دجّال کہاں ھے؟ اور کب ظاھر ھو گا؟

 

سیدنا حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی دجال سے ملاقات!

حضرت فاطمہ بنت قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے منادی کو سنا وہ اعلان کررہا تھا ...الصلاةُ جامعة.. میں نماز کے لئے نکلی اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ساتھ (مردوں کے پیچھے عورتوں کی صف میں) نماز ادا کی رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نماز سے فارغ ہوکر منبر پر بیٹھے ....آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے چہرہ پر اس وقت مسکراہٹ تھی ۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بیٹھا رہے.. اس کے بعد آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا جانتے ہو میں نے تم کو کیوں جمع کیا ہے انھوں نے عرض کیا ”اللہ و رسولہ اعلم“ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا واللہ!  میں نے تم کو نہ تو مال وغیرہ کی تقسیم کیلئے جمع کیا ہے نہ کسی جہاد کی تیاری کے لئے ۔  بس صرف اس بات کے لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جو پہلے نصرانی تھے اور اب مسلمان ہوگئے ھیں اور انہوں نے مجھ سے ایک قصہ بیان کیا (میں اس سے خوش ہوا میں چاہتا ہوں کہ تم سے بیان کروں) جس سے تم کو میرے اس بیان کی تصدیق ہوجائے گی جو میں نے کبھی دجال کے متعلق تمہارے سامنے ذکر کیا تھا. وہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ھیں کہ میں ایک بڑی کشتی میں سوار ہوا جس پر سمندروں میں سفر کیا جاتا ہے میرے ساتھ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمی اور بھی تھے سمندر کا طوفان ایک ماہ تک انکا تماشا کرتا رہا..آخر مغربی جانب ان کو ایک جزیرہ نظر آیا جس کو دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوئے اور چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر اس جزیرہ پر اتر گئے ۔ سامنے سے ان کو جانور کی شکل کی ایک چیز نظر آئی... جس کے سارے جسم پر بال ہی بال تھے کہ ان میں اس کے اعضائے مستورہ تک کچھ نظر نہ آتے تھے۔ لوگوں نے اس سے کہا کمبخت تو کیا بلا ہے؟ وہ بولی میں دجال کی جاسوس ہوں۔  چلو اس گرجے میں وہاں ایک شخص ہے جو تمہاری خبروں کا شوقین ہے.  یہ کہتے ہیں کہ جب اس نے ایک آدمی کا ذکر کیا تو اب ہم ڈر گئے کہ کہیں وہ کوئی جن نہ ہو...۔ ہم لپک کر گرجے میں پہنچے تو ہم نے ایک بڑا قوی ہیکل شخص دیکھا کہ اس سے قبل ہم نے ویسا کوئی شخص نہیں دیکھا تھا اس کے ہاتھ گردن سے مِلا کر اور اس کے پیر گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے نہایت مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھے۔ ہم نے اُسے کہا تیرا ناس ہو تو کون ہے؟ وہ بولا تم کو میرا پتہ کچھ نہ کچھ لگ ہی گیا ھے ۔ اب تم بتاؤ تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا ہم عرب کے باشندے ہیں۔  ہم ایک بڑی کشتی میں سفر کررہے تھے سمندر میں طوفان آیا اور وہ طوفان ایک ماہ تک رہا۔ اس کے بعد ہم اس جزیرہ میں آئے تو یہاں ہمیں ایک جانور نظر پڑا جس کے تمام جسم پر بال ہی بال تھے۔  اس نے کہا میں (جساسہ) جاسوس ہوں چلو اس شخص کی طرف جو اس گرجے میں ہے ۔ اسلئے ہم جلدی جلدی تیرے پاس آگئے، اس نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ بیسان (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کی کھجوروں میں پھل آتا ہے یا نہیں ہم نے کہا ہاں آتا ہے۔ اس نے کہا وہ وقت قریب ہے جب اس میں پھل نہ آئے۔ پھر اس نے پوچھا اچھا بُحیرئہ طبریہ کے متعلق بتاؤ اس میں پانی ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا اس میں بہت پانی ہے ۔ اس نے کہا وہ زمانہ قریب ہے جبکہ اس میں پانی نہ رہے گا ۔ پھر اس نے پوچھا زُغَر (شام میں ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے متعلق بتاؤ اس میں پانی ہے یا نہیں اور اُس بستی والے اپنے کھیتوں کو اس کا پانی دیتے ہیں یا نہیں؟ ہم نے کہا اس میں بھی پانی بہت ہے اور بستی والے اسی کے پانی سے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پھر اس نے کہا اچھا “نبی الامین “ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا کچھ حال سناؤ ہم نے کہا وہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا عرب کے لوگوں نے ان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ساتھ جنگ کی ہے؟ ہم نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا اچھا پھر کیا نتیجہ رہا؟ ہم نے بتایا کہ وہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  اپنے گرد و نواح پر تو غالب آچکے ہیں اور لوگ ان کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔ اس نے کہا سن لو: ان کے حق میں یہی بہتر تھا کہ ان کی اطاعت کرلیں ۔ 

نبی آخر الزماں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی بعثت کی خبر سن کر اس نے مارے خوشی کے چھلانگ لگائی اور کہا اب میں تم کو اپنے متعلق بتاتا ہوں، میں “مسیح الدجال “ہوں اور اب وہ وقت قریب ہے جب مجھ کو یہاں سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے گی ۔ میں یہاں سے باہر نکل کر تمام زمین میں گھوم جاؤں گا اور چالیس دن کے اندر اندر کوئی بستی ایسی نہ رہ جائے گی جس میں داخل نہ ہوں بجز مکہ مکرمہ  اور  طیبہ کے کہ ان دونوں مقامات میں میرا داخلہ ممنوع ہے، جب ان دونوں میں سے کسی بستی میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا اس وقت ایک فرشتہ ہاتھ میں ننگی تلوار لئے سامنے آکر مجھے داخل ہونے سے روک دے گا اور ان مقامات کے جتنے راستے ہیں ان سب پر فرشتے ہوں گے جو ان کی حفاظت کررہے ہوں گے۔

فاطمہ بنت قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنی لکڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ وہ طیبہ یہی مدینہ ہے یہ جملہ تین بار فرمایا ۔ دیکھو کیا یہی بات میں نے تم سے بیان نہیں کی تھی لوگوں نے کہا جی ہاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بیان فرمائی تھی۔

اس کے بعد نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا دیکھو وہ بحرِ شام یا بحر یمن بلکہ مشرق کی جانب ہے اور اسی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔ (مسلم شریف) 

دجال پیدا ہوچکا ہے ۔ اُسے ایک جزیرہ میں قید کرکے رکھا گیا ہے، وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا، جیسا کہ صحیح مسلم میں فاطمہ بنت قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا کی روایت میں مذکور ہے اور حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے اسلام لانے کا سبب بھی یہی واقعہ ہوا کہ انھوں نے ایک جزیرہ میں دجال سے بات چیت کی اور پھر مدینہ منورہ  آکر اسلام قبول کیا۔

دجال کہاں قید ہے؟ اس کو آحادیثِ مبارکہ  میں مبہم رکھا گیا ہے ۔ مسلم شریف کی حدیث کے آخر میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کا یہ قول درج ہے: 

أَلَا إِنَّہُ فِی بَحْرِ الشَّأْمِ، أَوْ بَحْرِ الْیَمَنِ، لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ، مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا ہُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، مَا ہُوَ وَأَوْمَأَ بِیَدِہِ إِلَی الْمَشْرِقِ (مسلم شریف)

دجال کا ظہور کہاں سے ہوگا ؟ اس بارے میں مسلم شریف اور بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ”یأتي من قبل المشرق“ اس سے اتنا معلوم ہوا کہ دجال جانب مشرق سے ظاہر ہوگا اور مسلم شریف میں حضرت سمعان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  کی روایت میں مزید یہ ہے کہ وہ ”حلہ“ نامی جگہ جو شام اور عراق کے درمیان ہے وہاں سے ظاہر ہوگا۔ (مسلم شریف )  اور ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے:

 عَنْ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   قَالَ: الدَّجَّالُ یَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالمَشْرِقِ یُقَالُ لَہَا: خُرَاسان، 

یعنی دجال خراسان جو مشرق کی جانب  واقع ہے وہاں سے ظاہر ہوگا۔

رہا یہ سوال کہ دجال کب پیدا ہوا تھا ؟ تو آحادیثِ مبارکہ میں اس کی صراحت موجود نہیں ھے ۔ تو جب احادیثِ مبارکہ میں اس امر کو بیان نہیں کیا گیا تو ہھر ھمیں  بھی اس کی کھوج میں لگنے کی کوئی ضرورت نہیں  ھے ۔ تاھم قُربِ قِیامت کی دس بڑی علامات میں سے ایک علامت “ دَجّال کا ظاہر ہونا “ بھی ہے ، دجّال کا فتنہ تاریخِ انسانی کی ابتدا سے لے کر انتہا تک کے تمام فتنوں سے بڑا اور خطرناک فتنہ ہے ، جس کی بڑائی اور شدّت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ “ ہر ایک نبی  علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام   نے اپنی اپنی اُمّت کو دجّال کے فتنہ سے ڈرایا تھا۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے بھی اپنی اُمت کو اس فتنہ سے ڈرایا ھے ۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ ھے

عن أبي هريرة رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قال: قال رسول الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ : « ألا أخبركم عن ‌الدجال حديثا ما حدثه نبي قومه، إنه أعور، وإنه يجيء معه مثل ‌الجنة والنار، فالتي يقول إنها ‌الجنة هي النار، وإني أنذرتكم به كما أنذر به نوح قومه". (صحيح مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا سے روایت ہے  رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:  کیا میں تمہیں دجال کے بارے میں وہ باتیں نہ بتاؤں جو کسی نبی نے اپنی قوم  کو نہیں  بتائیں ، وہ کانا ہوگا، اس کے ساتھ جنت اور  جہنم کی طرح  کی چیز ساتھ ہوگی،  جو جہنم کہی جائے گی وہ (درحقیقت ) جنت ہوگی، میں تمھیں اس ( فتنہ دجال ) سے اس طرح ڈراتا ہوں جس طرح نوح نے اپنی قوم کو ڈرایا۔

Share: