لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(50)
ترجمہ: کنزالایمان
اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بےشک وہ علم و قدرت والا ہے
القرآن : (آیت 49 سے 50) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) اور کسی دوسرے کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں دیا۔ ہدایت اور ہر قسم کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ یہاں تک انسان اپنی اولاد کے بارے میں بھی اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے صرف بیٹیاں ہی عنایت کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے صرف بیٹے عطا کرتا ہے۔ کسی کو بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے اور کسی کو زندگی بھر کچھ بھی نہیں دیتا ۔ وہ ہر چیز کا کامل اور اکمل علم رکھنے کے ساتھ ہر کسی پر قدرت رکھنے والا ہے۔ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے حوالے سے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اے انسان! جس رب کے ساتھ تو کفر و شرک کرتا ہے اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے بیٹے، بیٹیاں دے اور جسے چاہے اسے بے اولاد رکھتا ہے۔
دنیا میں کوئی ایسا ایک بھی جوڑا نہیں جو اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کو جنم دے سکے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ذات ہے جو کسی کو بیٹے یا بیٹیاں دے سکے اور جسے اللہ تعالی اولاد نہ دینا چاھیے کوئی طاقت ایسی نہیں ھے جو اسے اولاد دے سکتا ہو ۔ سوچنے کی بات ھے کہ جب انسان اپنے رب کے سامنے اتنا بے بس ہے تو اسے دل کی رغبت کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے تاکہ دنیا میں اس کا بھلا ہو اور آخرت میں وہ سرخرو ہوسکے۔ اس کے باوجود یہ بیوقوف انسان کسی کو داتا کہتا ہے اور کسی کو اپنا دستگیر بنائے ہوئے ہے۔ حالانکہ جس شخصیت کو داتا کہا جاتا ہے وہ بیچارہ خود اہنے آپ کو اولاد دینے ہر قدرت نہیں رکھتا تھا اس لئے وہ زندگی بھر بیٹے اور بیٹی سے محروم رہا ۔ (
ہمارے معاشرے میں بیٹی کو ناپسند کرنے کی روش پروان چڑھتی جا رہی ہے بہت سے گھرانوں میں بیٹی پیدا ہونے کی وجہ سے بیوی پر جسمانی اور ذہنی تشدد , طرح طرح کی باتیں , طلاق کی دھمکیاں , گھر سے نکالنا , کوستے رہنا اور اس کی زندگی کو جہنم بنا دینا، معمول بن چکا ہے ۔ جن لوگوں کا تقدیر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے خوش ہونا چائیے ۔ ایمان کی کمزوری کے سبب جن بدعقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں، یہ سرا سر غلط ہے ۔ گو میڈیکل کے اعتبار سے صرف لڑکیوں کا پیدا ھونا بیوی کی وجہ سے نہیں بلکہ میاں کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ھوتا ھے جس کا علاج بھی کیا جاتا ھے تاھم اسلام کا نقطۂ نظر یہ ھے کہ اس میں بیویوں کا یا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں ۔ پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے ۔ وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔
لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں کئی مائیں بچی کی طرف توجہ نہیں دیتیں ، بعض مائیں دودھ ہی نہیں پلاتیں اور یوں بیٹی کے قتل کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ بیٹی کی پیدائش پر اسے ہسپتال ہی چھوڑ آنا یا گاڑی کے اندر ہی چھوڑ جانا یا گلا دبا کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دینا معمول کی خبریں بن چکی ہیں ۔ اللہ کے لیے بیٹیوں سے ایسا سلوک مت کریں۔ یہ بیٹیاں رب تعالی کی رحمت ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ کےسرکاتاج ہوتی ہیں ۔ یہ بیٹیاں باپ کاسہارا ہوتی ہیں ۔ باپ اور بھائیوں کےفیصلےکےسامنےاپنی خواہشات کودفن کردیتی ہیں یہ بیٹیاں ماں باپ کےدکھ درد میں ہروقت شریک رہتی ہیں
اے انسان ذرا سوچ کہ وہ عورت جو تیری ماں کے روپ میں ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے ایک ہی پیٹ سے نکلی تیری بہنیں تیری ماں کی بیٹیاں ہیں , تو نے بھی کسی کی بیٹی سے ہی نکاح کیا ہے , اگر آج اللہ نے تیرے ہی گھر رحمت نازل کی بھی ہے تو وہ تجھے اب کیوں زحمت لگنے لگی ہے۔ بیٹی کا قتل کبیرہ گناہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ [التكوير : 8]
اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔
بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ [التكوير : 9]
کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی؟
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا [الإسراء : 31]
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کا سبب موجودہ یا آئندہ فقر کا خوف بیان فرمایا ہے ۔ آج بیٹیوں کے قتل کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں یہی خوف کارفرما ہے کہ بیٹی بڑی ہو کر بوجھ بنے گی ۔ اسے جہیز دینا پڑے گا ۔ کما کر کھلانا پڑے گا وغیرہ وغیرہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو
بیٹی کی پیدائش پر منہ چڑھانا کفار کا طریقہ ہے
بیٹی کی پیدائش پر پریشان و غمگین ھونا ھمیشہ سے کفار کا طریقہ رھا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی حالت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [الزخرف : 17]
حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جائے جس کی اس نے رحمان کے لیے مثال بیان کی ہے تو اس کا منہ سارا دن سیاہ رہتا ہے اور وہ غم سے بھر ا ہوتا ہے۔
سورہ نحل میں ہے
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ [النحل : 58]
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا منہ دن بھر کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔
يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [النحل : 59]
وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، اس خوش خبری کی برائی کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ آیا اسے ذلت کے باوجود رکھ لے، یا اسے مٹی میں دبا دے۔ سن لو! برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
کظیم کا معنی
’’ كَظِيْمٌ ‘‘ کا معنی ’’ كَتْمٌ ‘‘ (چھپانا) ہے، یہ ’’ كَظَمَ الْقِرْبَةَ ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ جب مشکیزہ پانی سے بھر جائے، پھر اس کا منہ باندھ دیں تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی پھٹ جائے گا، مراد غم سے بھرا ہوا ہے، یعنی لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر سارا دن غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا رہتا ہے، مگر وہ غم سے بھرا ہونے کے باوجود اظہار نہیں کرتا۔ اپنے خیال میں اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، اس لیے اس خوش خبری کو وہ اتنا برا سمجھتا ہے کہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے، آیا اسے اپنے پاس رکھے اور جاہل معاشرے کی نظر میں ذلیل ہو کر رہنا برداشت کرے یا اسے مٹی میں چھپا دے، یعنی زندہ دفن کر دے۔
اللہ کی مرضی ہے بیٹی عطا کرے یا بیٹا یا دونوں یا کوئی بھی نہیں
بیٹی جنم دینے میں بیوی بے قصور ہے بلکہ میاں اور بیوی دونوں ہی بے قصور ہیں کیونکہ یہ فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ [الشورى : 49]
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔
أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ [الشورى : 50]
یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقینا وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
اس آیت میں یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں، جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی اور نہ ہی اس میں کسی نبی یا ولی، داتا، دستگیر یا دیوی دیوتا کا کوئی حصہ ہے، اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ کتنے جابر بادشاہ اور سپہ سالار، کتنے انبیاء و اولیاء اور کتنے ماہر ڈاکٹر اور حکیم اولاد سے محروم رہے، کتنے لڑکے کو ترستے رہے اور کتنے لڑکی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور جو چاہے دیتا ہے، چنانچہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا لڑکے لڑکیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے مرد ہو یا عورت عقیم (بانجھ) بنا دیتا ہے، کسی کو اس پر اعتراض یا شکوے کا کوئی حق نہیں۔ اگر مشرکین اس حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی شرک کی حماقت نہ کریں۔
بیٹی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے
’’ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا ‘‘ میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا گیا ہے۔
جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ وہ کسی عام ذات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ تحفہ پر منہ چڑھانے کی وجہ سے کہیں اس کے غضب کا شکار نہ بن جائیں اور کسی ایسے جوڑے کے احساسات معلوم کرنے چاہییں جنھیں لڑکی بھی عطا نہیں ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بیٹیوں کا ذکر فرمایا، پھر بیٹوں کے عطا فرمانے کا ذکر کیا۔
امام ابن قیم اس بارے لکھتے ہیں اللہ سبحانہ نے بیٹیوں کو مقدم کیا ہے، جن کو اہل جاہلیت مؤخر کرتے تھے، گویا کہ یہ بیان کرنا مقصود تھا، کہ تمہاری طرف سے نظر انداز کی ہوئی یہ حقیر قسم میرے نزدیک ذکر میں مقدَّم ہے
بیٹیاں ہی دکھ درد میں والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہیں عورت فطری طور پر محبت کی مٹی میں گوندھی ہوتی ہے مامتا اس کا بنیادی وصف ہے وہ بہن کے روپ میں بھی مامتا سے مالا مال ہوتی ہے چھوٹے بہن بھائیوں سے اس کا طرز عمل ماں جیسا ہوتا ہے ۔ ایسے واقعات بہت ہیں کہ بہن مالدار ہوتو بھائیوں کا ضرور خیال رکھتی ہے لیکن ایسا بہت کم ہے کہ بھائی مالدار ہوں اور بہن کا خیال رکھتے ہوں
بہت جگہوں پر مشاہدہ کیا گیا ہے مثال کے طور پر ایک شخص مریدکے میں رہتا ہے اس کے چار بیٹے اور چار ہی بیٹیاں ہیں
ایک بیٹی کی شادی لاہور دوسری کی شیخوپورہ تیسری کی گوجرانوالہ اور چوتھی کی شادی نارووال میں کی گئی ہو جب کبھی وہ شخص بیمار ہو یا ان بیٹیوں کی ماں بیمار ہو تو گھر میں موجود چاروں بیٹے تو شاید خدمت کریں یا نہ کریں لیکن وہ چاروں بیٹیاں ضرور حاضر خدمت ہوں گی چاہے وہ اکٹھی آجائیں یا آپس میں باری مقرر کرکے ایک ایک ہفتہ آتی رہیں یہ سب الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِیَاتُ کی عملی تصویر ہے
بیٹیاں دوزخ کی آگ کے سامنے پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی
اسلام نے بیٹیوں کے حقوق کما حقہ ادا کرنے والوں کو اس قدر خوشخبریاں دی ہیں کہ اتنی خوشخبریاں دس بیٹے رکھنے والوں کو بھی نہیں دی گئی
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’مَنْ کَانَ لَہُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ، وَأَطْعَمَھُنَّ، وَسَقَاہُنَّ، وَکَسَاھُنَّ مِنْ جِدَتِہِ کُنَّ لَہُ حِجَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘
أخرجه أحمد (17403)، والبخاري في "الأدب المفرد” (76)،تحقيق الألباني:صحيح، الصحيحة (294)
[جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں، اور وہ ان پر صبر کرے، انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے، تو وہ اس کے لئے روزِ قیامت پردہ ہوں گی (یعنی دوزخ کی آگ کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی۔)]
امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: ’’میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ آئی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا، لیکن اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہ پایا۔ میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے اس کو لے کر ان دونوں میں تقسیم کردیا اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چلی گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا واقعہ سنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ ابْتُلِيَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَيْئٍ، فأَحْسَنَ إِلَیْھِنَّ، کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ۔
[جس شخص کو ان بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا، تو وہ اس کے لیے [جہنم کی] آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی۔‘‘]
(متفق علیہ)
امام الخرائطى رحمہ اللہ فرماتے ہیں سيدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کی چھوٹی بیٹی دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئی، تو اٹھا کے گلے لگا کر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگے : خوش آمدید اے عبدالله کو جہنم کی آگ سے بچانے والی خوش آمدید
مکارم الاخلاق ٦٣٤ ]
ممممممممممممممممممم
بیٹیاں جنت میں لے جائیں گی
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں اور وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں،یا جب تک وہ ان کے ساتھ رہے ، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کردیں گی۔
(جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں ) کا مطلب یہ ہے کہ ان کا نکاح ہو جانے تک ، یا نکاح سے پہلے فوت ہو جانے تک ان سے اچھا سلوک کرے، ان کی اچھی تربیت کرے، ان کی جائز ضروریات پوری کرے۔ (جب تک وہ ان کے ساتھ رہے۔) کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کا نکاح کرنے سے پہلے فوت ہو جائے اور اپنی وفات تک ان سے اچھا سلوک کرتا رہے تو جنت میں داخل ہو جائے گا۔ بیٹیوں کی پرورش اور تربیت کرنے والا جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے ہوگا جیسے ہاتھ کی ایک انگلی دوسری کے ساتھ ہوتی ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی، بلوغت کو پہنچنے تک، پرورش اور تربیت کی، وہ قیامت کے دن [اس طرح] آئے گاکہ میں اور وہ۔‘‘اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو [ایک دوسری سے] ملا دیا۔]
صحیح مسلم،
(وضَمّ أصَابِعَہُ) اس سے مراد یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں یعنی شہادت اور درمیانی انگلیوں کو آپس میں ملایا اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ اور اس کے درجہ میں اسی قدر تفاوت ہوگا، جس قدر فاصلہ ان دونوں انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے۔یہ بھی احتمال ہے، کہ اس سے مراد یہ ہو، کہ جنت میں داخلہ کے وقت وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر قریب ہوگا۔ اور اس بات کا بھی احتمال ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کا مقصود دونوں باتیں ہی ہوں، کہ وہ جنت میں بہت جلدی داخل ہوجائے گا، کیونکہ وہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگا اور اس کا مقام و مرتبہ بھی جنت میں بہت بلند ہوگا
بيٹی کی پرورش کرنے والی ماں جنت میں داخل ہو گی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بیٹیاں اٹھائی ہوئی تھیں، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے کہا ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دی، (بچی ہوئی) ایک کھجور کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف لے گئی، تو وہ بھی اس کی دو بیٹیوں نے کھانے کے لیے مانگ لی، اس نے وہ کھجور بھی جو وہ کھانا چاہتی تھی، دو حصے کر کے دونوں بیٹیوں کو دے دی۔ مجھے اس کا یہ کام بہت اچھا لگا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا:
"اللہ نے اس (عمل) کی وجہ سے اس کے لیے جنت پکی کر دی ہے یا (فرمایا: ) اس وجہ سے اسے آگ سے آزاد کر دیا ہے۔”
مسلم
’’انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘
امام احمدکے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں، کہ جب ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی ، تو وہ فرماتے:’’
[’’انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔‘‘]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بیٹیاں
بیٹی کی پرورش کے حوالے سے یہی بات بہت بڑی ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی چار بیٹیوں کے باپ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جایا کرتے۔ عموماً سفر سے واپسی پر ازواج مطہرات کے حجروں میں جانے سے پہلے انہی کے گھر جاتے۔ آپ اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لیے اٹھ کر آگے بڑھتے انہیں خوش آمدید کہتے۔ انہیں بوسہ دیتے۔ ان کا ہاتھ تھام لیتے اور مجلس میں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھاتے۔ بیٹی کے استقبال میں ان سب باتوں کا اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو اپنا جگر گوشہ قرار دیتے ہوئے بیٹی کی تکلیف کو اپنی تکلیف قرار دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو تھکاوٹ کی پریشانی کا تریاق بتاتے ہوئے نماز کے بعد اور بستر پر آنے کے بعد پڑھنے والے کلمات بھی سکھلائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبزادی کو دنیاوی زیب و زینت سے دور رکھنے کی سعی فرمائی، بیٹی کو باپ پر آس لگانے کی بجائے خود دوزخ کی آگ سے بچاؤ کی خاطر کوشش کرنے کی تلقین فرمائی۔ اپنی بیٹیوں کو صبر کی تلقین فرماتے۔ صاحبزادی کو اپنی وفات کی قبل از وقت خبر دیتے وقت تقویٰ اور صبر کی تلقین فرمائی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادیوں کی عائلی زندگی کے معاملات کی طرف خصوصی توجہ فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادیوں کا خود اہتمام فرمایا، رخصتی کے وقت بیٹی کو تحائف دئیے، بیٹی کی عائلی زندگی میں ہونے والے نزاع کی اصلاح فرمائی۔ داماد کو رہا کرتے وقت بیٹی کو بھیجنے کی شرط لگائی بیٹی کی وفات پر شدتِ غم کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، لیکن زبان سے صبر کے منافی ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ صاحبزادیوں کی وفات پر شدتِ الم و رنج کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تجہیز، تکفین اور تدفین کا بندوبست ذاتی نگرانی میں کرواتے۔
بیٹے اور بیٹی میں تقابل
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر بیٹا والدین کے سامنے بہنوں کو مار رہا ہو یا گالیاں دے رہا ہو تو والدین کچھ بھی نہیں کہتے لیکن اگر کبھی بیٹی ایسا کرے تو فوراً ٹوک دیتے ہیں بیٹا غلطی کرے تو پیار سے سمجھاتے ہیں بیٹی غلطی کرے تو ڈانٹتے ہیں بیٹا بیمار ہو تو والدین کی جان پر بن جاتی ہے بیٹی بیمار ہو تو فکر ہی نہیں ہوتی عام طور پر بیٹے کو ترجیح اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ معاشی سہارا بنتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ بیٹی کچھ بھی نہیں کماتی0 حالانکہ اگر بیٹی کچھ نہیں کماتی تو بیٹے بھی جب کمائی کے قابل ہوتے ہیں تو اکثر والدین کو ان کی کمائی پر اختیار ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ گھر میں رزق بیٹی ہی کی وجہ سے آ رہا ہو کیونکہ بیٹی کمزور ہوتی ہے اور حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( تم اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیئے جاتے ہو) بیٹی کے متعلق خیال ہوتا ہے کہ اس نے پرائے گھر چلے جانا ہے جبکہ اکثر بیٹے بھی شادی کے بعد الگ گھر آباد کرلیتے ہیں
اگر بیٹی کی حفاظت ایک داخلی معاملہ ہے تو بیٹے کو کنٹرول کرنا ایک خارجی اور اس سے بھی سخت معاملہ ہے بیٹی کو جہیز دینا پڑتا ہے تو بیٹے کے لیے بھی بھری چڑھانا پڑھتی ہے دونوں کی شادی کے اخراجات تقریباً برابر ہیں اس پر مستزاد یہ کہ بیٹے کو مہنگا مکان بنا کر دینا پڑھتا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے سے نسل چلتی ہے، یہ تصور انتہائی فرسودہ ہے لوگوں کو دوسری تیسری نسل میں دادا پردادا کا نام تک یاد نہیں رہتا اور اتنی کو دیر تو لڑکی کی اولاد یعنی نواسے نواسیاں بھی یاد رکھ لیتی ہیں کہتے ہیں کہ بیٹا بڑا ہو کر باپ کی جگہ کام کرتا ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ بیٹی بھی بڑی ہو کر ماں کی جگہ کام کرتی ہے نہیں تو کسی ایسے جوڑے سے مل کر ان کے حالات پوچھ لیں جن کے چھے سات بیٹے ہوں اور بیٹی کوئی بھی نہ ہو
ممممممممممممممممم
اگر بیٹا نعمت ہے تو بیٹی نیکی ہے
امام ابن عبد البر المالكي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” البنون نعم، والبنات حسنات، والله -عز وجل- يحاسب على النعم ،ويجازي على الحسنات
بیٹے نعمتیں ہیں اور بیٹیاں انسان کی نیکیاں ہیں اللہ تعالی نعمتوں کا حساب لے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا کرے گا
بعض اوقات بیٹی، بیٹے سے بہتر ہوتی ہے
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عمران کی بیوی کا تذکرہ کیا ہے اس نے اللہ تعالیٰ سے بیٹا مانگا تھا لیکن اللہ نے اس کو بیٹے سے بھی اچھی نیک اور بلند مرتبہ والی بیٹی عطا فرمائی وہ کہنے لگی
اے میرے رب! یہ تو میں نے لڑکی جنی ہے
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى [آل عمران : 36]
اور لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں
ہمارے استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ
(وَ لَيْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى:)
کے متعلق لکھتے ہیں
بظاہر تو کہنا چاہیے تھا کہ لڑکی لڑکے جیسی نہیں مگر الٹ فرمایا، یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ لڑکا جو عمران کی بیوی کے ذہن میں تھا اس لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا جو انھیں عطا کی گئی۔
اور وہ لڑکی واقعی کمال ثابت ہوئی بلکہ بہت سے مردوں سے مقام و مرتبہ میں بلند ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيْدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ ]
[بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی : « و ضرب اللہ مثلا…» : ۳۴۱۱، عن أبي موسیٰ رضی اللہ عنہ ]
’’مردوں میں سے بہت سے کامل ہوئے ہیں، مگر عورتوں میں فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم کے سوا کوئی کامل نہیں ہوئی اور عائشہ کی عورتوں پر برتری ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی برتری تمام کھانوں پر۔‘‘
ایسی کمال کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے مثال کے طور پر فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران کا بیان فرمایا ہے کہ دونوں اعلیٰ درجے کے ایمان والی تھیں۔
فرمایا
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ [التحريم : 11]
اور اللہ نے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی، جب اس نے کہا اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ [التحريم : 12]
اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی ایک روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی۔
کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ بیٹی کی وجہ سے بیٹے سے بھی اچھا داماد مل جاتا ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات یعنی امھات المؤمنین کی مثال ہمارے سامنے ہے
امھات المؤمنین کے وہ والدین اور بہن بھائی جو مسلمان تھے وہ کتنے خوش نصیب ہیں جن کے گھروں میں ایسی بیٹیوں اور بہنوں نے جنم لیا کہ جو بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر امھات المؤمنین کے لقب سے سرفراز ہوئیں
اور ایسا مقام ملا کہ کائنات میں ممتاز ہو گئیں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا [الأحزاب : 32]
اے نبی کی بیویو! تم عورتوں میں سے کسی ایک جیسی نہیں ہو، اگر تقویٰ اختیار کرو تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو۔
ابو بکر صدیق، عمر فاروق، ابوسفیان اور ان کی بیوی ھند رضی اللہ عنہم اجمعین کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جن کے گھروں میں ایسی بیٹیوں نے جنم لیا کہ انہیں ان بیٹیوں کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم داماد ملا کہ جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے
اور
عبدالرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن عمر اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو ان بہنوں کی وجہ سے خال المؤمنین کہلائے
ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے شیطان نے اس کو بہکایا چناں چہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اب بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور ؟
رات کو سویا تو اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا اسے معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔
اللھم ارزقنا السابعۃ
اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔
اللہ رب العزت تمام بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے💝
آمین یارب العالمین