* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* فتنۂ قادیانیت اور تحریک ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) 1974 ء *
گذشتہ سے پیوستہ
1974 ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس انداز میں چلی اس کی مثال نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالم اسلام میں بھی شاید ملنا مشکل ھے
29؍ مئی تا 7؍ ستمبر تقریباً سو دن بنتے ہیں، برصغیر کی تاریخ میں یہ سو دن سو سال کے برابر ہیں۔
اس تحریک کے نتیجے میں قوم کا ذہن ایسا بن چکا تھاکہ اس کے خلاف قوم ایک لفظ سننے کے لیے تیار نہیں تھی۔اس کا اندازہ اس ایک اقتباس سے لگائیے،
اس وقت کے معروف صحافی مصطفیٰ صادق جو روزنامہ وفاق کے ایڈیٹر تھے، ان کے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے اچھے مراسم تھے ، تحریک کی کامیابی کے بعد انہوں نے ایک تفصیلی مضمون میں تحریک کے مراحل اور اپنے تاثرات پر مبنی ایک مضمون لکھا ۔جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:’’ (میں نے بھٹو صاحب کے سامنے) چند اہم واقعات کا ذکر کیا، ایک کا تعلق قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے فیصل آباد سے ایک رکن مسٹر رندھاوا کے بیان سے تھا، جو اخبارات میں شائع ہوچکاتھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اخبارات میں مجھ سے منسوب ایک بیان شائع کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ میں نے قادیانیوں کے بائیکاٹ کی مخالفت کی ہے ، میں نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا۔اس کے ساتھ ہی مسٹر رندھاوا نے اپنے ہاتھ میں ایک تار پکڑ کر فضا میں لہرایا اور کہا کہ مجھ سے منسوب اس غلط بیان کے شائع ہونے پر میرے والد گرامی نے اس تار کے ذریعے میری سرزنش کی ہے کہ یہ تم نے کیا بیا ن دے دیا ۔ اس طرح مسٹر رندھاوا نے اسمبلی کے بھرے اجلاس میں اس بیان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا،
دوسرا واقعہ صاحبزادہ فیض الحسن کی تقریر سے متعلق تھا، جس میں انہوں نے قادیانیوں کے بائیکاٹ کے بارے میں کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا، جو حاضرین جلسہ کو سخت ناگوار گزرے، جس کے سبب صاحبزادہ صاحب کو تقریر ختم کرنا پڑی اوربڑی مشکل سے صفائی پیش کر کے حاضرین جلسہ کے گھیراؤ سے نجات حاصل کی۔
تیسرا واقعہ لاہور کے نیشنل سینٹر میں مولانا محمد بخش مسلم کی تقریر سے متعلق تھا۔ اس تقریر کے بارے میں بھی خود مولانا مسلم صاحب ہی نے اگلے دن اخبارات کے ذریعے اس امر کی تردید کی کہ انہوں نے بائیکاٹ کے خلاف موقف اختیار کیا تھا،
چوتھا واقعہ بھی اسی نوعیت کا حامل تھا جو راولپنڈی کے ایک عالم دین کے ساتھ پیش آیا‘‘۔(تحریک ختم نبوت1974ء جلد سوم، ص: 880)
اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ حضور اکرم ﷺ سے محبت ہر مؤمن کا سرمایہ ایمان ہے،بلکہ آپﷺ سے محبت ایمان کا جزو ہے ، کوئی شخص اس وقت تک مؤمن ہی نہیں ہوسکتا،جب تک کہ اس کے دل میں آپﷺ کی محبت نہ ہو، بلکہ تمام جہاں سے حتیٰ کہ اپنی اولاد، اپنے ماں باپ اور اپنی جان سے بھی آپ ﷺزیادہ عزیز نہ ہوں، اس وقت تک ایمان مکمل ہی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں آپ ﷺ کی محبت کا دریا موجزن ہوتا ہے، وہ ہر بات برداشت کرسکتا ہے، لیکن رسالت مآب ﷺ کی شان اقدس میں ادنیٰ سی بھی گستاخی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہمہ وقت وہ آپ ﷺکی عزت وناموس پر مر مٹنے ،اپنی اولاد، اپنا مال، اپنی جان سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار و آمادہ رہتا ہے ۔ جب بھی کسی دریدہ دہن نے آپﷺ کی شان میں گستاخی کی ناپاک جسارت کی، مسلمان دیوانہ وار میدانِ عمل میں آئے اور اس کا قلع قمع کر کے چھوڑا۔
حضور اکرم ﷺ جو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں،آپﷺ کی ذات اقدس پر انبیاءؑ کا سلسلہ ختم ہوگیا، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپﷺ کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کا نبوت کا دعویٰ کرنا، صرف آپ ﷺ کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار نہیں، بلکہ آپﷺ کی توہین ہے اور صرف آپ ﷺ کی ہی نہیں، بلکہ تمام انبیاءؑ کی توہین ہے، ختمیت کی دیوار میں سوراخ کرنا اورنقب لگانا دین کے تمام نظام کو درہم برہم کرنا اور اللہ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔
اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے ، اس کلمے کے دو جزو ہیں: اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ، محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اعتراف و اقرار۔ اس اعتراف کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مدعی الوہیت کا وجود ناقابل برداشت ہے ، اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی مدعی نبوت کا بساطِ نبوت پر قدم رکھنے کی جرأت کرنا بھی لائق تحمل نہیں۔ یہی ’’عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کہلاتا ہے جس پر صدرِ اوّل سے آج تک امت مسلمہ قائم رہی ہے۔اس مسئلے میں امت مسلمہ کبھی دو رائے کا شکار نہیں ہوئی ۔ جو لوگ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ایمان و اقرار سے سرشار ہو کر نورِ ایمان سے منور ہوچکے ہیں اور اسلامی برادری کا حصہ ہونے پر فخر کرتے ہیں، ان پر یہ ذمہ دار عائد کی گئی ہے کہ وہ مشرکوں کی سرکوبی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے باغیوں کے خلاف بھی سینہ سپر ہوجائیں اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کے جھوٹے طلسم کو پاش پاش کر کے رکھ دیں۔ اسی ذمہ داری کا نام ’’تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ امتِ مسلمہ نے اپنے اس فریضہ سے کبھی غفلت نہیں برتی۔
مرزا غلام قادیانی لعنتی اور اس کے ماننے والوں نے نئی نبوت کا ڈھونگ رچا کر مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرکز بدلنے کی کوشش کی ، حضور اکرمﷺ سے محبت کا جو مضبوط رشتہ ہے ،بلکہ ان کے ایمان کا حصہ ہے، اس رشتے کو ختم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کی ،جسے ایک ادنیٰ مسلمان بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ۔
عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دین کی اساس اور بنیاد ہے ، دین اسلام کی عمارت اسی عقیدے پر استوار ہے ، پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا ،اس کی بقا اور اس کا تحفظ بھی اسی عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ سے وابستہ ہے ۔ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کسی عمارت کی بنیاد کھودکر انہیں اپنی جگہ سے ہٹادینا اور پھر یہ توقع رکھنا کہ عمارت جوں کی توں قائم رہے گی، ایک مجنونانہ حرکت ہے ، ملت اسلامیہ کا شیرازہ ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ کی ذات عالی سے قائم ہے اور یہی وجود پاکستان کا سنگ بنیاد ہے ، جو شخص اس سے انحراف کرتا یا اسے منہدم کرتا ہے، وہ اسلام، ملت اسلامیہ اور پاکستان تینوں سے غداری کا مرتکب ہے ، ایک ایسے شخص سے جو ملک وملت کی جڑوں پر تیشہ چلا رہا ہو ،کسی مفید تعمیری خدمت کی توقع رکھنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے ، جو شخص سرورِ عالم ﷺ کا وفادار نہ ہو ،وہ ملک و ملت کا وفادار کیونکر ہوسکتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملت اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر کبھی برداشت نہیں کرسکا کہ آنحضرت ﷺ کے بجائے کسی اور شخص کو محمد رسول اللہ ﷺ اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے اور اس کے لیے وہ تمام حقوق و مناصب اور آداب و القاب تجویز کیے جائیں جو مسلمانوں کے مرکز عقیدت کے ساتھ مختص ہیں،بایں ہمہ یہ اصرار بھی کیا جائے کہ وہ مسلمان ہے ، ملک و ملت کا وفادار ہے اور مسلمانوں کو اس پر اعتماد کرنا چاہیے‘‘۔(بصائر و عبر ، جلد دوم،ص:۱۷۹-۱۷۸)
جو لوگ قادیانیوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، انہیں ان کے عقائد و نظریات کا نہ علم ہے، نہ اندازہ۔ یہاں محدث العصر حضرت علامہ بنوری رحمہ اللہ کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ھے جس سے مرزائیت کا تھوڑا بہت اندازہ ہوجائے گا:’’ مرزا قادیانی نے مسیحائی کے مراتب طے کرنے کے لیے بڑی محتاط قسم کی تدریجی رفتار اختیار کی، پہلے پہل گوشۂ گمنامی سے نکل کر وہ ایک مناظر اسلام کی حیثیت سے قوم کے سامنے آیا اور تمام ادیانِ باطلہ کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدیں لکھنے کا اشتہار دیا اور قوم سے چندے کی اپیل کی۔جب وکیل اسلام کی حیثیت سے اس کی روشناسی ہوئی تو اپنے دعوؤں میں علیٰ الترتیب محدث، ملہم من اللہ، امام الزماں، مجدد، مہدی موعود، مثیل مسیح، مسیح موعود، ظلی اور بروزی نبی کے درمیانی مدارج طے کرتا ہوئا تشریعی نبوت کی بام بلند پر پہنچ گیا اور ببانگ دہل وحی، نبوت اور معجزات کا اعلان کردیا اور ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کا مصداق خود بن بیٹھا، قرآن کریم کی جو آیات حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں تھیں ،انہیں اپنی ذات پر منطبق کیا، اپنے دور کو آنحضرت ﷺ کے دور سے افضل بتایا، اولو العزم انبیائے کرامؑ کی توہین کی، انبیاء علیہم السلام سے افضلیت کا دعویٰ کیا، اپنی وحی کو قرآن جیسی قطعی وحی بتایا اور جو لوگ ان کی اس خانہ ساز نبوت پر ایمان نہیں لائے ،انہیں کافر و جہنمی قرار دیا، نئی شریعت کے ذریعے محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے جن اجزء کو چاہا، منسوخ کرڈالا، برطانوی حکومت کو ظل اللہ فی الارض کا خطاب دیا، اس کی اطاعت کو فرض اور اسلام کے دو حصوں میں سے ایک حصہ قرار دیا، کافروں سے جہاد کا حکم منسوخ ہوا اور انگریزوں کے مقابلے میں جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر ہوا،دین کے قطعی عقائد کا مذاق اڑایا،احادیث متواترہ کی تکذیب کی، قرآن کریم کی بے شمار آیتوں میں کھلی تحریف ہوئی،مسلمانوں سے شادی بیاہ کرنا، ان کے جنازے میں شریک ہونا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا ممنوع اور حرام قرار پایا، غرض ایسے صریح سے صریح ترین دعوے کیے کہ ان میں سے ہر بات مستقل کفر کی بات تھی اور ان میں کسی طرح بھی تاویل کی گنجائش نہیں تھی۔اس لیے علمائے امت نے متفقہ طور پر مرزا غلام قادیانی اور ان کے پیروکاروں کے کافر و مرتد ہونے کا فتویٰ دیا اور ان کی کتابوں سے ایک سو کے قریب صریح کفریات جمع کیے ، اگر پوری طرح استقصاء کر کے تمام کفریات و ہذیانات کو جمع کیا جائے تو ایک ہزار کفریات سے کم نہ ہوں گے، خدا کا غضب ہے کہ ظل و بروز کے پردے میں اسلام کی تمام اصطلاحات کو مسخ کیا گیا، مرزا قادیانی کی بیوی کے لیے ’’ام المومنین‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی، ان کے ہاتھ پر کفر و ارتداد قبول کرنے والوں کو صحابی کہا گیا اور انہیں محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے افضل بتایا گیا، قادیان کو حرم اور مرزا کی قبر کو گنبد بیضاء قرار دے کر مکہ اور مدینہ کے بجائے یہاں کے حج و زیارت کی دعوت دی گئی اور اسے مکہ و مدینہ کے حج و زیارت سے افضل بتایا گیا‘‘۔
(بصائر و عبر، جلد دوم، ص: 179-170)