مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد عبدالرحمن مبارکپوری ؒ کا اپنی کتاب ’’تحفۃ الاحوذی میں پندرھویں شعبان کی رات کو لیلة البراءة کہنا


 مشہور اہل حدیث مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد عبدالرحمن مبارکپوری ؒ نے اپنی کتاب ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (جو موصوف نے حدیث کی مشہور کتاب ’’ترمذی‘‘ کی شرح عربی میں تحریر کی ہے) میں پندرہویں شعبان کے متعلق پانچ صفحات پر تفصیلی بحث فرمائی ہے، جس میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ 1) مولانا مرحوم نے پندرہویں شعبان کو لیلۃ البراءۃ سے تعبیر کیا ہے جس کو فارسی یا اردو زبان میں شب براء ت کہا جاتا ہے۔ معمولی عربی جاننے والا بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ کتاب کی تیسری جلد کا 439 صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ 2) آخر میں یہ اپنا فیصلہ انہوں نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ احادیث اپنے مجموعہ کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف حجت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کچھ ثابت نہیں۔ کتاب کی تیسری جلد کا 442 صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ 

غرضیکہ شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت کا بالکلیہ انکار کرنا صحیح نہیں ہے۔ 

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ والی حدیث، جس کے صحیح ہونے کو ہر زمانہ حتی کہ عصر حاضر کے متعدد محدثین نے تسلیم کیا ہے، خود موصوف بھی صحیح تسلیم کرچکے ہیں، میں ایک اور نقطہ پیش ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پندرہویں شب میں تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور ساری مخلوق کی سوائے مشرک اور بغض رکھنے والوں کے سب کی مغفرت فرماتا ہے۔ یعنی غروب آفتاب کے بعد سے ہی اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرف تجلی فرماکر لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ جبکہ ہر رات جو اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر اترکر لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ،اس کے متعلق حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں ایسا ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ بر صغیر میں یہ رات ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئی ہے، وہ یقیناًغلط ہے، میں نے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے۔ اور اِس رات میں ہونے والی بدعات اور رسوم کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد عبدالرحمن مبارکپوری ؒ نے اپنی کتاب ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (جو موصوف نے حدیث کی مشہور کتاب ’’ترمذی‘‘ کی شرح عربی میں تحریر کی ہے) میں پندرہویں شعبان کے متعلق پانچ صفحات پر تفصیلی بحث فرمائی ہے، جس میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ 1) مولانا مرحوم نے پندرہویں شعبان کو لیلۃ البراءۃ سے تعبیر کیا ہے جس کو فارسی یا اردو زبان میں شب براء ت کہا جاتا ہے۔ معمولی عربی جاننے والا بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ کتاب کی تیسری جلد کا 439 صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ 2) آخر میں یہ اپنا فیصلہ انہوں نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ احادیث اپنے مجموعہ کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف حجت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کچھ ثابت نہیں۔ کتاب کی تیسری جلد کا 442 صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ 

غرضیکہ شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت کا بالکلیہ انکار کرنا صحیح نہیں ہے۔ 

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ والی حدیث، جس کے صحیح ہونے کو ہر زمانہ حتی کہ عصر حاضر کے متعدد محدثین نے تسلیم کیا ہے، خود موصوف بھی صحیح تسلیم کرچکے ہیں، میں ایک اور نقطہ پیش ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پندرہویں شب میں تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور ساری مخلوق کی سوائے مشرک اور بغض رکھنے والوں کے سب کی مغفرت فرماتا ہے۔ یعنی غروب آفتاب کے بعد سے ہی اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرف تجلی فرماکر لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ جبکہ ہر رات جو اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر اترکر لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ،اس کے متعلق حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں ایسا ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ بر صغیر میں یہ رات ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئی ہے، وہ یقیناًغلط ہے، میں نے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے۔ اور اِس رات میں ہونے والی بدعات اور رسوم کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ا محمد عبدالرحمن مبارکپوری ؒ نے اپنی کتاب ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (جو موصوف نے حدیث کی مشہور کتاب ’’ترمذی‘‘ کی شرح عربی میں تحریر کی ہے) میں پندرہویں شعبان کے متعلق پانچ صفحات پر تفصیلی بحث فرمائی ہے، جس میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ 1) مولانا مرحوم نے پندرہویں شعبان کو لیلۃ البراءۃ سے تعبیر کیا ہے جس کو فارسی یا اردو زبان میں شب براء ت کہا جاتا ہے۔ معمولی عربی جاننے والا بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ کتاب کی تیسری جلد کا 439 صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ 2) آخر میں یہ اپنا فیصلہ انہوں نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ احادیث اپنے مجموعہ کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف حجت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کچھ ثابت نہیں۔ کتاب کی تیسری جلد کا 442 صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ 

غرضیکہ شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت کا بالکلیہ انکار کرنا صحیح نہیں ہے۔ 

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ والی حدیث، جس کے صحیح ہونے کو ہر زمانہ حتی کہ عصر حاضر کے متعدد محدثین نے تسلیم کیا ہے، خود موصوف بھی صحیح تسلیم کرچکے ہیں، میں ایک اور نقطہ پیش ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پندرہویں شب میں تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور ساری مخلوق کی سوائے مشرک اور بغض رکھنے والوں کے سب کی مغفرت فرماتا ہے۔ یعنی غروب آفتاب کے بعد سے ہی اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرف تجلی فرماکر لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ جبکہ ہر رات جو اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر اترکر لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ،اس کے متعلق حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں ایسا ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ بر صغیر میں یہ رات ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئی ہے، وہ یقیناًغلط ہے، میں نے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے۔ اور اِس رات میں ہونے والی بدعات اور رسوم کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

Share: