عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 49 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*  فتنۂ قادیانیت -تحریک ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 1974ء کا آغاز  کیسے ہوا*؟


قیام پاکستان کے بعد سے ھی مرزائی پاکستان میں حکومت پر قبضہ کرنے اور پاکستان میں مرزائیت کا نظام لانے کی سرتوڑ کوشش کر رھے تھے مختلف حکومتوں کے تعاون سے انھوں نے ربوہ کو  پہلے ھی اپنی آزاد سٹیٹ بنا رکھا تھا یہ لوگ اپنا لٹریچر پبلک مقامات ، بسوں اور ٹرینوں میں کھلے عام تقسیم کر رھے تھے 

22 مئی 1974ء کے ایک روشن دن کو نشتر میڈیکل کالج  ملتان کے تقریبا 100 طلباء شمالی علاقہ جات کی سیر کے لئے چناب ایکسپریس کے ذریعے ملتان سے پشاور جا رہے تھے، طلباء نے اپنے لیے ٹرین کی ایک الگ بوگی بک کروا رکھی تھی، ھنستے کھیلتے چہکتے مسکراتے طلباء زندگی کا بھرپور لطف اٹھاتے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے کہ گاڑی چناب نگر (ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر حسب معمول رکی تو چند قادیانی نوجوان ان کی بوگی میں داخل ہوئے ان کے ہاتھوں میں مرزائی لٹریچر کے اوراق تھے جو کہ وہ حسبِ معمول مسافروں میں تقسیم کرتے پھر رہے تھے، مسلمان طلباء نے جب سرعام اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ڈاکہ پڑتے دیکھا تو ان کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور پھر کیا تھا چناب نگر (ربوہ) کا ریلوے اسٹیشن تاج و تخت ختم نبوت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) زندہ باد ، مرزائیت مردہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا، طلباء کے ان نعروں نے " قصر مرزائیت "میں ایک طوفان برپا کر دیا، قادیانی خلیفہ مرزا ناصر جو کہ اس وقت ربوہ کا مطلق العنان بادشاہ بن چکا تھا  اس لعنتی نے اپنی پولیس بنا رکھی تھی اور اپنی نام نہاد سٹیٹ ربوہ میں  باقاعدہ وزارتیں تشکیل دے رکھی تھیں  سو یہ بات اس کے لئے ناقابل برداشت تھی  کہ اس کے علاقے کی حدود میں مرزائیت کے خلاف نعرے لگ جائیں۔

لہذا مرزائی ذہن اکٹھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ان طلباء سے بدلا لینے کے لیے غور و فکر  کیا گیا اور ان طلباء کو سبق سکھانے کے لئے ایک پروگرام طے کر لیا گیا 

29 مئی 1974ء کی شام کو طلباء اپنے ٹرپ سے واپس آ رہے تھے کہ ربوہ سے پہلے نشتر آباد ریلوے اسٹیشن کے مرزائی اسٹیشن ماسٹر نے ان طلباء کی ٹرین پر نشان لگا کر ربوہ میں اطلاع کردی ۔ باوجود اس کے کہ اس ٹرین کا ربوہ میں سٹاپ نہیں تھا لیکن مرزا ناصر کے حکم پر اس ٹرین کو  یہاں سٹاپ کرنے  کے لئے کہا گیا جوں ہی ٹرین ربوہ کے اسٹیشن میں داخل ہوئی ۔ وہاں ایک ھنگامہ بپا تھا، پروگرام کے مطابق  پہلے سے ھی پانچ ھزار سے زیادہ قادیانی غنڈے پستولوں بندوقوں خنجروں اور چھریوں سے وھاں مسلح کھڑے تھے۔ جونہی ٹرین نے  ربوہ ریلوے اسٹیشن پر اسٹاپ کیا تو قادیانی خونخوار درندے زہریلے سانپ کی طرح ٹرین پر لپک پڑے طلباء نے اپنی حفاظت کے لئے دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں لیکن قادیانی غنڈے دروازے توڑ کر ان طلباء کو باہر گھسیٹتے لے آئے۔ طلباء پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، ان کو خون میں لت پت کر دیا گیا، طلباء کا قیمتی مال و متاع بھی چرا لیا گیا، پھٹے کپڑوں اور خون میں لتھڑے جسم کو لے کر جب ٹرین ربوہ اسٹیشن سے دوبارہ چلی تو قادیانی مرزائیت کے نعرے لگا رہے تھے اس سے قبل کہ ٹرین واپس ملتان پہنچتی قادیانیوں کی اس وحشیانہ کاروائی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔


( 29 مئی 1974 کو نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ کے مقدس خون نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی دی تھی۔ یہ گواہی آج آئین پاکستان کا حصہ ہے

یہ  واقعہ 1974 کی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغاز تھا۔ 29 مئی کو عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے طلباء کا مقدس خون بہا اور 7 ستمبر 1974 کو عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاکستان کا قانون بن گیا)۔


فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر ان طلباء کے استقبال کے لئے ھزاروں مسلمان موجود تھے۔ مجلس احرار کے رھنماء مجاہدِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولانا تاج محمود طلباء کے لیے چشم براہ تھے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی وہاں موجود تھے طلباء کی اجڑی حالت دیکھ کر لوگ رونے لگے، پورا ریلوے اسٹیشن ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔ 


مولانا تاج محمود اسٹیشن کی دیوار پر کھڑے ہو گئے اور طلباء سے مخاطب ہو کر کہا:


"اے میرے نونہالان ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !! میرے بیٹو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں آپ کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا آپ حضرات اطمینان رکھیں انشاء اللہ آپ کے خون کے قطرے قادیانیت کی موت کے پروانے لکھیں گے" ۔


طلباء فیصل آباد سے روانہ ہو گئے جہاں بھی ٹرین رکتی ھزاروں فدائیاں ختم نبوت صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم  ان طلباء کے استقبال کے لیے موجود ہوتے ملتان میں بھی مجلس علماء کے اکابر موجود تھے، اخبارات کے نمائندوں نے جب مولانا  تاج محمود سے آئندہ کا لائحہ عمل پوچھا تو مولانا نے کہا شام کو پانچ بجے الخیام ہوٹل میں پریس کانفرنس میں اعلان کریں گے، شام کو مولانا  تاج محمود نے مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس وقت کے آمیر مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے حکم کے تحت تحریک چلانے کا اعلان کر دیا جو  1974ء کی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے معروف ھے

Share: