وراثت میں بہنوں کو حصہ نہ دینے والا ھمیشہ جہنم میں رھے گا

 السلام علیکم و رحمة الله و بركاته. 


((وراثت

میں سے بہنوں کو حصہ نہ دینے والا ہمیشہ جہنّم میں رھے گا..)) 


سوال_ وراثت میں بیٹیوں/ بہنوں کا حق کھانے والوں کے بارے کیا حکم ہیے ؟

 اگر والد زندگی میں ہی جائیداد بیٹوں کے نام کر دے تو کیا بہنیں اس وراثت کی حقدار نہیں۔۔؟ نیز کیا کسی شخص کا مال اسکی خوشنودی کے بنا لینا جائز ہیے ؟ 


جواب

الحمد للہ:


*اللہ کی قسم یہ بہت ہی بڑی سنگین غلطی ہیے جسے آج دیندار اور متقی لوگ بھی عام سی بات سمجھ بیٹھے ہیں،اور وراثت کی تقسیم میں ظلم کرتے ہیں، خاص کر بیٹیوں/ بہنوں کو جہیز یا عید وغیرہ پر چند پیسے دے کر ٹرکا دیا جاتا ہیے اور جائیداد میں سے حصہ نہیں دیا جاتا، اور وہ بھی بے چاری ساری زندگی یہ سوچ کر بھائیوں سے حصہ نہیں مانگتی کہ کہیں بھائی ناراض نا ہو جائیں کہیں انکے لیے میکے کا دروازہ بند نا ہو جائے، اور کئی دفعہ بھائیوں کے کہنے پر بھی انکار کر دیتی ہیں کہ اس سے انکے بھائی خوش ہو جائیں گے۔۔۔۔۔ انہیں ماں باپ کے گھر میں عزت ملے گی۔۔۔😥 لیکن یہ ممکن نہیں کہ بہن ضرورت مند بھی ہو اور دل سے اپنا حصہ چھوڑ دے یہ سب کچھ وہ اپنا میکہ بچانے کے لیے کرتی ہیں،کیا کبھی کسی بھائی نے قربانی دی کہ چلو اپنا حصہ بہن کو دے دوں؟؟ نہیں کبھی ایسا نہیں ہوا، تو اللہ کے لئے ہاتھ جوڑتا ہوں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کو نا توڑیں، جسکا جتنا حق ہیے اسکو دیں۔۔۔*


اسلام سے پہلے بھی عورتوں کو وراثت سے حق نہیں دیا جاتا تھا،


📚جیسا کہ ایک حدیث میں ہے سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دو بیٹیوں کو جو سعد سے پیدا ہوئی تھیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں، ان کے باپ آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہو گئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے، اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا، اور بغیر مال کے ان کی شادی نہیں ہو گی۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا“، چنانچہ اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ( لڑکیوں ) کے چچا کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو مال کا دو تہائی حصہ دے دو اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ، اور جو بچے وہ تمہارا ہے“ 

۔ امام ترمذی کہتے ہیں: 

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

( سنن ترمذی حدیث نمبر _:2092)

(مسند أحمد : 352/3، ح : 18810 )


*اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وراثت کے احکامات تفصیل سے ذکر کیے ہیں اور ان میں باقاعدہ عورتوں کا حصہ مقرر کیا ہے*


اللہ پاک فرماتے ہیں..!!


السلام عليكم و رحمة الله و بركاته. 


أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ. 


وراثت 

میں سے بہنوں کو حصہ نہ دینے والا ہمیشہ جہنم میں رھے گا. 


📚 لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ ۖ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ اَوۡ كَثُرَ ‌ؕ نَصِيۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ۞ 

(سورہ نساء

 آئیت نمبر_7)

ترجمہ:

مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہیے 

جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہیے 

جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقرر کیا ہوا حصہ ہیے ۔


تفسیر:

لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ۔ :

 اس آیت میں ایک اصولی حکم دیا ہیے کہ ماں باپ اور رشتے داروں کی چھوڑی ہوئی جائداد میں، چاہے وہ کسی نوعیت کی ہو، جس طرح مردوں کا حق ہیے اسی طرح عورتوں اور چھوٹے بچوں، حتیٰ کہ جنین کا بھی حق ہیے ۔ اس سے عرب کے جاہلی دستور کی تردید مقصود ہیے ۔ 

جس کے مطابق عورتوں اور بچوں کو میت کے متروکہ مال اور جائداد سے محروم کردیا جاتا اور صرف بالغ لڑکے ہی جائداد پر قبضہ کرلیتے تھے۔

 اس آیت کی شان نزول اور مردوں اور عورتوں کے حصوں کی تعیین بعد کی آیات میں آرہی ہیے ۔ (ابن کثیر)

(تفسیر القرآن الکریم - سورۃ نمبر 4

 النساء

آیت نمبر 7)


آگے

 اللہ پاک وراثت کی تقسیم کا ذکر کرتے ہیں،


📚يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡۤ اَوۡلَادِكُمۡ‌ ۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ‌ ۚ فَاِنۡ كُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ‌ ۚ وَاِنۡ كَانَتۡ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصۡفُ‌ ؕ وَلِاَ بَوَيۡهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنۡ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ‌ ؕ فَاِنۡ كَانَ لَهٗۤ اِخۡوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصِىۡ بِهَاۤ اَوۡ دَيۡنٍ‌ ؕ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ ۚ لَا تَدۡرُوۡنَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ لَـكُمۡ نَفۡعًا‌ ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞ 

(سورہ نساء

 آئیت نمبر_11)


ترجمہ:

اللہ

 تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہیے ،

 مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہیے ،

 پھر اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں (ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہیے جو اس نے چھوڑا اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہیے ۔ اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہیے ، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہیے ،

 پھر اگر اس کے

 (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہیے ، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض 

(کے بعد) ۔ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہیے ،

 یہ

 اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں، بیشک اللہ

 ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہیے ۔


مختصر تفسیر:

مطلب یہ ہیے کہ جب اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوں تو لڑکے کو لڑکی سے دگنا ملے گا، اسے دو حصے دینے کی وجہ یہ ہیے کہ مرد پر عورت کی نسبت معاشی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ (مہر ہی کو لے لیجیے کہ مرد دیتا ہیے ،

 عورت لیتی ہیے ،

 اسی طرح عورت کا نان و نفقہ بھی خاوند کے ذمے ہوتا ہیے ) اس بنا پر مرد کے لیے عورت سے دگنا حصہ دینا عین قرین انصاف ہیے ۔ 

(قرطبی و ابن کثیر) 


فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ ۔۔ : 

دو سے زیادہ ہی کا نہیں دو عورتوں کا بھی یہی حکم ہے، جیسا کہ اس آیت کے پہلے فائدے میں سعد بن ربیع (رض) کی دو بیٹیوں کو دو تہائی دینے کا ذکر ہوا ہیے ،

 پھر اس سورت کی آخری آیت میں جب دو بہنوں کو دو تہائی حصہ دیا گیا ہیے تو دو بیٹیوں کو بدرجہ اولیٰ دیا جانا چاہیے۔ 

کیونکہ بیٹی، بہن کے مقابلہ میں آدمی کے زیادہ قریب ہیے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو لڑکیوں کا دو تہائی حصہ قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہیے ۔ 

(ابن کثیر) 


وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ ۭ :

اس سے بھی معلوم ہوا کہ جب ایک بیٹی کا نصف ہیے تو دو یا دو سے زیادہ بیٹیوں کا دو تہائی ہونا چاہیے۔ 


وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ ۔۔ :

یعنی میت کی اولاد ہونے کی صورت میں ماں باپ دونوں میں سے ہر ایک کو کل ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، مثلا میت کی ایک بیٹی اور ماں باپ ہیں تو ترکہ کے چھ مساوی حصے کرلیے جائیں۔ بیٹی کو تین حصے (نصف) ماں کو ایک حصہ (سدس) باپ کو ایک حصہ (سدس) مقررشدہ اور ایک حصہ (سدس) عصبہ ہونے کی وجہ سے ملے گا۔ اور اگر میت کی دو یا زیادہ بیٹیاں ہیں تو ترکہ کے چھ حصوں میں چار حصے (دو ثلث) بیٹیوں کے اور ایک ایک حصہ (سدس) ماں باپ کا ہوگا اور اگر ماں باپ کے ساتھ لڑکے لڑکیاں دونوں ہیں تو ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے اس میں سے لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ ہوگا۔ 


اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا : 

یعنی

 اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے علیم و حکیم ہیے ،

 اس نے خود میراث کا یہ قانون اس لیے مقرر فرمایا کہ تم اپنے

 نفع و نقصان کو نہیں سمجھتے، اگر تم اپنے اجتہاد سے ورثہ تقسیم کرتے تو حصوں کا ضبط میں لانا مشکل تھا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) 

شاہ عبد القادر (رح) لکھتے ہیں :

” یعنی ان حصوں میں عقل کا دخل نہیں،

 اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں، وہ سب سے دانا ہیے ۔ “ (موضح)

تفسیر القرآن الکریم - سورۃ نمبر 4 النساء

آیت نمبر_11)


*کسی کی زمین اپنے قبضے میں کرنا  مستقل طور پر کبیرہ گناہوں میں سے ہیے ، پھر اس میں قطع رحمی بھی ہیے

 اور بہنوں پر ظلم بھی ہیے *


اللہ پاک فرماتے ہیں،


📚وَلَا تَاۡكُلُوۡٓا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَتُدۡلُوۡا بِهَآ اِلَى الۡحُـکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِيۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ  ۞ 

ترجمہ:

اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ اور نہ انھیں حاکموں کی طرف لے جاؤ، تاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔

(سورہ البقرہ آئیت نمبر-188)


تفسیر:

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ ۔۔ :


یہاں

 اللہ تعالیٰ

 نے حرام سے بچنے کی تلقین فرمائی ہیے ، 

جو مال بھی ناجائز طریقے سے حاصل کیا جائے،

 خواہ اس میں مالک کی رضا مندی بھی شامل ہو، وہ باطل (یعنی ناحق) طریقے سے کھانا ہیے ، مثلاً سود، زنا کی اجرت، نجومی کی فیس، شراب کی فروخت وغیرہ الغرض تمام ناجائز وسائل باطل کے ساتھ کمانے میں آجاتے ہیں،


*ناجائز مال کھانے میں بہنوں یا بیٹیوں کا حق کھانا بھی آتا ہیے ،

جیسے کسی شخص نے مرنے سے پہلے اپنی جائیداد کا زیادہ حصہ بیٹوں  کے نام لگوا دیا تا کہ مرنے کے بعد باقی اولاد ( بیٹیاں ) وراثت سےمحروم  رہیں یا انکو کم حصہ ملے۔۔۔وغیرہ، تو بیٹوں کے لیے باپ کا دیا  ہوا یہ مال بھی ناجائز طریقے میں آتا ہیے ،

جسے

 اللہ تعالیٰ

 نے باطل اور حرام قرار دیا ہیے ،

حتی کہ اگر عدالت بھی کسی کا مال کسی دوسرے کو دے دے تو بھی وہ اسکے لیے حرام ہو گا،

جیسا کہ ایک آدمی کو معلوم ہیے کہ فلاں زمین یا مال فلاں شخص کا ہیے ، مگر اس کے پاس ثبوت نہیں، اگر میں مقدمہ کر دوں تو عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ کروانے میں کامیاب ہوجاؤں گا،

 چناچہ وہ حاکم کے پاس مقدمہ لے جاتا ہیے ۔

 اللہ تعالیٰ

 نے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔

(وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) یعنی جانتے ہوئے ایسا کرنا تو نہایت برا ہیے ۔ 


📚ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ

 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

 ” یاد رکھو ! میں ایک بشر ہی ہوں اور میرے پاس جھگڑنے والے آتے ہیں، تو شاید ان میں سے ایک اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ زبان آور ہو

 تو میں اسے سچا سمجھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، سو میں جس کے لیے کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہیے ، خواہ وہ اسے لے لے یا اسے چھوڑ دے۔ “ 

(صحیح بخاری، المظالم، باب إثم من خاصم وہو بعلمہ : حدیث نمبر_ 2485) 


*بعض لوگوں کا کہنا ہیے کہ قاضی جس کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دے وہ اس کے لیے حلال ہوجاتی ہیے ، لیکن اوپر ذکر کردہ اس  آیت اور حدیث سے ان کی بات کا باطل ہونا ظاہر ہیے ،*


*ان تمام آیات اور احادیث کے باوجود بھی جو لوگ اللہ تعالی کے بتلائے ہوئے طریقے  کو خاطر میں نہ لائیں، حالانکہ اللہ تعالی نے ہر وارث کا حصہ اور اس کا حکم واضح فرما دیا ہیے ، پھر ان احکام کی مخالفت کریں اور بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں سے حصہ نا دیں تو اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب کی وعید سنائی ہیے *


اللہ پاک فرماتے ہیں:


📚تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ(13)

 وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَاراً خَالِداً فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ(14)

ترجمہ: 

یہ اللہ  کی حدیں ہیں اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت عظیم کامیابی ہے، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، اس کی حدود پامال کرے  اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کیلیے رسوا کن عذاب ہے

(سورہ النساء:آئیت نمبر_13٫14)


📚اس آیت کی تفسیر میں شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 

"اس آیت میں " تِلْكَ " کہہ کر پہلے گزرے ہوئے احکام کی جانب اشارہ ہے  [جن میں وراثت کے احکام بھی شامل ہیں] نیز انہیں  حدود سے موسوم کیا ؛ کیونکہ ان احکام سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی انہیں عبور کرنا  جائز ہے" ختم شد

"فتح القدير" (2/99)


📚اس آئیت کی تفسیر میں استاذ العلماء حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب لکھتے ہیں،


تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۔۔ : 

اللہ تعالیٰ نے وراثت کو حدود اللہ قرار دیا اور اس حکم کی اطاعت پر جنت اور فوزعظیم کا وعدہ فرمایا ہے اور نافرمانی اور حدود اللہ کی پامالی کی صورت میں ہمیشہ کی آگ اور عذاب مہین کی سزا سنائی ہے ،افسوس کہ بڑے بڑے بظاہر متقی لوگ بھی بہنوں کو ان کا حصہ نہیں دیتے اکثر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جائداد بیٹوں کو دے دیں اور بیٹیوں کو محروم کردیں اسی طرح اگر کوئی وارث کمزور ہو تو اسے بھی وراثت سے حصہ نہیں دیتے ان سب کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے اور اس کے رسوا کن عذاب اور ہمیشہ کی آگ سے ڈرنا چاہیے۔

(تفسیر القرآن الکریم)


حدیث میں آتا ہے کہ


📚سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ایک بالشت زمین ناحق دبائی تو قیامت کے دن اللہ تعالی اس کی گردن میں ساتوں زمینوں  سے طوق پہنائے گا

(صحیح بخاری حدیث نمبر_3198)

( صحیح مسلم: حدیث نمبر_1610)


📚اسی طرح ابو مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:(بیشک اللہ تعالی کے ہاں عظیم ترین خیانت وہ ایک ہاتھ زمین یا مکان ہے جس [کے کل حصے ]میں دو شراکت دار ہوں تو ان میں سے ایک اپنے شریک کے حصے میں سے ایک ہاتھ زمین زیادہ ہتھیا لیتا ہے، اگر وہ ہتھیا لے تو اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا) 

(مسند احمد حدیث نمبر_22914)

حکم الحدیث : إسناده حسن في المتابعات والشواهد


📚ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی بھی بغیر حق کے کوئی بھی چیز ہتھیائے تو وہ روزِ قیامت اس کو اٹھائے ہوئے اللہ سے ملے گا، تو میں جانتا ہوں کہ تم میں سے کوئی اللہ تعالی کو ( بڑ بڑاتے اونٹ ، ڈکراتی گائے یا منمناتی بکری اٹھائے ہوئے ملے گا ، پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بلند فرمایا یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی آپ فرما رہے تھے: یا اللہ! کیا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ہے؟!

(صحیح  بخاری حدیث نمبر-6636)


*ان احادیث کے مصداق وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے کسی کی بھی زمین پر ناجائز قبضہ کیا یا جس شخص نے بھی بیٹیوں یا بہنوں کا حق مارا کہ ،انکی وراثت ان کو نا دی وہ سب اس میں شامل ہیں*


*اور پھر کسی دوسرے کی ملکیت والی چیز کوظلم و زیادتی سے لینا اور قبضہ کرنا، غصب کہلاتا ہے اور غصب کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے،*


اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

📚 اور تم آپس میں اپنے مالوں کوباطل طریقوں سے نہ کھاؤ 

اور غصب باطل طریقے سے مال کھانے سے بھی بڑا ظلم ہے،

(سورہ بقرہ _188)


📚 اور پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے :

( یقینا تمہارے خون اورتہمارے مال و دولت اور تمہاری عزتیں تم پر( یعنی ایک دوسرے پر ) حرام ہیں،

(صحیح بخاری حدیث نمبر-6043)


📚 اور دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لا يَحِلُّ مالُ امرِيءٍ مُسلمٍ إلّا  بِطِيبِ  نفسٍ  مِنهُ ،  کسی بھی مسلمان کا مال اسکی اجازت اور خوشنودی کے بنا لینا حلال نہیں،

(صحیح الجامع حدیث نمبر-7662)


📚ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کا مال ناحق طریقے سے لے۔ اس فرمان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دوسری روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی آدمی کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی اس کی رضامندی کے بغیر لے۔ اس ارشاد کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سختی سے ایک مسلمان کے مال کو دوسرے مسلمان پر حرام قرار دیا ہے۔  

(مسند احمد حدیث نمبر_23605)

(صحیح  ابن حبان، حدیث نمبر_5978)


جب عام سی چیز لاٹھی لینا جائز نہیں اسکے مالک کی خوشنودی کے بغیر تو وراثت ،زمین لینا کیسے جائز ہو سکتا؟


یاد رہے یہاں اجازت دینے کی بات نہیں ہوئی بلکہ دل سے خوش ہو کر اجازت کی بات ہوئی ہے، ایک شخص آپکو گاڑی مانگنے پر دے تو دیتا ہے مگر اسکا موڈ آف ہوتا ہے، ناچاہتے ہوئے دیتا ہے تو ایسی صورت میں کسی سے کوئی چیز ادھار لینا بھی جائز نہیں تو جو کسی کا مال،زمین اسکی دلی اجازت کے بنا لے وہ کیسے جائز ہو گا؟


*لہذا بہنوں، بیٹیوں کی جائیداد ہڑپنے والوں کے لیے ضروری اور لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کےہاں توبہ کرے اور غصب کی ہوئی زمین جائیداد انکے اصلی وارثین کو واپس لوٹائے اور ان سے معافی و درگزر طلب کرے*


📚فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( جس نے بھی اپنے کسی بھائی پر ظلم و زیادتی کی ہے اسے آج ہی اس کا کفارہ ادا کردے قبل اس کے کہ اس کے پاس درھم و دینا نہ ہوں ( یعنی قیامت کے دن ) اگر اس کی نیکیاں ہوں گی تووہ مظلوم کو دی جائيں گي اوراگرنیکیاں نہ ہوئيں تو مظلوم کے گناہ لے کے اس کے پر ڈال دیۓ جائيں گے اورپھر اسے جہنم میں ڈال دیا جاۓ گا ) 

(صحیح بخاری حدیث نمبر_6534)


*اور اگر باپ نے مرنے سے پہلے زمین جائیداد بیٹوں کے نام لگا دی تا کہ بیٹیوں کو وراثت نا ملے تو یہ اسکی سرا سر غلطی ہے،اسکے لیے یہ عمل جائز نہیں تھا کیونکہ اللہ نے بیٹیوں کا حق بھی رکھا ہے، اور عین ممکن ہے اسکی بے انصافی کہ وجہ سے اسکو اسکی سزا ملتی رہے جب تک اولاد اپنے والدین کی غلطی سدھاریں گے نہیں،کیونکہ  شریعت نے وراثت میں تو عورت کو نصف دیا ہے لیکن زندگی میں اگر والدین کوئی تحفہ دیں تو انکے لیے اولاد میں برابری کرنا واجب ہے وہ چاہے بیٹی ہو یا بیٹا سب کو برابر دینا ضروری ہے،*


📚 نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،

وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا ( نعمان کی والدہ ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ( حاضر خدمت ہو کر ) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا،

(صحیح بخاری حدیث نمبر-2587)


*لہذا اولاد کو چاہیے کہ خود کو اور اپنے والدین کو عذاب اور سختی سے بچانے کے لیے اپنی بہنوں کا حق انہیں لٹائیں اور ساتھ میں ان سے بھی اور اللہ سے بھی اپنی اور اپنے والدین کی غلطی کی معافی طلب کریں، بے شک اللہ غفور و رحیم معاف فرمانے والا ہے اور دنیا کے عارضی مال کے لیے اپنی آخرت برباد نا کریں*


(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))


🌹🌺🌹

Share: