مسلمان اپنى سارى زندگى كى نيت اللہ كے ليے كيسے كرے؟

مسلمان اپنى سارى زندگى كى نيت اللہ كے ليے كيسے كرے؟
مسلمان وہ ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى كا مطيع اور فرمانبردار ہو اس كے احكام كو تسليم كرے، اور شريعت كے امر اور نواہى كے تابع ہو كر اس پر عمل كرے، مسلمان اللہ كى عبادت كرتا ہے كيونكہ وہ اس كا خالق و مالك اور عبادت كا مستحق ہے، وہ اللہ تعالى كى عظمت اور وحدانيت پر ايمان ركھتا ہے، اللہ تعالى اس كے دل و جان كا مالك ہے، اور اس نے اللہ كے ليے اپنى محبت كو اپنى معاش اور معاد كا مقصد بنايا ہے، اور اميد ركھى ہے كہ وہ اسے قبول كرتے ہوئے نيك لوگوں ميں شامل كرے گا
 چنانچه  اللہ سبحانہ و تعالى كا سورة الأنعام ميں فرمان ہے
قُلْ اِنَّنِىْ هَدَانِىْ رَبِّىٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍۚ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّـةَ اِبْرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (161)
آپ كہہ ديجئے کہ  مجھ كو ميرے رب نے ايك سيدھا راستہ بتايا ہے كہ وہ ايك مستحكم دين ہے جو ابراہيم عليہ السلام كا طريقہ ہے، جو اللہ كى طرف يكسو تھے، اور وہ شرك كرنے والوں ميں سے نہ تھے
قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (162)
آپ كہہ ديجئے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
لَا شَرِيْكَ لَـهٝ ۖ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (163)
اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں۔
اگر هم آيات بالا كے معنى سمجھ ليں اور هميں اس كا اچهي طرح شعور ہو جائے توهم  يقيناً اپنى زندگى كے تمام معاملات ميں اللہ كے قرب كى نيت ركھنے كي ضرور كوشش كريں گے مثلاً
جب هم سونے كا اراده كريں تو اس سے  اجر و ثواب كى نيت ركھيں يعني  كہ يه نيت كريں ميں سو اس ليے رہا /رهي ہوں كہ بيدار ہو كر عبادت كرنے كے ليے طاقت وراحت حاصل كروں
جب هم كھانے يا پينے كا اراده كريں تو اس سے  اجر و ثواب كى نيت ركھيں يعني  كہ يه نيت كريں ميں كھا يا پي اس ليے رہا /رهي ہوں كہ  حقوق كى ادائيگى كے ليے قوت  حاصل ہو اور عبادت كرنے كے ليے طاقت وراحت حاصل كروں
 اور اسي طرح  جب شادى كرے تو اس كا مقصد عفت و عصمت كو محفوظ ركھنا ہو، اور حرام سے اجتناب كر كے حلال كا حصول مقصود هو ، اور جب اولاد طلب كرے تو اس كا مقصد نيك و صالح اولاد ہو جو زمين ميں اللہ كے منہج كو چلائے، اور جب كلام كرے تو خير و بھلائى كى بات كرے، اور جب خاموش رہے تو شر سے رك كر ايسا كرے
اپنے اور اپنے اہل و عيال پر خرچ كرے تو اجروثواب كى اميد ركهے، اور جب تعليم حاصل
كرے، اور پڑھے تو بھى اس ميں اجروثواب كى نيت ركھے.. تو اس طرح سارے اعمال ميں اس كا مقصد يہى ہو
  اور اسي طرح  يہ چيز وزن كم كرنے كے متعلق  فٹ هوتي  ہے، چنانچہ جو شخص اپنى صحت كى حفاظت كرنے كے ليے وزن كم كرنا چاہتا ہے تا كہ وہ اپنے واجبات اور فرائض كى بجا آورى اور اللہ كے حقوق كى مكمل طور پر ادائيگى كر سكے، يا اس كا ارادہ بيوى كے ليے خوبصورت بننا ہو تا كہ وہ آپس ميں سعادت و مودت اور محبت كى زندگى بسر كر سكيں، يا اس مخلوق كے ليے خوبصورتى اختيار كرنے كا ارادہ ہو تا كہ وہ لوگوں كے درميان مقبول بن سكے، اور ان سے تعلقات ركھ سكے، تو يہ ايك اچھا اور بہتر مقصد ہے ان شاء اللہ اس پر اسے اجروثواب بهي حاصل ہو گا
ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں
 چاہيے كہ وہ وہى مباح كام كرے جو اس كے ليے اطاعت و فرمانبردارى ميں ممد و معاون ہوں، اور اس كا اس سے مقصد اطاعت ميں معاونت ہو
اسى طرح اس مباح فعل سے وہ كفار كى مشابہت، يا پھر نوجوان لڑكيوں كو فتنہ ميں ڈالنے كے ليے خوبصورت بنے، يا اس طرح كے دوسرے شيطانى مقاصد تو اس سے وہ ضرور سزا اور گناہ كا مستحق ٹھرے گا
اور اسى طرح باقى سارے مباح اٌمور سر انجام دينے والے كو آجروثواب اسى صورت ميں حاصل ہو گا جب وہ اس ميں خير و فضل اور اجروثواب كے مقاصد كى نيت بهي كرے
ابن الحاج رحمہ اللہ كہتے ہيں
" مباح عمل نيت كے ساتھ مندوب ميں منتقل ہو جاتا ہے " 
  اور ابن قيم رحمہ اللہ نے ان مقربين كے خواص ذكر كيے ہيں اچھى اور بہتر نيت كى وجہ سے جن كے حق ميں مباح اُمور اطاعت و فرمانبردارى اور تقرب ميں بدل جاتے ہيں
ايك مسلمان اپنى زندگى اور سارے اعمال كس طرح اللہ كے ليے بنانے كى نيت كر سكتا ہے، جو 
اختصار كے ساتھ بيان ہوا اور اسے دو چيزوں ميں اجمالى طور پر بيان كرنا ممكن ہے
  أ- وہ اپنے اعمال ميں شريعت كا التزام كرے، نہ تو كوئى واجب اور فرض ترك كرے، اور نہ ہى كسى ممنوعہ امر كا مرتكب ٹھرے
ب - وہ اپنے دل ميں احساس ركھے كہ وہ اس عمل كے ذريعہ اجروثواب اور اللہ كے قرب تك كيسے پہنچ سكتا ہے؟ ـ چاہے وہ اصل ميں دنياوى كام ہى كيوں نه هو ہو
  اور حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا
 تم جو بھى نفقہ اور خرچ كرو اور اس سے مقصد اللہ كى رضا ہو تو اس پر تمہيں اجروثواب حاصل ہو گا، حتى كہ جو لقمه تم اپنى بيوى كے منہ ميں ركھتے ہو 
صحيح بخارى  -  صحيح مسلم  
امام نووى رحمہ اللہ اس حديث پر تعليقا كہتے ہيں
اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: جب مباح چيز كے ساتھ اللہ كى رضا كا ارادہ كيا جائے تو وہ اطاعت بن جاتا ہے اور اس پر اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اور اسى چيز پر متنبہ كرتے ہوئے رسول كريم صلى اللہ عليہ وآله وسلم نے فرمايا
" حتى كہ وہ لقمہ جو تم اپنى بيوى كے منہ ميں ڈالتے ہو "
كيونكہ انسان كى بيوى دنياوى حصہ ميں سب سے زيادہ خاص چيز اور اس كى مباح شہوات اور جائے پناہ ہے، اور جب وہ اس كے منہ ميں لقمہ ركھے تو عام طور پر عادتاً مباح سے ہنسى و مزاح اور اور لذت حاصل كرنے ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ چيز اطاعت و فرمانبردارى اور اخروى اُمور سے سب سے زيادہ بعيد ہے، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا كہ اگر اس لقمہ ميں بھى اللہ كى رضا كا مقصد ہو تو اس سے اجروثواب حاصل ہوتا ہے، تو اس حالت كے علاوہ دوسرى حالتوں ميں جب اللہ كى رضا كا ارادہ ہو تو بالاُولى اجروثواب حاصل ہو گا، اور اس ضمن ميں يہ بھى آتا ہے كہ انسان جب كوئى ايسا كام  كرے جو اصل ميں مباح ہو، اور اس كا مقصد اللہ كى رضا ہو تو اسے اس پر اجر و ثواب حاصل ہو گا يہ بالكل اس كھانے كى طرح جس ميں يہ نيت كى جائے كہ اس سے اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى ميں تقويت حاصل كرنى ہے، اور اسى طرح نيند سے ارادہ يہ ہو كہ وہ نشيط اور چست ہو كر عبادت كے ليے اٹھ سكے، اور اپنى بيوى اور لونڈى سے استمتاع اور فائدہ اس ليے حاصل كرتا ہے تا كہ اپنى نظر اور نفس كو حرام سے بچا سكے، اور بيوى كا حق پورا كر سكے، اور اسے نيك و صالح اولاد مل جائے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى بھى يہى ہے
" اور تم ميں سے كسى ايك كے ٹكڑے ( شرمگاہ ) ميں بھى صدقہ ہے "
واللہ تعالى اعلم 
اور امام سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں
 مباح امور اور عادات ميں اگر انسان نيك نيت ركھے تو بندے كو اس كا اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اس كى انہوں نے جو دليليں دى ہيں ان ميں سب سے بہتر اور اچھا استدلال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے ہے
" اور ہر آدمى كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو "
اس ليے اگر اس سے اللہ كے قرب كا مقصد ہو تو اس پر انسان كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اور اگر وہ قرب كا مقصد نہ ركھے تو اسے كوئى ثواب حاصل نہيں ہوتا 
اور اس سلسلہ ميں اہل علم كى جانب سے بہت سارى نقول موجود ہيں
ليكن  يہ معلوم ہونا چاہيے كہ  مباحات ميں اچھى اور قرب كى نيت كرنے كے متعلق جو كچھ   ہے وہ بطور وجوب اور لازم كے نہيں كيونكہ اگر يہ واجب اور لازم ہو تو پهر يه مباح نہيں ہو گا، بلكہ  واجب ہو گا جس كے ترك كرنے پر انسان گناه گار ہوتا ہے
ليكن جس شخص كا كسى كام كو سرانجام دينے ميں مقصد صرف اپنى نفسى رغبت، يا اپنى شہوت يا حاجت و ضرورت پورى كرنا ہو، يا مباح سے فائدہ حاصل كرنا ہو تو اس عمل ميں بلاشبهه اسے كوئى گناه تو نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اسے اس بات كا علم ہونا چاهيے كہ وہ جو عمل كر رہا ہے اس كى شريعت نے رخصت اور اجازت دى ہے ليكن يه بات بهي سمجهنے والي هے كه جس طرح مجرد عمل كرنے كا اس پر كوئى گناہ نہيں هے بالكل اسى طرح مباح كاموں ميں اس كو مجرد  عمل كرنے كا كوئى اجروثواب بهي حاصل نہيں ہو گا
واللہ اعلم .
Share: