عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 12 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


*صالح بن طریف*

یہ شخص مذھب کے اعتبار سے یہودی تھا اور اندلس میں اس کی نشوونما ہوئی تھی وہاں سے  اس نے مغرب اقصیٰ کے بربری قبائل میں رہائش اختیار کی۔ بربری قبائل بالکل جاہل اور وحشی تھے صالح نے اپنے جادو کے شعبدے دکھاکر ان سب کو اپنا مطیع کرلیا اور ان پر حکومت کرنے لگا۔۱۲۷ھ میں جب ہشام بن عبدالملک خلیفہ تھے، صالح نے نبوت کا دعویٰ کر دیا شمالی افریقہ میں اس کی حکومت کافی مستحکم ہوگئی اور اس کو وہ عروج ہوا کہ اس کے کسی ہم عصر حاکم کو اس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ اس شخص کے کئی نام تھے عربی میں مصالح۔ فارسی میں عالم۔ سریانی میں مالک۔ عبرانی میں روبیل اور بربری زبان میں اس کو واریا یعنی خاتم النبین کہتے تھے۔

صالح  نےاپنی خود ساختہ لیکن انتہائی مضحکہ خیز شریعت بھی نافذ کی 

یہ جھوٹا نبی کہتا تھا کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح مجھ پر بھی (نعوذ باللہ ) قرآن نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی قوم کے سامنے جو قرآن پیش کیا اس میں (80)  سورتیں تھیں اور حلال وحرام کے احکام بھی ان سورتوں میں مذکور تھے۔ اس جھوٹے نبی کے جھوٹے قرآن میں ایک سورۃ “غرائب الدنیا “ کے نام سے بھی موجود تھی جس کو اس کے بد بخت  امتی نماز میں پڑھتے تھے، اس کی جھوٹی شریعت کی خاص خاص باتیں یہ تھیں۔

*روزے رمضان کے بجائے رجب میں رکھے جاتے تھے۔

نمازیں 10وقت کی فرض تھیں۔11محرم کے دن ہر شخص پر قربانی واجب تھی 

شادی شدہ عورت و مرد پر غسل جنابت معاف تھا 

نماز صرف اشاروں سے پڑھتے تھے البتہ آخری رکعت کے بعد پانچ سجدے کئے جاتے تھے۔

شادیاں جتنی عورتوں سے چاہیں کریں تعداد کی کوئی قید نہیں تھی۔

ہر حلال جانور کی سری کھانا حرام تھا۔

صالح 47سال تک دعوۂ نبوت کے ساتھ اپنی قوم کے سیاہ وسفید کا مالک  بنا رہا اور 174ھ میں تخت وتاراج سے دستبردار ہوکر پایہ تخت سے کہیں مشرق کی طرف جاکر گوشہ نشین ہوگیا۔ جاتے وقت اپنے بیٹے الیاس کو نصیحت کی کہ میرے دین پر مضبوطی سے جمے رہنا چنانچہ نہ صرف الیاس بلکہ صالح کے تمام جانشین پانچویں صدی ہجری کے وسط تک نہ صرف اس کے تخت وتاج بلکہ اس کی خانہ ساز نبوت کے بھی وارث رہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق الیاس بن صالح باپ کی وصیت کے مطابق اس کی تمام کفریات پر عمل کرتا رہا اور پچاس برس تک حکومت کرنے اور مخلوق خدا کو گمراہ کرنے کے بعد 224ھ میں مرگیا۔ الیاس کے بعد اس کا بیٹا یونس اس کے بعد ابو غفیر کا بیٹا ابو الانصار اس کے بعد اس کا بیٹا ابو منصور عیسیٰ بھی نبوت کے دعویدار رہے۔ 369ھ میں ایک لڑائی میں جھوٹی نبوت کے اس خاندان کا آخری کذاب بھی واصل جہنم ہوا اور مرابطون نے 451ھ میں اہلسنّت والجماعت کی حکومت قائم کردی۔


*اسحاق اخرس*

جھوٹے لعنتی نبیوں کی فہرست میں شمالی افریقہ کا اسحاق اخرس بھی شامل تھا،135ھ میں جب عباسی خلیفہ کا دور تھا تو یہ بدبخت اصفہان سے ظاہر ہوا، اس نے تمام آسمانی کتابوں کا مطالعہ کیا اور شعبدہ بازی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ایک عربی مدرسہ میں قیام پذیر ہوگیا۔ 10برس تک اس نے گونگا ہونے کا ڈرامہ رچایا۔ یہاں تک کہ اس کا لقب ہی ’’اخرس‘‘ یعنی ’’گونگا‘‘ پڑگیا۔ 10برس کی صبر آزما مدت کے بعد اس کذاب نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ اس نے ایک نفیس قسم کا روغن تیار کیا جو لگانے سے چہرہ چمک اٹھتا تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کو مرعوب کرنا تھا کہ اللہ نے قوت گویائی کے ساتھ ساتھ نورانیت بھی عطا کردی ہے۔ اس کی ان چالبازیوں اور مکاریوں کے اثر سے اس مدرسے کے اساتذہ اور مہتمم بھی محفوظ نہ رہ سکے قاضی وقت سمیت پورا شہر اس کا معتقد ہوگیا۔


جن لوگوں کا دل نور ایمان سے منور تھا اور جن کو ہر عمل شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا آتا تھا انہوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ اسحاق اخرس کوئی نبی یا ولی نہیں بلکہ جھوٹا۔کذاب۔ شعبدہ باز اور رہزن دین وایمان ہے لیکن عقیدت مندوں کی خوش اعتقادی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔

بالآخر اسحق اخرس کے پاس اتنی قوت اور لوگوں کی تعداد ہوگئی کہ اس کے دل میں ملک گیری کی ہوس پیدا ہونے لگی۔ چنانچہ اس نے ایک بڑی تعداد اپنے عقیدت مندوں کی لے کر بصرہ۔ عمان اور اس کے قرب وجوار کے علاقوں پر دھاوا بول دیا اور عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے حاکموں کو بصرہ اور عمان وغیرہ سے بے دخل کرکے خود قابض ہوگیا۔خلیفہ جعفر منصور کے لشکر سے اسحاق کے بڑے بڑے معرکے ہوئے آخر کار عساکر خلافت فتح یاب ہوئے اور اسحاق جہنم واصل ھو گیا اوریوں وہ خود اور اس کی جھوٹی نبوت خاک میں مل گئی۔

Share: