کی روشنی میں نئی نسل کی اصلاح و تربیت کا کام انجام دیا جانا چاہئے۔ بقول علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ:
گر آج بھی ہو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستان پیدا