عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 50 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*  فتنۂ قادیانیت  اور تحریک ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) 1974 ء *


1970ء کے الیکشن میں چند سیٹوں پر مرزائی منتخب ہوگئے۔ اقتدار کے نشہ اور ایک بڑی سیاسی جماعت سے سیاسی وابستگی نے انہیں دیوانہ کردیا۔ وہ حالات کو اپنے لیے سازگار پا کر انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کی سکیمیں بنانے لگے۔ قادیانی جرنیلوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ اس نشہ میں دھت ہو کر انہوں نے 29مئی 1974ء کو ربوہ ریلوے سٹیشن پر چناب ایکسپریس کے ذریعہ سفر کرنے والے ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں تحریک چلی۔ 

تحریک کا اعلان ہوتے ہیں لوگ باہر نکل پڑے، پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے، طلباء اساتذہ بزرگ سب کے سب اس تحریک میں شامل تھے، قادیانیوں کا پورے ملک میں سوشل بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا، کوئی مسلمان قادیانی دکاندار سے کچھ نہ خریدتا نہ کسی قادیانی کو کچھ بیچتا تھا، پورے ملک میں قادیانیوں پر زمین تنگ ہو گئی، مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں شروع ہو گئیں، گرفتاریاں شروع کر دی گئیں، مساجد میں آنسو گیس کے شیل مارے گئے، فدائیان ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیڑ بکریوں کی طرح دھکیل دھکیل کر کنٹینروں اور ٹرکوں میں بھر کر جیل پہنچایا گیا، احتجاج میں دن بدن شدت آتی جا رہی تھی، 


مولاناسید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ مجلس تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاکستان کے امیر تھے۔ ان کی دعوت پر امت کے تمام طبقات جمع ہوئے۔ آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پاکستان تشکیل پائی۔ جس کے سربراہ بھی حضرت   مولانا عبداللہ بنوری رحمۃاللہ علیہ قرار پائے ان کی زیر قیادت یہ تحریک چلائی گئی  شروع میں تو حکومت وقت نے اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی اور ٹال مٹول سے کام لینے کی کوشش کی تحریک کو دبانے کی بھی کوشش کی گئی لیکن تحریک دن بدن پھیلتی چلی گئی تو حکومت نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوش نصیبی کہ اس وقت قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن جماعتیں متحد تھیں چنانچہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پاکستان میں شریک ہوگئیں ۔

رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ مذہبی و سیاسی جماعتوں نے متحد ہو کر ایک ہی نعرہ لگایا کہ مرزائیت کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودرحمۃ اللہ علیہ، مولاناغلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالحق، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالمطفی ازہری، مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقا نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وکالت کی۔ متفقہ طور پر اپوزیشن کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزائیوں کے خلاف قرار داد پیش کی اور برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی یعنی حکومت کی طرف سے دوسری قرار داد عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کی جو ان دنوں وزیر قانون تھے، قومی اسمبلی میں مرزائیت پربحث شروع ہوگئی۔ پورے ملک میں مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، نوابزادہ نصراللہ خان رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ، مفتی زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ فضل رسول حیدر، مولانا صاحبزادہ افتخار الحسن، سید مظفر علی شا ہ رحمۃ اللہ علیہ، مولانا علی غضنفر کراروی، مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ، پیر شریف، حضرت مولانا محمد شاہ امروٹی رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ چاروں صوبوں کے تمام مکاتب فکر نے تحریک کے الاؤ کو ایندھن مہیا کیا۔ اخبارات و رسائل نے تحریک کی آواز کوملک گیر بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا دباؤ بڑھتا گیا۔ ادھر قومی اسمبلی میں قادیانی و لاہوری گروپوں کے سربراہوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ ان کا جواب اور امت مسلمہ کا موقف مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا سید انور حسین نفیس رقم نے مرتب کیا۔ اسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے چودھری ظہور الٰہی کی تجویز اور دیگر تمام حضرات کی تائید پر قرعہ فال مولانا مفتی محمود رحمۃا للہ علیہ کے نام نکلا۔ جس وقت انہوں نے یہ محضر نامہ پڑھا، قادیانیت کی حقیقت کھل کراسمبلی کے ارکان کے سامنے آگئی۔ مرزائیت پر اوس پڑگئی۔ نوے دن کی شب و روز مسلسل محنت و کاوش کے بعد جناب ذوالفقارعلی بھٹو کے عہد اقتدار میں متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے عبدالحفیظ پیرزادہ کی پیش کردہ قرار داد کومنظور کیا اور مرزائی آئینی طور غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ 

الحمد اللہ رب العالمین حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ کما یحب ربنا ویرضی

اسلامی جمہوریہ پاکستان بلکہ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ میں 7؍ستمبر کا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، یہ وہ تاریخی دن ہے جس دن مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اوراسے آئین کا حصہ بنا کر ملتِ اسلامیہ کے جسد سے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔قوموں کی تاریخ میں ایسے فیصلے کبھی کبھار ہی وجود میں آتے ہیں جس کے اثرات و نتائج صرف اس قوم اور اس ملک تک ہی محدود نہیں ہوتے،بلکہ پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس قومی اور آئینی فیصلے سے پاکستان اور مسلمانوں کا وقار بلند ہوا، دنیا پر قادیانیوں کا کفر واضح ہوا اور جو پوری دنیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ پاکستان میں ان کی حکومت ہے اور ان کا دار الخلافہ ربوہ ہے، ان کا یہ جھوٹ دنیا پرآشکارا ہوا۔ بے شمار وہ لوگ جو ان کے دام ہم رنگ زمین کا شکار ہو کر ان کے جال میں پھنس گئے تھے، ان پر ان کا کفر کھل گیا اور وہ قادیانیت سے تائب ہو کر دوبارہ دامن اسلام سے وابستہ ہوئے۔ بہت سے ممالک ان کی حقیقت سے آگاہ ہوئے ، انہوں نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا۔ ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی ، اس فیصلے سے اغیار کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور مسلمانوں میں ابھی وہ غیرت و حمیت موجود ہے کہ وہ ناموسِ رسالت کی حفاظت کے لیے سردھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں اور ان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ دین کی سربلندی کے لیے جرأت مندانہ اقدام کر سکتے ہیں۔

24؍ مئی1974ءکو سانحہ ربوہ پیش آیا، کسے خبر تھی کہ یہ سانحہ اور واقعہ ایک عظیم الشان فیصلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ دشمنوں نے تو اپنی طرف سے شرانگیزی کرنے اور فتنہ و فساد پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں سے خیر نکالی۔ اس واقعے نے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو ہوا دی، ان کے دلوں کو جھنجوڑ ڈالا، وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے، پوری قوم حضور اکرم ﷺ کی عزت و ناموس اور آپﷺ کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے تحفظ کے لیے ایک ہوگئی اور پوری قوم نے متحد ہو کر خواہ کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق ہو،ا یسی عظیم الشان تحریک چلائی کہ ملت اسلامیہ شاید ہی اس کی کوئی نظیر پیش کرسکے ۔

Share: