عيد ميلاد النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

چودہ سو برس سے زیادہ زمانہ گذرا کہ رب العالمین نے ظلمت کدہ عالم کو نورِ ھدایت بخشنے والا وه نبي  (صلى الله عليه وآله وسلم  ) بھیجا جس کے ہاتھ میں سیادت رسل کا علم اور سرپرخاتمیت انبیاء کا تاج تھا۔ اللہ جل جلالہ نے اپنے پیارے نبي  صلى الله عليه وآله وسلم  کو ایسی شریعت کاملہ عطا فرمائی کہ اس کے بعد قیامت تک نوع انسانی کے لیے کسی مذہبی قانون اور نئی شریعت کی ضرورت درپیش نہ ہوگی مگر مسلمانوں نے اس شریعت مطہرہ پرکاربند ہونے کی بجائے ایسے رسوم وقیود اپنا لیے جو ہندؤوں اور غیرمسلم اقوام سے درآمد شدہ ہیں جومسلمانوں میں غیرمسلموں کے ساتھ میل جول اوراسلامی تعلیم کے فقدان کے سبب پیدا ہوگئے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عام سادہ لوح مسلمان ان باطل رسوم کو اسلام کا نام دے رہے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ دین ہے۔
افسوس ان حضرات پر ہے جوبدعات و رسوم کی حقیقت سے آگاہی کے باوجود محض دنیوی اغراض اور عاجلانہ مقاصد کے حصول اور سیم وزر کی لالچ میں بدعتوں وجاہلانہ روایتوں کو سنت کا نام دے کر عوام کو تاریکی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں؛ بلکہ ان بدعتوں و خرافات کو سنت ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بدعات و خرافات کا رواج عام ہے، باطل نظریات اور غلط عقائد وافکار کی حکمرانی ہے، اہل باطل ان بدعتوں پر دین کا لیبل چسپاں کرکے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ بدعتیں پھیل جاتی ہیں اور معاشرے میں اس کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ ان بدعتوں میں سرفہرست ”عید میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم “ ہے، جسے معاشرے کے اکثر افراد دین تصور کرتے ہیں اور عبادت سمجھ کر منائی جاتی ہے، جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں کا اہتمام کیاجاتا ہے، محفل میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم منعقد کی جاتی ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا مقام انتہائی اونچا ہے، کوئی دوسرا وہاں تک رسائی حاصل  نہیں کرسکتا اللہ تعالی کے بعد سب سے بلند مقام آپ صلى الله عليه وآله وسلم  کا ھی ھے ۔ کسی شاعر نے بہت ھی خوبصورت انداز میں اس حقیقت کو بیان کیا ھے 
یا صاحب الجمال  یا سید البشر
من وجه المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصۂ مختصر

ترجمہ
اے صاحب الجما لﷺ اور اے انسانوں کے سردار ﷺ
آپ ﷺ کے رخِ انور سے چاند چمک اٹھا
آپ ﷺ کی ثنا کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں
قصۂ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ ﷺ ہی بزرگ ہیں

(اس نعتیہ قطعے کی پہلے تین مصرعے عربی اور آخری مصرعہ فارسی زبان میں ہے)

 رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے حالات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے اوراس میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ یہ بھی  ایک حقیقت ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی  ولادت با سعادت امتِ مسلمہ کے لئے بہت زیادہ خوشی کا باعث ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں حضور آکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی پیدائش کی خوشی ہونا فطری اور طبعی بات ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ھرگز نہیں ہے کہ حضور آکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی ولادت کی خوشی میں بدعات وخرافات کا سلسلہ شروع کردیا جائے جیساکہ آج کل ھمارے معاشرے میں کیا جاتا ہے۔ آںحضور صلى الله عليه وآله وسلم نے صاف ارشاد فرمایا: تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے، ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور نئی نئی باتوں سے دور رہو؛ اِس لیے کہ دین میں ہر نئی بات (جس کا حکم نہ دیاگیا ہو) بدعت ہے۔ 
(مستدرک حاکم )
یہ مروّجہ میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم کیا ھے اور اس کا پس منظر کیا ھے تو حقیقت یہ ھے کہ مذھبِ اسلام میں اس کا کہیں بھی کوئی ثبوت نہیں ہے؛ بلکہ یہ مروّجہ میلاد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے تقریباً چھ سو سال کے بعد کی یعنی ساتویں  صدی ہجری کی پیداوار ہے۔ پوری چھ صدیوں  تک اِس بدعت کا مسلمانوں میں کہیں رواج نہ تھا؛ نہ کسی صحابی رضى الله تعالى عنه نے، نہ تابعی رحمة الله عليه نے، نہ تبع تابعین رحمة الله عليه نے  نہ کسی محدث نے، نہ مفسر نے، نہ فقیہ نےعید میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم منائی،؛ بلکہ سب سے پہلے عید میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم  منانے والی شخصیت موصل کے علاقے اربل کا ظالم، ستم شعار اور فضول خرچ بادشاہ ملک مظفرالدین  تھا ۔ 604ھ میں سب سے پہلے اس ظالم کے حکم سے محفل میلاد منائی گئی۔ 
( امام احمد بن محمد مصری اپنی کتاب ”القول المعتمد“ میں لکھتے ہیں
 اس ظالم اورمسرف بادشاہ (ملک مظفرالدین) نے اپنے زمانے کے علماء کو حکم دیاکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کریں اور اس میں کسی غیر کے مذہب کا اتباع نہ کریں تو اس وقت کے وہ علماءِ سوء جو  اپنے دنیوی اغراض ومقاصد کی سرتوڑ کوششیں کررہے تھے اُن کی طرف مائل ہوئے، جب اُنھیں موقع ملا تو ربیع الاوّل کے مہینے میں عید میلاد النبی  صلى الله عليه وآله وسلم منانا شروع کیا تو گویا  مسلمانوں میں سب سے پہلے عید میلاد النبی  صلى الله عليه وآله وسلم منانے والا شخص ملک مظفرالدین ہے جوموصل کے علاقے اربل کا بادشاہ تھا۔
علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ شخص ہر سال میلاد پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتا تھا اس طرح اُس نے رعایا کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اوراس کے لیے ملک وقوم کی رقم کو محفل میلاد پر خرچ کرنا شروع کیا اوراس بہانے اپنی بادشاہت مضبوط کرتا رہا اور ملک وقوم کی رقم بے سود صرف کرتا رہا۔
(فیض الباری )
علامہ ذہبی رحمة الله عليه رقم طراز ہیں: اس کی فضول خرچی اور اسراف کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر سال میلادالنبی  صلى الله عليه وآله وسلم پر تقریباً تین لاکھ روپے خرچ کیا کرتا تھا۔ 
(دول الاسلام )
ذرا اُس باطل پرست اور کج فکر کی حالت بھی سن لیجئے جس نے محفل میلاد کے جواز پر دلائل اکٹھے کیے اور بادشاہ کو اس محفل کے انعقاد کے جواز کا راستہ بتایا اس کا نام ابوالخطاب عمرو بن دحیہ تھا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه اُس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ شخص ائمہ کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا، زبان دراز، بے وقوف اور متکبر تھا اور دینی امور میں سست اور بے پرواہ تھا۔ 
(لسان المیزان)
یہ تو میلاد کی ابتدائی تاریخ اور اُس کے موجد پر بحث تھی اب آئیے! علمائے متقدمین ومتأخرین اس محفل میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔
علامہ عبدالرحمن مغربی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: میلاد منانا بدعت ہے؛ اِس لیے کہ اِس کو حضور آکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے کیا ہے نہ اِس کے کرنے کو کہا ہے۔ خلفائے کرام نے میلاد منائی ہے اورنہ ھی ائمہ کرام نے۔ 
(الشریعة الالٰہیہ بحوالہ حقیقت میلاد)
علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس میلاد کے بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے؛ لیکن اس میں قیاس آرائی پر عمل کیا جاتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ حرّانی دمشقی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ”اقتضاء الصراط المستقیم“ میں تحریر فرماتے ہیں: نصاری میلاد عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام مناتے تھے، جب مسلمانوں کی اس طرف نظر ہوئی تو دیکھا دیکھی مسلمانوں نے یہ رسم اختیار کی؛ حالآںکہ سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر یہ جائز ہوتی اوراس کے منانے میں خیر ہوتی، تو پہلے کے لوگ جو رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم سے زیادہ محبت رکھتے تھے اوراچھے کام کرنے کے زیادہ حریص تھے؛ وہ مناتے؛ لیکن سلف صالحین کا میلاد نہ منانا یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ میلاد مروّجہ طریقے پر منانا درست نہیں ہے۔
اس میں لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ بڑی عبادت ہے حالآںکہ یہ بدعت ہے اوراس میں محرمات کا ارتکاب ہوتا ہے اور دیگر لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ اگرمیلاد منائی جائے اور اس میں محرمات کا ارتکاب نہ ہو اور وہ تمام مفاسد نہ ہوں جو اس کے منانے میں ہوتے ہیں، تب بھی میلاد منانا بحرحال بدعت ہے؛ کیوںکہ یہ دین میں زیادتی ہے اوراسلاف کا عمل اس پر نہیں ہے۔ اگر یہ کارِ خیر اور کارِ ثواب ہوتا تو سب سے پہلے سلف صالحین مناتے؛ لیکن اُن کا میلاد نہ منانا اس کا ثبوت ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ 
(مدخل )
مجدّد الف ثانی رحمة اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں: بالفرض اگر آںحضور صلى الله عليه وسلم اس دنیا میں زندہ ہوتے اور یہ مجلس منعقد ہوتی تو آیا وہ اس پر راضی ہوتے اوراس اجتماع کو پسند فرماتے تو اس سلسلے میں بندے کا یقین یہ ہے کہ وہ ہرگز اسے قبول نہ فرماتے۔ 
(دفتر اوّل مکتوب،ص:۱۷۳)
علامہ نصیرالدین الاودی الشافعی علیہ الرحمہ سے کسی نے سوال کیا کہ میلاد منانا کیسا ہے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا: محفل میلاد نہ منائی جائے؛ کیوں کہ سلف صالحین نے اختیار نہیں کیا ہم اسے کیسے اختیار کرلیں۔ 
(القول المعتمد)
علامہ شرف الدین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض امیر لوگ ہر سال محفل میلاد مناتے ہیں، اس میں بہت سے ناجائز تکلّفات پائے جاتے ہیں اور یہ محفل نفس پرستوں کی ایجاد کی ہوئی ہے جن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حضور صلى الله عليه وآله وسلم نے کس چیز کا حکم دیا اور کس چیز سے منع کیا؟ اِس لیے یہ بدعت ہے۔ 
(القول المعتمد)
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: مروّجہ میلاد اور اس میں مروّجہ قیام محدثہ، ممنوعہ ہیں، جو ناجائز اور بدعت ہیں۔ 
(عزیزالفتاوی:۹۹)
قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ محفل چونکہ زمانہٴ فخردوعالم صلى الله عليه وآله وسلم میں اور زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور زمانہٴ تابعین وتبع تابعین اور زمانہٴ مجتہدین میں نہیں ہوئی، اِس محفل کا موجد چھ سو سال بعد کا ایک بادشاہ ہے جس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں؛ لہٰذا یہ مجلس بدعت اور گمراہی ہے۔ عدم جواز کے واسطے یہ دلیل کافی ہے کہ قرونِ خیر میں اس کو کسی نے نہیں کیا۔ 
(فتاویٰ رشیدیہ،ص:۴۰۹)
حضرت مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: موجودہ مروّجہ میلاد ہمارے نزدیک ناجائز اور بدعت ہے۔ 
(امداد المفتیین،ص:۷۹)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ رقم طرازہیں: ذکر ولادتِ نبوی شریف صلى الله عليه وآله وسلم مثل دیگر اذکارِ خیر کے ثواب اور افضل ہے اگر بدعات وقبائح سے خالی ہو۔ اس سے بہتر کیا ہے کما قال الشاعر
وذکرک للمشتاق خیر شراب * وکل شراب دونہ کسراب
البتہ جیسا ہمارے زمانے میں قیودات اورشنائع کے ساتھ مروّج ہے اس طرح بے شک بدعت ہے۔ امداد الفتاویٰ
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: میلاد منانا کسی کے لیے بھی جائز نہیں؛ اِس لیے کہ یہ بدعت ہے اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، صحابہ اور تابعین سے ثابت نہیں۔ 
(فتاویٰ عبداللہ بن باز،ج:۱،ص:۲۶)
ایک اور جگہ شیخ رحمة الله عليه رقم طراز ہیں: عید منانا خواہ حضور صلى الله عليه وسلم کی پیدائش پر ہو یا کسی اور کی پیدائش پر ناجائز ہے؛ کیوں کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے اِس طریقے پر عید نہیں منائی اورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عید منائی ہے، سلف امت کا بھی یہی فیصلہ رہا ہے اور خیراُن کی اتباع میں مضمر ہے۔
مولانا بدرعالم میرٹھی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں: مروّجہ میلاد حرام ہے؛ اِس لیے کہ یہ میلاد معاصی ظاہرہ وباطنہ پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں محرمات کا ارتکاب ہوتاہے موضوع روایات پڑھی جاتی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی ہے اور سب سے بڑی غلطی یہ کہ آں حضرت صلى الله عليه وسلم کو عالم الغیب مانا جاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ آںحضرت صلى الله عليه وسلم اس محفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں ان تمام امور کی وجہ سے اس محفل کا انعقاد حرام ہے۔
تمام علما، ائمہ، محدثین، مفسرین اور مفتیان کا اس پر اتفاق ہے کہ عید میلاد النبی منانا ناجائز اور بدعت ہے۔
عید میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم کے منانے والوں پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تواکثر ایسے افراد ملیں گے جو دین سے ناواقف اور احکام شریعت سے نا آشنا ہوتے ہیں؛ لیکن جوں جوں ربیع الاوّل کا مہینہ قریب آتا ہے ان افراد میں جوش وخروش پیداہوتا جاتا ہے اور یہ عیدمیلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم منانے کی تیاری زور و شور سے شروع کردیتے ہیں۔ اس کو اپنے تمام گناہوں کا کفارہ گردانتے ہیں۔ ان مجالس میں جن منکرات کاارتکاب ہوتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے بارے میں جو مشہور ہے کہ یہ بارہ ربیع الاول کا ھی دن تھا یقینی طور پر درست نہیں ہے علامہ نووی رحمہ اللہ نے چار اقوال اس کے بارے میں نقل کیے ہیں اور ترجیح کسی ایک کو بھی نہیں دی 

پہلا قول یہ ہے کہ دو ربیع الاول کا دن تھا 
دوسرا یہ ہے کہ آٹھ ربیع الاول کا دن تھا 
تیسرا یہ کہ دس تاریخ تھی 
چوتھا قول یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کا دن تھا۔

علامہ حلبی رحمہ  اللہ  کا رجحان سیرت حلبیہ میں ربیع الاول کی (9 ) تاریخ کی طرف ہے۔

واتفقوا علی انہ ولد یوم الاثنین من شہر ربیع الاول واختلفوا ھل ھو فی الیوم الثانی او الثامن من ام العاشر اوالثانی عشر فھذہ اربعۃ اقوال مشھورۃ۔ (تہذیب الاسم)
تو جب اس تاریخِ ولادت   یعنی بارہ ربیع الاول میں ہی اختلاف ہے اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہیں  ھے تو بارہ ربیع الاول کو متعین کرنا کیسے درست ھو سکتا ہے  خلاصۂ کلام یہ کہ  آج کل جو بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  منائی جاتی ھے وہ شرعاً جائز نہیں ہے۔"

یہ تھی عید میلاد النبی صلى الله عليه وآله وسلم کی حقیقت اور مروّجہ میلاد کی مجالس کے منکرات کہ اس بے دینی کو دین کہا جارہا ہے اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے نام سے پیش کیا جارہا ہے اور سادہ لوح عوام بھی پوچھے بغیر اس کو کرنے میں مصروف ہیں اور ان مجالس کے لیے زرکثیر صرف کررہے ہیں بقول شاعر

خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں 

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب

کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

اس مہینے میں کسی کام کے فضیلت والے ہونے کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی نص نہیں پائی جاتی  نہ صحابہ کرام ہی سے کوئی ایسی بات منقول ہے، لہٰذا جو مسنون اعمال عام دنوں میں کیے جاتے ہیں، وہ اس مہینے میں بھی کیے جائیں۔ ربیع الاول کا چاند دیکھ کر لوگوں کو  ”عید مبارک“یا آمد عید کا اعلان کرنا۔ مہینہ بھر محافلِ میلاد کا انعقاد کرتے رہنا اور ان میں آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا انتظار کرتے ہوئے تعظیماً کھڑے ہو جانا۔ بارہ ربیع الاول کو ”تیسری عید“ قرار دینا اور اس کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقرر کردہ دونوں عیدوں سے زیادہ اہم سمجھنا۔ نیز جشن میلاد اور بسوں، کاروں ٹرالیوں اور بیل گاڑیوں کی صورت میں جلوس نکالنا یا اس میں شرکت کرنا۔ مختلف مقامات پر جھنڈیاں آویزاں کرنا اور خود ساختہ مبالغہ آمیز نعتیں پڑھنا۔ خانہ کعبہ، روضہ مبارکہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کے ماڈل بنا کر ان کا طواف کرنا اور آتش بازی، ہلڑ بازی اور رقص و سرود کی مخلوط اور غیر مخلوط محفلیں جمانا۔ یہ سب اعمال قرآن و سنت کی رو سے ممنوع ہیں

خدارا! خواب غفلت سے بیدار ہوجائیے اور ان ظاہری دل آویزیوں پر نہ جائیے، ان خرافات کی ظاہری چمک دمک دیکھ کر دھوکے میں نہ آئیے۔ ان بدبختانہ عقائد سے اپنا دامن چھڑائیے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا عہد کیجئے۔ اسی میں آپ کی دنیا وآخرت کی کامیابی ھے اور پھر آپ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں اور فلاح وکامیابی ہمارا مقدر ہے۔
اگر اس کے برعکس عمل کیا تو یاد رکھئے کہ دنیا میں انسان کی زندگی ایک کتاب کی مانند ہے اور ہر روز اس کتاب کا ایک صفحہ پلٹ دیا جاتا ہے اور پورے دن کی کارروائی اس پر محفوظ ہوجاتی ہے جب زندگی کی اس کتاب کے صفحات ختم ہوں گے تو آپ کے اعمال کی یہ کتاب بند ہوجائے گی اور آپ کو قبر میں اتارا جائے گا جہاں بیٹا ہوگا نہ بیوی، بھائی نہ بہن، والد نہ والدہ۔ وہاں آپ اکیلے ہوں گے جہاں آپ کا خاندان آپ کے کام نہیں آئے گا، آپ کے ساتھی کام نہ آئیں گے، اگر وہاں کوئی چیز فائدہ دے سکتی ہے تو وہ آپ کے نیک اعمال ہوں گے۔ اس سے ایک قدم آگے میدان حشر میں آپ کو جواب دہ ہونا ہوگا۔ یہی کتاب اگر آپ کو دائیں ہاتھ میں ملی تو کامیاب اور خدانخواستہ اگر یہ کتاب بائیں ہاتھ میں ملی تو خسارہ ہی خسارہ ۔
ایسے وقت کے آنے سے پہلے اپنے کیے پر نادم ہوکر توبہ کیجئے اور آیندہ کے لیے حق کو حق کہیے اورحق کا ساتھ دینے کا مصمم ارادہ کیجیے ۔ ربیع الاول کا عظیم مہینہ شروع ھو چکا ھے اس مبارک ماہ میں اپنی جان ، اپنا مال اور اپنا وقت مروجہ خرافات میں لگانے سے اجتناب برتیں ۔ یہ پیسہ صدقہ خیرات میں خرچ کریں اور اپنے قیمتی اوقات کو اللہ تعالی کے ذکر ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف ، تلاوتِ قرآن پاک ، خدمتِ خلق ،  نفلی نمازوں ، آمر بالمعروف و نھی عن المنکر اور دیگر عبادات میں صرف کریں  ۔ انشاء اللہ اس کا آپ کو دنیا وآخرت میں بہت زیادہ فائدہ ھو گا اور آپ بدعات و خرافات سے بھی محفوظ رھیں گے ۔ 
وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَنْصُرُہ
(۴۰/۱۷)
***
Share: