عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 13 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


*استاد سیس خراسانی*

یہ کذاب خراسان کا رھنے والا تھا اس لئے خراسانی مشہور ھوا اس شخص نے خراسان کے اطراف ہرات اور سجستان وغیرہ میں اپنی نبوت کے بلند بانگ دعوے کیے اور عوام اس کثرت سے اس کے معتقد ہوئے کہ چند ہی برس میں استاد کے پاس تقریباً  تین لاکھ سے زائد  آریوں کی ایک جماعت  تیار ہوگئی جو اس کو خدا کا فرستادہ نبی سمجھتے تھے اس زمانے میں بھی خلیفہ ابوجعفر منصور مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

استاد سیس کے دل میں بھی اپنی اتنی بڑی جماعت دیکھ کر ملک گیری کی ہوس پیدا ہوئی اور اس نے خراسان کے اکثر علاقے اپنے قبضے میں کرلئے۔ خلیفہ منصور نے یہ حالت دیکھ کر اس کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر روانہ کیا جسے استاد نے شکست دے دی۔ خلیفہ منصور نے یکے بعد دیگرے کئی لشکر بھیجے مگر سب ناکام رہے۔

آخر کار منصور نے ایک نہایت تجربہ کار سپہ سالار خازم بن خزیمہ کو  چالیس ھزار  سپاہیوں کے ساتھ استاد کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا جس نے نہایت ہوشیار اور پامردی سے استاد سیس کے لشکر کو شکست فاش دی اور اس کے 70ہزار آدمی قتل کردیے اور 14ہزار کو قیدی بنالیا۔

استاد سیس اپنی بقیہ 50ہزار فوج کو لے کر پہاڑوں میں جا چھپا۔ خازم نے تعاقب کرکے پہاڑ کا محاصرہ کرلیا۔ آخر کار استاد نے محاصرے سے تنگ آکر اپنے آپ کو خازم کے سپرد کردیا تاھم تاریخ اس باب میں خاموش ہے کہ اس کی موت کس طرح واقع ہوئی ، غالب قیاس یہی ہے کہ ابو جعفر منصور نے دوسرے جھوٹے نبیوں کی طرح اس کو بھی قتل کردیا ہوگا۔


*علی بن محمد خارجی*

یہ شخص رے کے شہر کے مضافات میں پیدا ہوا۔  اس کا تعلق خواج کے فرقہ ازراقہ سے تھا۔ اس کا ذریعہ معاش خلیفہ جعفر عباس کے بعض حاشیہ نشینوں کی مدح سرائی کرکے انعامات کا حصول تھا۔ 249ھ میں علی بغداد سے بحرین چلاگیا اور اس نے وہاں اپنی نبوت کا دعویٰ کردیا۔ اس نے اپنا ایک آسمانی صحیفہ بھی بنارکھا تھا جس کی بعض سورتوں کے نام سبحان، کہف اور ص تھے۔ بحرین کے اکثر قبائل نے اس کی نبوت کو تسلیم کرلیا۔ بعض عمائدین اس کی فوج کے افسر مقرر ہوئے۔ بہبود زندگی کو امیر البحر مقرر کیا گیا۔ 5سال بحرین میں گزارنے کے بعد 254ھ میں چند مریدوں کے ساتھ بصرہ پہنچ گیا اور وہاں حاکم وقت محمد بن رجا کیخلاف سرگرمیاں شروع کردیں۔ رجا نے گرفتاری کی کوشش کی مگر یہ بھاگ کر بغداد آگیا۔ ایک سال بعد محمد بن رجا کیخلاف بغاوت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پہنچ گیا اور اعلان کردیا کہ جو زنگی غلام میری پناہ میں آجائیں گے  میں ان کو آزاد کردوں گا اور اس طرح اس نے غلاموں کی ایک کثیر جماعت اپنی ہم نوا بنالی، اس جماعت کو ایک لشکر میں تبدیل کرکے جھوٹے نبی نے آس پاس میں ڈاکے مارنے شروع کردیے۔ مسلسل 9سال تک علی بن محمد کے زنگی لشکر کو شکست دینے کے بعد بادشاہی لشکر آئے اور شکست کھاکر واپس چلے جاتے۔

اس دوران خطے میں فاقہ کشی اور جنگی تباہی وبربادی کا یہ عالم تھا کہ انسان انسان کو کھاجاتے تھے۔ آخر کار خلیفہ نے اپنے بھتیجے ابو العباس کو لشکر دے کر زنگیوں کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ ابو العباس نے کئی محاذوں پر علی بن محمد خارجی کے زنگیوں کو شکست سے دوچار کیا۔ جب جھوٹے نبی کو اس کی اطلاع ملی تو اس نے ساری فوجوں کو یکجا ہوکر حملے کا حکم دیا اسی اثناء میں عباس کے والد موفق کو بھی منصوبے کی اطلاع مل گئی اور وہ ایک بھاری لشکر کے ساتھ اپنے بیٹے سے آملے۔ اب دونوں باپ بیٹے نے مل کر زنگی لشکر کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کردیا اور ان کے مرکز منصورہ شہر پر قبضہ کرلیا۔ 15شعبان 268ھ کو موفق اپنے بیٹے ابوالعباس کے ساتھ زنگیوں کو کاٹتے ہوئے ان کے شہر پناہ کے قریب پہنچ گئے جہاں کذاب علی بن محمد خارجی موجود تھا، آخر کار 27محرم 270ھ کو طویل ترین جنگ کے بعد موفق نے شہر پر مکمل قبضہ کرکے بڑے بڑے سردار گرفتار کرلیے مگر علی کذاب پھر بھی ہاتھ نہیں آیا، وہ چند افسران کے ہمراہ شہر سفیانی کی طرف بھاگ گیا مگر اسلامی لشکر نے تعاقب کیا اور موفق نے کذاب علی بن محمد خارجی کا کام تمام کردیا اس طرح یہ ملعون جھوٹا نبی جہنم واصل ھوگیا

Share: