عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت*

دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور

فتوی نمبر: 35


سوال:  عید میلاد النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


جواب:  رحمت کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر ولادت کے عنوان سے جو محفلیں منعقد کی جاتی ہیں انہیں محفلِ میلاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا تذکرہ کرنا اور اس سے  دوسروں کو آگاہ کرنا تمام مسلمانوں کے لیے موجب خیر و برکت اور باعث فخر و سعادت ہے لیکن شریعت نے ہر کام اور عبادت کے لیے کچھ حدود و قواعد مقرر کیے ہیں ان حدود و قواعد کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر عمل کا انجام دینا ضروری ہے اور ان سے تجاوز کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے‘ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت عظیم ثواب کا عمل ہے لیکن رکوع اور سجدہ کی حالت میں ممنوع ہے‘ اسی طرح نماز اہم ترین عبادت ہے لیکن آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنا حرام ہے۔ اسی طرح سیرت طیبہ کے مبارک تذکرے کے لیے کچھ حدود و قواعد ہیں مثلاً سیرت کے تذکرہ کو کسی معین تاریخ یا مہینہ کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ سال کے ہر مہینہ میں اور مہینہ کے ہر ہفتہ میں اور ہفتہ کے ہر دن میں اسے یکساں طور پر باعث سعادت عمل سمجھا جائے اور اس کے لیے کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کر لیا جائے مثلاً سیرت پر لکھی گئی معتبر کتابوں کے مطالعہ کا معمول بنا لیا جائے یا کسی عالم دین کو بلا کر مہینہ میں ایک مرتبہ سیرت کے موضوع پر وعظ سن لیا جائے ایسا کرنا نہ صرف جائز بلکہ باعث ثواب ہے مگر ان تمام مفاسد اور منکرات سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے جو عام طور پر مروجہ میلاد کی محفلوں میں پائی جاتی ہیں ان میں سے بعض مفاسد اور منکرات درج ذیل ہیں۔


(۱) ماہِ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو خصوصیت کے ساتھ محفل میلاد منعقد کرنا یا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا اس کا کوئی ثبوت حضرات صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور ائمہ دین کے مبارک دور میں نہیں ملتا لہٰذا آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کو کسی معین تاریخ یا معین مہینہ کے ساتھ مخصوص کر لینا دین میں اضافہ اور بدعت ہے۔


(۲) مٹھائی حلوہ کے لیے لوگوں سے چندہ وصول کرنا جس میں لوگ عموماً لحاظ و مروت کی خاطر یا جان چھڑانے کے لیے چندہ دیتے ہیں اور حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کا مال اس کی خوشدلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔


(۳) ان محفلوں میں ضرورت سے زیادہ روشنی اور چراغاں کا اہتمام ہونا‘ ان کی سجاوٹ میں حد سے زیادہ تکلف کرنا اور غیر ضروری آرائش پر حد سے زیادہ اخراجات کرنا جو بلاشبہ اسراف میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔


(۴) ان محفلوں میں تصویریں۔ اتارنا‘ جلسوں کے انتظامی انہماک کی وجہ سے یا رات کو دیر تک جاگنے کے سبب فرض نماز ترک کرنا یا اس کا قضا ہو جانا شرعاً جائز نہیں ہے۔


(۵) ان محفلوں میں بعض اوقات بے احتیاطی کی وجہ سے ایسی کہانیاں بیان کر دی جاتی ہیں جو صحیح اور معتبر روایات سے ثابت نہیں ہوتیں حالانکہ اس مقدس موضوع کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ صحیح روایات سے ثابت شدہ واقعات نہایت احتیاط سے بیان کیے جائیں۔


(۶) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر شعبۂ زندگی سے متعلق واضح ہدایات اور تعلیمات امت کو عطا فرمائی ہیں اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تعلیمات پر روشنی ڈالی جائے۔ عبادات ،معاملات، معاشرت اور اعمال و اخلاق پر سیر حاصل گفتگو کی جائے لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ آج کل کی زیادہ تر میلاد کی محفلوں میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا ذکر کیا جاتا ہے یا زمانہ نبوت سے پہلے کے حالات بیان کیے جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کا کچھ بیان ہو جاتا ہے لیکن عموماً تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق جامع تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان نہیں ہوتا اور ان کی جگہ خرافات‘ مفاسد اور منکرات نے لے لی ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر مروجہ میلاد کی محفلیں قابل ترک ہیں البتہ اگر ان مفاسد میں سے کوئی نہ ہو اور شرعی حدود و آداب کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی کوئی محفل محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر منعقد کر لی جائے تو اس میں انشاء اللہ سراسر خیر و برکت ہے۔


(۷) حاضرین کھڑے ہو کر نعت خوانی کرتے ہیں اس عقیدہ سے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل میں تشریف لا رہے ہیں یہ عقیدہ غلط اور باطل ہے اور اس طرح کا قیام شرعاً ناجائز ہے۔


علامہ ابن حجر الھیثمی فرماتے ہیں

 ’’ونظیر ذالک فعل کثیر عند ذکر مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم ووضع امہ لہ من القیام وھوا ایضا بدعۃ لم یردفیہ شی‘‘ الفتاویٰ الحدیثیہ ص ۵۸۔


(۸) نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے بارے میں جو مشہور ہے کہ یہ بارہ ربیع الاول کا ھی دن تھا یقینی طور پر درست نہیں ہے علامہ نووی رحمہ اللہ نے چار اقوال اس کے بارے میں نقل کیے ہیں اور ترجیح کسی ایک کو بھی نہیں دی 

پہلا قول یہ ہے کہ دو ربیع الاول کا دن تھا 

دوسرا یہ ہے کہ آٹھ ربیع الاول کا دن تھا 

تیسرا یہ کہ دس تاریخ تھی 

چوتھا قول یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کا دن تھا۔

علامہ حلبی رحمہ  اللہ  کا رجحان سیرت حلبیہ میں ربیع الاول کی (9 ) تاریخ کی طرف ہے۔

واتفقوا علی انہ ولد یوم الاثنین من شہر ربیع الاول واختلفوا ھل ھو فی الیوم الثانی او الثامن من ام العاشر اوالثانی عشر فھذہ اربعۃ اقوال مشھورۃ۔

تہذیب الاسماء ۱/۵۰۔


تو جب اس تاریخ  یعنی بارہ ربیع الاول میں ہی اختلاف ہے اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہیں  ھے تو بارہ ربیع الاول کو متعین کرنا کیسے درست ہے؟ 

لہٰذا آج کل جو بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  منائی جاتی ھے وہ شرعاً جائز نہیں ہے۔"


ماخذ: دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور

فتوی نمبر: 35

Share: