افریقہ کے ایک شہر میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔ ۔ اسی سبب رمضان المبارک میں لوگ اُسے افطاری کے لئے اپنے گھر بلاتے تھے ۔ ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایا ۔ عالِم جی نے دعوت قبول کی، اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے،
وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا، ۔افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعا کی اور واپس چلے گئے، مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد, مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی، تو اسے یاد آیا کہ، اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی تھی، لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی، اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ، کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟ شوہر نے جواب دیا: نہیں،
اور پھر اس نے یہ بات شوہر کو بتائی کہ مہمان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر نہیں آیا اور ہمارا بچہ دوسرے کمرے میں تھا، اور جھولے میں رہنے والا اتنا چھوٹا سا بچہ ویسے بھی چوری نہیں کرسکتا۔ بالآخر دونوں میاں بیوی اس نتیجہ پر پہنچے کہ رقم مہمان یعنی امام مسجد نے ھی چوری کی ہے
یہ سوچتے ہوئے میزبان کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی، کہ یہ کیسا عالم ھے کہ ہم نے حافظ صاحب کو اتنے عزت و احترام کے ساتھ اپنے گهر بلایا، اور انہوں نے چوری جیسے جرم کا ارتکاب کیا، حالانکہ اس شخص کو تو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا، نہ کہ چور ڈکیٹ،
غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے شرم کے مارے اس بات کو چهپا لیا، لیکن درعین حال عالِمِ دِین سے دور دور رہنے لگا تاکہ سلام دُعا نہ کرنی پڑے، اسی طرح مکمل سال گذر گیا اور پھر رمضان المبارک آگیا،
اور لوگ پھر اسی خاص محبت اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے گھروں میں دعوت کے لیے بلانے لگے ۔ اس شخص نے اپنی زوجہ سے کہا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے ۔ مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں؟ زوجہ نے کہا: ھمیں مولانا صاحب کو ضرور بلانا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو،۔ ہم انہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ الله کریم بھی ہمارے گناہ معاف کردے،اور پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا۔
جب افطار وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو میزبان نے معزز مہمان سے کہا جناب آپ متوجہ تو ھوئے ہونگے کہ سال بھر سے آپ کے ساتھ میرا رویہ کچھ تبدیل ھو گیا ہے؟ عالم نے جواب دیا: ہاں, لیکن زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں تم سے اس کی وجہ معلوم نہ کرسکا،
میزبان نے کہا
قبلہ! میرا ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے آپ اس کا واضح جواب دیں گے، پچھلے سال رمضان المبارک میں میری زوجہ نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی، اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی تھی ، اور آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں نہیں ملی، کیا وہ رقم آپ نے اُٹھا لی تهی؟
عالم دین نے کہا:
۔ جی ھاں وہ رقم میں نے ھی اُٹھائی تهی میزبان یہ سن کر اور بھی زیادہ حیران پریشان ہو گیا، اور عالِمِ صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال رمضان المبارک کے مہینے میں جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تو میں نے دیکها کہ، کاونٹر پر کچھ پیسے رکھے ہوئے ہیں، چونکہ تیز ہوا چل رہی تھی، اور نوٹ ہوا سے ادھر ادھر اڑ رہے تھے، لہذا میں نے وہ نوٹ اٗٹھا کر جمع کئے، اور سوچنے لگا انہیں کہاں رکھوں اور میں وہ رقم فرش کے نیچے یا کہیں اور نہیں رکھ سکا کہ، ایسا نہ ہو تم وہ رقم نہ ڈھونڈ سکو، اور پریشان ہو جاؤ ۔ اس کے بعد عالم نے زور سے اپنا سر ہلایا، اور اُونچی آواز میں زارو قطار رونا شروع کر دیا، میزبان بہت حیران و ہریشان تھا کہ یہ ماجرہ کیا ھے ؟ اور پھر مولانا صاحب نے میزبان کو مخاطب کرکے کہا: میں اس لئے نہیں رو رہا کہ،تم نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا، اگرچہ یہ بھی بہت ھی دردناک ہے لیکن! میں اس لئے رو رہا ہوں کہ، 365 دن گذر گئے، اور تم میں سے کسی نے بھی قرآنِ کریم کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها،اور اگر تم قرآن پاک کو ایک بار بھی کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن پاک میں رکھی ھوئی مل جاتی، کیونکہ میں نے اسی خیال سے وہ رقم قرآن پاک میں رکھ دی تھی کہ قرآن پاک تو آپ نے ہڑھنا ھی ھو گا اور جب آپ قرآن پاک کھولیں گے تو رقم آپ کو مل جائے گی
یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید پر پڑی ھوئی گرد و غبار کو صاف کرتا ھوا اسے اٹها کر لے آیا ، اور عالم صاحب کے سامنے جلدی سے قرآن پاک کو کھولا، تو حیران ھوا کیونکہ اس کی مکمل رقم قرآن مجید میں رکھی ھوئی اُسے مل گئی تھی ۔
مقامِ آفسوس ھے کہ یہ حال ہے آج ہم مسلمانوں کا کہ ، سال بھر میں ایک مرتبہ بھی قرآن پاک نہیں کهولتے، اور پھر بھی اپنے آپ کو حقیقی اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔۔۔