ایک نماز قضا کرنے پر دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال جہنم میں جلنے کا عذاب والی حدیث کی تحقیق

 ✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اصلاح* ❄✨


*سلسلہ نمبر 62:*

🌻 *تحقیقِ حدیث: ایک نماز قضا کرنے پر دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال جہنم میں جلنے کا عذاب*

(تصحیح ونظر ثانی شدہ)


🌼 *’’فضائل اعمال‘‘ کی زیرِ تحقیق روایت:*

برکۃ العصر قطبِ وقت شیخ المشایخ شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق اور جلیل القدر کتاب ’’فضائل اعمال‘‘ میں نماز کی ادائیگی کی اہمیت اور فضیلت، اور نماز کو ترک کرنے کی وعیدوں سے متعلق بہت سی آیات اور احادیث مبارکہ ذکر فرمائی ہیں، جن کی تاثیر لاکھوں دلوں میں انقلاب پیدا کرچکی ہے الحمدللہ۔ نماز ترک کرنے کی وعیدوں کو ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے نماز قضا کرنے سے متعلق بطورِ وعید یہ روایت  بھی ذکر فرمائی ہے:

روي أنه عليه الصلاة والسلام قال: «من ترك الصلاة حتى مضى وقتها ثم قضى: عذب في النار حقبا». والحقب: ثمانون سنة، والسنة: ثلاثمائة وستون يوما، كل يوم كان مقداره ألف سنة. 

▪ *ترجمہ:*

حضور ﷺ سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضا کردے، گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے، پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حُقب جہنم میں جلے گا۔ اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے، اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا، اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہوگا، (اس حساب سے ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی: 28800000)۔

اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد حضرت نے حوالے میں جو عربی عبارت تحریر فرمائی ہے وہ ترجمہ سمیت ملاحظہ فرمائیں: 

(كذا في «مجالس الأبرار»، لم أجده فيما عندي من كتب الحديث، الا أن «مجالس الأبرار» مدحه شيخ مشایخنا الشاه عبد العزيز الدهلوي.

▪ ترجمہ: یہ روایت ’’مجالس الابرار‘‘ سے لی گئی ہے، لیکن میرے پاس جو حدیث کی کتب موجود ہیں اُن میں مجھے یہ حدیث نہ مل سکی، البتہ اتنا ہے کہ ہمارے شیخ المشایخ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’مجالس الابرار‘‘ نامی کتاب کی تعریف فرمائی ہے۔)


🌻 *زیرِ بحث روایت کا تحقیقی جائزہ اور چند توجہ طلب امور*


💐 *’’فضائل اعمال‘‘ کی اس روایت کا مأخذ:*

یہ روایت حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے کتاب ’’مجالس الابرار‘‘ سے نقل فرمائی ہے جیسا کہ روایت کے آخر میں حوالہ بھی موجود ہے۔


💐 *کتاب "مجالس الاَبرار" کا تعارف:*

’’مجالس الابرار‘‘ درحقیقت حضرت شیخ احمد رومی رحمہ اللہ کی مایہ ناز عربی  تصنیف ہے، بندہ کے سامنے ’’دار الاشاعت‘‘ سے شائع ہونے والا اس کا اردو ترجمہ ہے، اس کے ٹائٹل میں یہ درج ہے:

▪ تصنیف: حضرت شیخ احمد رومی رحمۃ اللہ علیہ۔

▪ ترجمہ بااہتمام: مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ۔

▪ مصدقہ: حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ۔

یہ مجموعی اعتبار سے نہایت ہی جلیل القدر کتاب ہے، جس کی سطر سطر سے سنت کی محبت اور بدعات سے نفرت ٹپکتی ہے، اس میں شریعت کے احکام نہایت ہی واضح انداز سے بیان فرمائے  گئے ہیں۔ مصنف رحمہ اللہ نے اس کتاب کو 100 مجالس میں تقسیم کیا ہے اور ہر مجلس کی بنیاد احادیث پر رکھی ہے۔ اس کتاب کو اردو قالب میں ڈالنے اور اسے شائع کرانے میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ نے خصوصی دلچسپی ظاہر فرمائی۔

کتاب اور اس کے مصنف سے متعلق مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’مجالس الابرار‘‘ کے مصنف نے غایتِ اخلاص وتواضع کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں فرمایا۔ میں نے ہر چند کوشش کی کہ مصنف رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ حالات معلوم ہوجائیں مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ (اس کے بعد مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اس کتاب کے بارے میں شیخ المشایخ حجۃ الخلف عالم ربّانی حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تعریف ذکر فرمائی ہے کہ:) ’’کتاب ’’مجالس الابرار‘‘ علم ووعظ ونصیحت میں اسرارِ شریعت وابوابِ فقہ وابوابِ سلوک، وردِّ بدعات وعادات ِشنیعہ کے فوائدِ کثیرہ پر شامل ہے۔ ہمیں اس کے مصنف کا اس سے زیادہ حال معلوم نہیں، جتنا کہ اس تصنیف سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ اس کا مصنف ایک متدیّن، متورّع اور علومِ شرعیہ کے فنونِ مختلفہ پر حاوی تھا۔‘‘


💐 *’’مجالس الاَبرار‘‘ میں موجود زیرِ بحث روایت کا حال:*

’’مجالس الابرار‘‘ میں یہ روایت ذکر کرنے کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے کوئی حوالہ ذکر نہیں فرمایا کہ انھوں نے کس کتاب سے یہ حدیث نقل فرمائی ہے؟ اسی طرح مصنف نے اس روایت کی کوئی سند بھی بیان نہیں فرمائی تاکہ اس کی تحقیق کی جاسکے، بلکہ اس روایت کو ’’روي‘‘ جیسے مجہول صیغے کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، جس کی حقیقت اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں۔ اس لیے جب تک کوئی معتبر حوالہ نہ ہو تو محض اس کتاب ’’مجالس الابرار‘‘ پر اعتماد کرتے ہوئے اس حدیث کو درست اور ثابت  نہیں مانا جاسکتا۔


💐 *روایت ذکر کرنے کے بعد حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کی وضاحت اور تنبیہ:*

’’فضائل اعمال‘‘ میں زیرِ بحث روایت ذکر کرنے کے بعد حضرت اقدس شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے عربی عبارت میں یہ وضاحت اور تنبیہ فرمائی ہے کہ: ’’یہ روایت ’’مجالس الابرار‘‘ سے لی گئی ہے، لیکن میرے پاس جو حدیث کی کتب موجود ہیں اُن میں مجھے یہ حدیث نہ مل سکی، البتہ اتنا ہے کہ ہمارے شیخ المشایخ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’مجالس الابرار‘‘ نامی کتاب کی تعریف فرمائی ہے۔‘‘

اس وضاحت اور تنبیہ سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ جیسے عظیم الشان محدِّث کو احادیث کی جتنی کتب میسر تھیں ان میں ان کو یہ حدیث نہ مل سکی، بلکہ انھوں نے ’’مجالس الابرار‘‘ پر اعتماد کرتے ہوئے وہیں سےنقل فرمائی ہے۔ اور مجالس الابرار پر اعتماد کرنے کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ ’’ہمارے شیخ المشایخ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’مجالس الابرار‘‘ نامی کتاب کی تعریف فرمائی ہے۔‘‘ گویا کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف کی بنا پر انھوں نے اس کتاب پر اعتماد کیا اور اس سے یہ روایت نقل فرمائی۔ اور ’’مجالس الابرار‘‘ پر اعتماد کرنے کے لیے جہاں شیخ المشایخ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ جیسی عظیم ہستی کی تعریف اور تصدیق کافی تھی، وہاں کتاب کی ذاتی جلالتِ شان کا بھی کسی حد تک تقاضا تھا کیوں کہ کتاب مجموعی اعتبار سے نہایت ہی احتیاط سے لکھی گئی ہے۔ یوں حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے نہایت ہی دیانت کے ساتھ اہلِ علم کے لیے یہ واضح فرمادیا کہ مجھے تو اپنے پاس موجود احادیث کی کتب میں یہ حدیث نہ مل سکی بلکہ میں نے ’’مجالس الابرار‘‘ پر اعتماد کرکے روایت ذکر کردی ہے، گویا کہ مزید تحقیق آپ حضرات کرلیں کہ یہ حدیث ثابت ہے یا نہیں۔ چنانچہ بعض اہلِ علم نے بھی اپنے طور پر اس حدیث کی تحقیق فرمائی لیکن انھیں بھی یہ روایت معتبر ذرائع سے دستیاب نہ ہوسکی، بطورِ مثال دیکھیے: ماہنامہ ’’التبلیغ‘‘ راولپنڈی جلد 14، شمارہ 5 تا 9 میں حضرت مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم کی تحقیق۔ بندہ نے بھی یہ تحریر لکھتے ہوئے ہزاروں کتب پر مشتمل بعض ڈیجیٹل لائبریریوں کے ذریعے اس کی تحقیق کی لیکن کسی بھی معتبر ذرائع سے یہ روایت سامنے نہ آسکی۔ 


🌻 *تحقیق کا خلاصہ:* 

اس تفصیل سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ حضور اقدس ﷺ سے ثابت نہیں، بلکہ قرآن وسنت کے عام اصول کی روشنی میں بھی یہ روایت محلِ نظر معلوم ہوتی ہے، اس لیے اس کو حضور اقدس ﷺ کی طرف منسوب کرنا اور اس کی تشہیر کرنا درست نہیں۔ جہاں تک جان بوجھ کر نماز چھوڑنے کا معاملہ ہے تو قرآن وسنت میں اس سے متعلق سنگین سے سنگین اور سخت سے سخت وعیدیں موجود ہیں جو کہ ایک مسلمان کی تنبیہ کے لیے کافی ہیں، ان کے پیشِ نظر کوئی مسلمان جان بوجھ کر نماز ترک کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سنت کے مطابق نماز ادا کرنے کا عادی بنائے۔


🌻 *یہ روایت ثابت نہ ہونے کے باوجود ’’فضائل اعمال‘‘ میں کیوں ذکر کی گئی؟؟*

بعض حضرات یہ شبہ کرتے ہیں کہ جب حدیث ثابت نہیں ہے تو حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ جیسے عظیم الشان محدث نے ’’فضائل اعمال‘‘ میں یہ  ذکر کیوں فرمائی؟

☀️ *جواب* 1⃣: اس کا آسان جواب یہ ہے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کے سامنے اس روایت کا ثابت نہ ہونا واضح نہ ہوسکا، کیوں کہ اگر ان کو یہ تحقیق ہوجاتی کہ یہ حدیث ثابت ہی نہیں ہے تو وہ اس کو ہرگز ذکر نہ فرماتے۔ اور یہ تو علمی دنیا سے وابستہ ہرشخص جانتا ہےکہ ہمارے محدثین کرام کے سامنے بسا اوقات کسی حدیث کا موضوع ہونا اور ثابت نہ ہونا واضح نہیں ہوتا اس لیے وہ اس حدیث کو کسی خاص وجہ کے تحت ذکر فرمادیتے ہیں، آج تک کسی نے بھی ان ائمہ حدیث پر یہ طعن نہیں کیا کہ ۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔ یہ احادیث گھڑنے والے ہیں۔


☀️ *جواب* 2⃣: اس شبہ کا دوسرا جواب تو ماقبل میں ’’روایت ذکر کرنے کے بعد حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کی وضاحت اور تنبیہ‘‘ کے عنوان کے تحت تفصیل سے بیان ہوچکا جو کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ  جیسی عظیم ہستی کی طرف سے عذر کے طور پر قبول کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ حضرت نے ’’مجالس الابرار‘‘ پر اعتماد فرمایا اور اعتماد کرنے کی وجہ بھی تفصیل سے مذکور ہے۔


☀️  *جواب* 3⃣: تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے یہ حدیث ذکر فرماکر اس کو یوں ہی رہنے نہ دیا بلکہ ساتھ میں اہلِ علم کے لیے عربی میں وضاحتی عبارت بھی تحریر فرمادی، گویا کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے اپنا ذمہ بری کردیا کہ ایک تو یہ فرمادیا کہ میرے پاس جو حدیث کی کتب موجود ہیں اُن میں مجھے یہ حدیث نہ مل سکی، اور دوسری صراحت یہ فرمادی کہ یہ حدیث ’’مجالس الابرار‘‘ سے لی ہے کیوں کہ ہمارے شیخ المشایخ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’مجالس الابرار‘‘ نامی کتاب کی تعریف فرمائی ہے۔ یہ اہلِ علم کی شان ہوتی ہے کہ وہ بات واضح کردیتے ہیں۔ اس لیے فضائل اعمال میں اس روایت کے بعدحضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کی طرف سے ان دو باتوں کی وضاحت اور صراحت کی وجہ سے حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کا ذمہ کافی حد تک بَری ہوجاتا ہے، کیوں کہ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ

اس روایت کے ذکر کرنے میں حضرت نے اس اعتماد اور صراحت کو کافی سمجھا ہے۔ 


☀️ *جواب* 4⃣: اس تمام صورتحال میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعض حضرات اس روایت کی وجہ سے جو پروپیگنڈا حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ اور ’’فضائل اعمال‘‘ کے خلاف کرتے ہیں، تو وہ ’’مجالس الابرار‘‘ اور اس کے مصنف سے متعلق کیا رویہ اپنائیں گےجن کا حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے حوالہ دیا ہے؟؟ حالاں کہ مجالس الابرار کے مصنف امت کے اہلِ علم میں سے ہیں، جن کا ذکر حاجی خلیفہ رحمہ اللہ نے ’’کشف الظنون‘‘ میں بھی کیا ہے:

«مجالس الأبرار ومسالك الأخيار»: هو على مائة مجلس في شرح مائة حديث من أحاديث «المصابيح»، للشيخ أحمد الرومي. أوله: الحمد لله الذي رفع أقدار العلماء بمقدر معرفة كتابه.... الخ


☀️ *جواب* 5⃣: یقینًا یہ جوابات حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کی طرف سے کافی ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان جوابات کو تسلیم نہ کرنے پر اصرار کرے تو اس کے لیے عرض یہ ہے کہ اس بات سے تو اہلِ علم بخوبی واقف ہیں کہ امت کے جلیل القدر ائمہ حدیث کی متعدد مشہور اور مستند کتب میں بھی بعض شدید ضعیف احادیث حتی کہ موضوع اور بے اصل احادیث بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بھی امت نے کبھی ان ائمہ کے خلاف پروپیگنڈا نہیں کیا، ان کو بدنام نہیں کیا، ان کی عظمت کا انکار نہیں کیا، ان کو ۔۔۔معاذ اللہ۔۔۔ احادیث گھڑنے والا قرار نہیں دیا، اور نہ ہی ان کتب کو مسترد کیا ہے، بلکہ اس حدیث کا حکم واضح فرمادیا۔ جیسا کہ صحاح ستہ کی مشہور کتاب ’’سنن ابن ماجہ‘‘ کی موضوع احادیث سے متعلق حضرت علامہ عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الامام ابن ماجہ وکتابہ السنن‘‘ کا مطالعہ نہایت ہی مفید ہے۔ اس لیے بشری تقاضے کے مطابق اور قابلِ اطمینان وجوہات کی بنیاد پرامت کے بڑے بڑے ائمہ اہلِ علم سے ایسے امور صادر ہوجانا کوئی بعید نہیں، یہی حال حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کا بھی ہےکہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ امت کے جلیل القدر محدثین میں شمار ہوتے ہیں، جس کا اعتراف عرب وعجم کے اکابر اہلِ علم نے بھی کیا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کا تقویٰ، خشیتِ الٰہی، اتباعِ سنت، علم وعمل کی پختگی، دینی علوم میں کمال، خلوص وللہیت، علمی قدر ومنزلت، جلالتِ شان، احادیثِ مبارکہ سے عشق اور دیگر اوصاف عالیہ ایک مسلّم حقیقت ہیں، ان کی دینی خدمات نہاہت ہی وسیع اور عالمگیر ہیں۔ اس لیے ایسی بعض باتوں کی وجہ سے نہ تو حضرت کی شان میں کوئی فرق آسکتا ہے اور نہ ہی حضرت کی عظمت متاثر ہوتی ہے، انھوں نے حدیث کی جو جلیل القدر خدمات سر انجام دی ہیں وہ روزِ روشن کی طرح واضح ہیں۔

▪ ماقبل کی تفصیل سے یہ بھی واضح ہوا کہ ایسی بعض باتوں کی وجہ سے ’’فضائل اعمال‘‘ کو مسترد کردینا یا اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنا بھی انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ ’’فضائل اعمال‘‘ کی اہمیت اور تاثیر ایک واضح حقیقت ہے، یہ امتِ مسلمہ کی ان مایہ ناز کتب میں سے ہے جنھوں نے امت کے ایک بڑے طبقے میں دینی انقلاب برپا کیا ہے۔


🌻 *تنبیہ:*

یاد رکھیے کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے ’’فضائل نماز ‘‘ میں نماز ترک کرنے سے متعلق قرآن وسنت سے متعدد وعیدیں بیان فرمائی ہیں، صحیح احادیث بھی ذکر فرمائی ہیں، اس لیے اس حُقب والی حدیث کو ثابت نہ ماننے سے ’’فضائل اعمال‘‘ کی اہمیت اور افادیت پر اثر نہیں پڑتا۔

 

✍۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی


المرسل

محمد اطہر سہارنپوری

Share: