قربانی کی کھاليں

قربانی کی کھاليں

سوال : كيا فرماتے هيں علماءِ دين اور مفتيانِ عظيم بيچ إس مسئله كے…قربانی کی کھال کے شرعی احکام کیا ہیں؟ کیا قربانی کرنے والا اس کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے؟ قرباني كي كهال كو کسی جماعت یا رفاہی ادارے میں دینا کیسا ہے؟

جواب… قربانی کی کھال کو قربانی کرنے والا اپنے استعمال میں تو لاسکتا ہے، لیکن فروخت کرکے پیسے نہ تو خود کھا سکتا ہے نہ کسی مال دار کو دے سکتا ہے، بلکہ بیچنے کے بعد قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔

قرباني كي كهال کسی ملازم کو تنخواہ اور کام کے عوض میں دینا درست نہیں، جیسے امام، مؤذن، خادم مسجد کہ ان کو بحقِ اجرت قربانی کی کھال دینا درست نہیں، البتہ اگر یہ لوگ نادار ہیں تو ناداری کی وجہ سے ان کو دینا درست ہے۔

قربانی کی کھال یا اس کی رقم کسی ایسی جماعت یا انجمن وغیرہ کو دینا بھی درست نہیں جو اس رقم کو مستحقین پر خرچ نہیں کرتی بلکہ جماعت اور ادارے کی دیگر ضروریات مثلاً کتابوں ، مدرسے، مسجد، ہسپتال اور شفاخانے کی تعمیر یا کارکنوں کی تنخواہ میں خرچ کرتی ہے۔

البتہ ایسے ادارے یا جماعت کو دینا درست ہے جو اس رقم کو مستحقین زکوٰة پر خرچ کرتی ہے۔آج کل چوںکہ رفاہی ادارے قربانی کی کھال کو اس کے صحیح مصرف پر خرچ نہیں کرتے، اس لیے ان کو دینا درست نہیں۔

موجودہ زمانے میں قربانی كي كهال دینی مدارس میں دینا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ اس میں غریب طلبہ کی امداد بھی ہے اور علم ِدین کی خدمت بھی۔
==============
Share: