چالیس سال کی عمر اور پڑھنے کے لئے قرآنی دعا

چالیس سال یا اس سے زیادہ عمر والے متوجہ ھوں 


وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً.

’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے۔‘‘

الأحقاف، 46: 15

قرآنِ مجید نے 40 سال کی عمر کو پختگی کی عمر قرار دیا ہے۔ عام فہم بات ہے کہ انسان کی بلوغت کے بعد اس کے شباب کا آغاز ہو جاتا ہے، 40 سال کی عمر میں شباب یعنی جوانی سے بڑھاپے کی طرف سفر شروع ھو جاتا  ہے۔ یعنی بلوغت سے لیکر 40 سال تک کی عمر جوانی کی عمر ہی کہلاتی ہے۔ 

امام فخرالدین رازی رحمة اللہ علیہ نے مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے:

اخْتَلَفَ الْمُفَسِّرُونَ فِي تَفْسِيرِ الْأَشُدِّ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي رِوَايَةِ عَطَاءٍ يُرِيدُ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ سَنَةً وَالْأَكْثَرُونَ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّهُ ثَلَاثَةٌ وَثَلَاثُونَ سَنَةً، وَاحْتَجَّ الْفَرَّاءُ عَلَيْهِ بِأَنْ قَالَ إِنَّ الْأَرْبَعِينَ أَقْرَبُ فِي النَّسَقِ إِلَى ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ مِنْهَا إِلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ. وَقَالَ الزَّجَّاجُ الْأَوْلَى حَمْلُهُ عَلَى ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ سَنَةً لِأَنَّ هَذَا الْوَقْتَ الَّذِي يَكْمُلُ فِيهِ بَدَنُ الْإِنْسَانِ.

’’اس آیت میں اشد (پوری قوت کو پہنچا) کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُھما نے فرمایا کہ اس سے مراد اٹھارہ سال اور اکثر مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد تینتیس(33) سال ہے۔ فراء نے اس پر یہ دلیل قائم کی ہے اٹھارہ کی بہ نسبت تینتیس (33) سال، چالیس سال سے زیادہ قریب ہے۔ اور زجاج نے کہا کہ تینتیس (33) سال، اس لیے راجح ہیں کہ اس عمر میں انسان کے بدن کی قوت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔‘‘

(الرازي، التفسير الكبير)


مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کی عمر کہا جاسکتا ہے۔ انسان کی عمر مختلف مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ پیدائش سے بلوغت تک کا عرصہ بچپن کہلاتا ہے، پھر بلوغت سے اٹھارہ سال کی عمر کو نوجوانی اور اٹھارہ سال سے چالیس سال تک کی عمر کو جوانی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑھاپے کے آثار  شروع ہو جاتے ھیں ۔جسے ھمارے ھاں اُترتی جوانی بھی کہا جاتا ھے 

رسول اللہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) فرماتے ہیں: جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے، جنون ،کوڑھ اور برص ۔  سن چالیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جسے قرآن پاک  نے ایک خاص دعا سے بھی نوازا ہے ، اس لئے چالیس سال کی عمر پہنچنے پر یا پہنچنے کے بعد اس دعا کا ضرور اھتمام کرنا چاھیے


چالیس سال کی عمر ہونے کے بعد پڑھنے کی دعا

رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْکُرَنِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ، اِنِّـیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اِ نِّـیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۝

اے میرے ربّ، مجھے توفیق دے کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا ہے اس کا شکر ادا کرتا رہوں اور ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن کو تو پسند کرے اور میری خاطر میری اولاد کی اصلاح فرما، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمین میں سے ہوں۔   (الاحقاف ) 

یہ ایک معنی خیز دعا ہے جس میں ماضی کے لیے شکر اور آنے والے دنوں کے لیے دعا شامل ہے۔

سن چالیس میں انسان خود کو ایک  بڑے پہاڑ کی چوٹی پر محسوس کرتا ہے، وہ ڈھلانوں  پر نظر ڈالے تو اسے اپنے بچپن ، لڑکپن ،نوجوانی اور گزری ھوئی جوانی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور ان کی خوشبو اب بھی اس کے دل میں محسوس ہوتی ہے۔ اور جب وہ دوسری طرف دیکھتا ہے تو اسے اپنی زندگی کے باقی مراحل قریب قریب محسوس ہوتے ہیں۔ یہ انسان کی عمر کا وہ حصہ ھوتا  ہے جب انسان میں ھر عمر کے لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ھو جاتی  ہے۔ وہ جوانوں کی طرح سوچ سکتا ہے، بوڑھوں کے جذبات کو سمجھ سکتا ہے، اور بچوں کی طرح خوشیاں محسوس کر سکتا ہے۔

عموماً چالیس کی دہائی میں انسان اپنے بالوں میں سفید لکیریں دیکھنے لگتا ہے، اور بعض لوگوں کی آنکھوں کی روشنی بھی کم ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے عینک  بھی ایک ضرورت بن جاتی ہے۔ چالیس کی عمر کے بعد شاید  پہلی بار بازار یا عوامی جگہوں پر لوگ آپ کو "چاچا" یا "خالہ “کہہ کر بلانے لگتے ہیں، جو اکثر اوقات حیرت کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ ساٹھ  یا ستر سالہ افراد آپ کو جوان کہتے ہیں، تو آپ مزید حیران ہو جاتے ہیں۔

چالیس کی دھائی میں "زندگی کی درمیانی عمر کا بحران" شروع ہوتا ہے، جس میں آپ کے اندر سخت سوالات سر اٹھاتے ہیں ۔ یہ سوالات آپ خود سے پوچھ رھے ھوتے ھیں ۔ مثلاً  آپ نے اپنے کام میں کیا حاصل کیا؟  اپنی فیملی کے لیے کیا کیا؟  اپنی ماضی کی زندگی میں کیا حاصل کیا؟ اپنے رب کے ساتھ کتنا تعلق بنایا یعنی معرفت الہی کا سفر کہاں تک طے کیا اور معرفت اور  تعلق میں کیا حاصل کیا؟ اگر ابھی  تک بھی آپ نے اپنے رب کی طرف رجوع نہیں کیا پھر کب کریں گے؟ اس عمر میں جاکر یہ سوالات دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں ۔ کیونکہ وقت کی رفتار بہت تیز ہے، اور بچپن میں ہم جیسے چالیس سال کی عمر والے افراد کی دنیاوی خواہشات پوری طرح سمجھتے تھے، آج ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک کرنے کو بہت کچھ باقی ہے۔

چالیس کی دہائی میں ہمیں اپنے ارد گرد موجود بہترین چیزوں کی حقیقی قدر سمجھ میں آنے لگتی ہے۔جب ھم اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کر رھے ھوتے ھیں تو ھمیں شدت سے اہنے والدین کا احساس ھونا شروع ھو جاتا ھے  ہم اپنے والدین کو دیکھتے ہیں، (اگر وہ زندہ ہوں، )تو ہمیں ان کی قدر و منزلت کا احساس ہوتا ہے اور یہ کہ ہمیں ان کی خدمت کرنی چاہیے۔ اس عمر میں ھمیں والدین کو کھونے کا دھڑکا سا بھی  لگا رھتا ھے اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں، جو اب بچپن سے لڑکپن اور نوجوانی میں داخل ھو رھے ھوتے ھیں  اور ہم ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے بھائیوں اور دوستوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کی موجودگی میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

چالیس کی دہائی میں انسان کا وہ وقت آتا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پہچانے اور ایک متوازن اور دانا شخصیت بنے۔ یہ عمر دراصل فصل کاٹنے کا وقت ہے، جس میں ہم اپنے ماضی کے اعمال کے نتائج دیکھنا شروع کرتے ہیں، لیکن ابھی بھی تبدیلی ممکن ہے۔

چالیس کی دھائی کے بارے میں بعض اکابرین کےبارے میں کتابوں میں لکھا ھے کہ وہ اس عمر میں بستر لپیٹ کر رکھ دیتے تھے کہ اب سونے کا زمانہ ختم ھو گیا ۔ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیئے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع و رغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیئے ۔

چالیس سال کا سفر طے کرنے والوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام  ۔  اللہ تعالی  آپ  سب جو چالیس سال کی عمر کو پہنچنے والے ھیں یا پہنچ گئے ھیں کے دلوں کو  اپنی معرفت ، قرآن و سنت کے علم  ، صراطِ مستقیم  اور دین سے روشن کرے اور آپ کے سینے کو بھرپور ایمانی قوت ، ہدایتِ کامل  اور یقینِ محکم  سے بھر دے۔

آمین یا رب العالمین


Share: