عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 14 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


*مختار بن ابو عبید ثقفی*

یہ بدبخت شخص ایک صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا تھا اور تابعین میں ھی اس کا بھی شمار  ھونا تھا حضرت ابو عبید بن مسعود جلیل القدر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے تھے۔ مختار انہی کا ناخلف بیٹا تھا گو یہ  خود بھی اہل علم میں سے تھا مگر اس کا ظاہر باطن سے متغائر اور اس کے افعال واعمال تقویٰ سے عاری تھے اس کا اندازہ اس تحریک سے ہوسکتا ہے جو اس نے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنے چچا کے سامنے پیش کی تھی۔

اس نے پہلے تو خارجی مذہب اختیار کیا  اور یہ اہل بیت نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سخت عناد رکھتا تھا اور انھیں نقصان پہنچانے کے درپے رھتا تھا لیکن حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد جب مسلمان کربلا کے قیامت خیز واقعات سے نہایت رنجیدہ اور غم وغصہ میں تھے جس کا اس ملعون نے  انتہائی چالاکی اور مکاری سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایک منصوبہ بندی کے تحت  بظاھر اہل بیت کی محبت کا دم بھرنا شروع کر دیا اور اعلان کیا کہ میرا مشن قاتلان حسینؓ سے انتقام لینا ہے۔لوگ کے جذبات پہلے ھی اس سلسلہ میں مشتعل تھے اس لئے اسے خوش آمدید کہا گیا جس کا اس نے نھرپور فائدہ اُٹھایا اور اس بات پر اس کی تحریک کو اتنا فروغ حاصل ہوا کہ آہستہ آہستہ اس نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کرلیا اور سوائے بصرہ اور حجاز مقدس ان تمام علاقوں  پر قبضہ کرلیا جو حضرت ابن زبیرؓ کے زیرنگیں تھے۔ کوفہ اور دوسرے شہروں پر اپنی عملداری کو مستحکم کرنے کے بعد مختار نے اپنے مشن کے مطابق  اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ان لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا جو حضرت حسینؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کے قتل وغارت گری میں شریک تھے چنانچہ اس نے عبیداللہ ابن زیاد، زید بن رقاد، عمربن سعد، عمرو بن حجاج زبیدی، شمر بن  ذی الجوش، عبدالرحمن بجلی، خولی بن یزید، مالک بن نیر بدلی، حصین بن عمیر، حکیم بن طفیل طائی، مرہ بن منقد، عثمان بن کالد بہنی اور عمرو ابن صبیح کو قتل کردیا۔


*دعویٰ نبوت کی بنیاد۔*

جس زمانے میں مختار نے قاتلین حسینؓ کو تہس نہس کرنے اور ان کی ہلاکت اور قتل کا بازار گرم کررکھا تھا اور ہر طرف اس بات پر خوشیاں منائی جارہی تھیں اور مختار کو بڑی عزت کی نظروں سے دیکھا جارہا تھا اسی دوران بڑی تعداد میں کچھ شرپسندوں نے مختار کی حاشیہ نشینی اور قربت حاصل کرکے چاپلوسی کے انبار باندھنے شروع کردیے۔بعض خوشامد پسندوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اتنا بڑا کار عظیم جو اعلیٰ حضرت مختار کی ذات قدسی صفات سے ظہور میں آیا ہے ۔ نبی یا وحی کے بغیر کسی بشر سے ممکن نہیں۔ اس بناء پر مختار کے دل ودماغ میں انانیت اور اپنی عظمت وبزرگی کے جراثیم پیدا ہونے لگے جو دن بدن بڑھتے گئے اور آخر کار اس نے بساط جرأت پر قدم رکھ کر نبوت کا دعویٰ کردیا اور اپنے تمام مکاتیب اور خطوط پر مختار نے اپنے نام کے آگے رسول اللہ بھی لکھنا شروع کردیا وہ یہ بھی کہتا تھا خدائے برتر کی ذات نے میرے جسم میں حلول کیا ھوا ہے۔

ایک مرتبہ کسی نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے کہا کہ مختار کہتا ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا سچ کہتا ہے ایسی وحی کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی اس آیت میں دی ھوئی ہے:

“وان الشیاطین لیوحون الٰی اولیاءھم‘‘

شیاطین اپنے مددگاروں پر وحی نازل کیا کرتے ہیں‘‘


*انجام کار*

ابراہیم بن اشتر جو مختار کا دست راست تھا اور جس کے طفیل مختار نے میدان جنگ میں کئی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کی تھیں وہ اس سے علیحدہ ھوگیا  ابراھیم  کی علیحدگی کے بعد مختار کا زوال شروع ہوگیا۔ابراہیم کی علیحدگی کے بارے میں علامہ عبدالقادر بغدادی اپنی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’جب ابراہیم کو اس بات کا علم ہوا کہ مختار نے علیٰ الاعلان نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ نہ صرف اس سے الگ ہوگیا بلکہ اپنی خود مختاری کا اعلان کرکے بلاد جزیرہ پر قبضہ بھی جمالیا۔‘‘ابراہیم بن اشتر کی رفاقت سے محروم ہونے کے بعد مختارکی قوت مدافعت بہت کم ہوگئی اس بات سے حاکم وقت مصعب بن زبیرؓ نے فائدہ اٹھایا اور کوفہ پر حملہ کردیا حرورا کے مقام پر شکست کھانے کے بعد مختار قصر امارت میں محصور ہوگیا اور مصعب ابن زبیرؓ نے چار مہینے تک قصر امارت کا محاصرہ کیے رکھا اور ضروریات زندگی کی رسد بالکل کاٹ دی۔ جب محاصرہ کی سختی ناقابل برداشت ہوگئی تو مختار نے اپنے لشکر کو باہر نکل کر لڑنے کی ترغیب دی۔ مگر صرف اٹھارہ آدمیوں کے سوا کوئی باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوا۔آخر کار مختار اپنے اٹھارہ آدمیوں کے ساتھ قصر امارت سے نکل کر مصعب کے لشکر پر حملہ آور ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں مع اپنے ( 18) ساتھیوں کے ہلاک ہوگیا  اس کی موت کے ساتھ ھی اس کی جھوٹی نبوت کا سلسلہ بھی ختم ھوگیا کیونکہ اس کے ماننے والے چند لوگوں کے سوا باقی سب اس کی زندگی ھی میں اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے اور اس کے ساتھ مل کر لڑنے سے بھی انکار کر دیا تھا یوں اس کی جھوٹی نبوت کا فتنہ زمین بوس ھو گیا


*حمدان بن اشعث قرمطی*

حمدان کوفہ کا باشندہ تھا، بیل پر سوار ہوا کرتا تھا اس لیے اس کو قرمیط کہتے تھے جس کا محرب قرمط ہے۔ شروع میں زہد وتقویٰ کی طرف مائل تھا مگر ایک باطنی شخص کے ہتھے چڑھ کر سعادت ایمان سے محروم ہوگیا اور دین اسلام کے مقابلے میں ایک نئے مذہب قرمطی یا قرامطہ کی بنیاد ڈالی۔ اس نے سب سے پہلے اپنے ماننے والوں پر (50 ) نمازیں فرض کیں مگر لوگوں کی شکایات پر کم کرکے دو رکعت قبل از فجر اور دو رکعت قبل از غروب کردیں اور اذان میں بھی تحریف کردی۔روزے صرف دو فرض کردیے ایک مہرجان کا اور دوسرا نو روز کا۔ شراب حلال کردی اور غسل جنابت کو برطرف کردیا گیا۔ تمام درندے اور پنجے والے جانور حلال کردیے اور قبلہ بجائے کعبہ کے بیت المقدس قرار دیا اور اس پر دلالت دی کہ یہ سب مسیح ابن مریم نے میرے پاس آکر بتایا ہے۔ 


*حمدان کی گرفتاری ورہائی*

جب ہضیم حاکم کوفہ کو معلوم ہوا کہ حمدان نے دین اسلام کے مقابلے میں ایک نیا دین جاری کیا ہے اور شریعت محمدیہ میں ترمیم وتنسیخ کررہا ہے تو اس نے اس کو گرفتار کرلیا اور اس خیال سے کہ کوئی حیلہ کرکے یہ بھاگ نہ جائے قید خانے کے بجائے اپنے ہی پاس قصر امارت کی ایک کوٹھڑی میں بند کرکے مقفل کردیا اور کنجی قفل کی اپنے تکیے کے نیچے رکھ دی اور قسم کھائی کہ اس کو قتل کیے بغیر نہیں چھوڑوں گا۔ہضیم کے گھر کی ایک کنیز بڑی رحمدل تھی جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ شخص قتل کیا جانے والا ہے تو اس کا دل بھر آیا اور رقت طاری ہوگئی جب ہضیم سوگیا تو اس کنیز نے کنجی اس کے تکیے کے نیچے سے نکالی اور ہمدان کو آزاد کرکے پھر اسی جگہ رکھ دی صبح جب ہضیم نے اس غرض سے دروازہ کھولا کہ حمدان کو موت کی نیند سلادیا جائے تو یہ دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا کہ حمدان غائب ہے۔جب یہ خبر کوفہ میں مشہور ہوئی تو اس سے خوش عقیدہ رکھنے والے  لوگ فتنہ میں پڑگئے اور یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ خدائے قدوس نے حمدان کو آسمانوں پر اٹھالیا ھے ۔ اس کے بعد لوگوں میں حمدان آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ حاکم کوفہ کے مقفل قید خانے سے کس طرح نکلے۔ حمدان بڑے ناز وغرور سے کہنے لگا کہ کوئی میری ایذا رسانی میں کامیاب نہیں ہوسکتا یہ سن کر لوگوں کی عقیدت اور بڑھ گئی۔


*حمدان کے انجام پر تاریخ کی خاموشی*

حمدان کو اب ہر وقت یہ خطرہ رہتا تھا کہ دوبارہ نہ گرفتار کرلیا جائے اس لیے ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے علی بن محمد خارجی کے پاس جاکر کہا تھا کہ میں ایک مذہب کا بانی اور نہایت صائب الرائے ہوں ایک لاکھ سپاہی اپنے لشکر میں رکھتا ہوں آؤ ہم اور تم مناظرہ کرکے کسی ایک مذہب پر متفق ہوجائیں تاکہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے مددگار بن سکیں۔ علی خارجی نے اس رائے کو پسند کیا اور بہت دیر تک مذہبی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی لیکن آپس میں متفق نہ ہوسکے۔ اس کے بعد حمدان واپس آکر گوشہ نشین ہوگیا آگے کا حال کچھ معلوم نہیں ہوسکا تاہم اس کے چیلوں نے عالم اسلام کو بہت نقصان پہنچایا، ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو عین حج کے زمانے میں خانہ کعبہ کے اندر قتل کیا۔ خانہ کعبہ سے حجرِ اسود اکھاڑ کر لے گئے اور اس واقعہ کے بعد دس برس تک بھی لوگوں میں خوف و حراس طاری رھا اور حج  کی ادائیگی میں بھی شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اس کا اپنا انجام کیا ھوا اس بارے کوئی روایت دستیاب  نہیں یقینا ذلیل ورسوا ھو کر ھی مرا ھو گا

Share: