عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 52 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*  فتنۂ قادیانیت  اور تحریک ختم نبوت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) 1974 ء *


گذشتہ سے پیوستہ


یہ ایک کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ جب  بھی کبھی قوم کے سامنے، نوجوانوں کے سامنے، پڑھے لکھے طبقے کے سامنے  قادیانیوں کے عقائد ، افکار و نظریات حوالہ جات کے ساتھ واضح کیے گئے تو انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قادیانیوں کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں،بلکہ یہ اسلام کے متوازی اور مقابل ایک مذہب ہے ، لیکن اپنے مفادات کے لیے یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور مسلمانوں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کا بخوبی اندازہ اس سے بھی ہوجاتا ہے کہ جب قوم کے مطالبے پر اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے یہ مسئلہ قومی اسمبلی کے حوالے کیا کہ وہ اس پر غور و فکر کرکے تجویز کرے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے ۔ قومی اسمبلی جو فیصلہ کرے گی پوری قوم کے لیے وہ قابلِ قبول ہوگا۔ بھٹو صاحب عوامی لیڈر تھے،اس لیے وہ چاہتے تھے کہ فیصلہ اس انداز میں ہو کہ کسی کے لیے اعتراض کی گنجائش نہ ہو اور بیرونی دنیا کے لیے بھی وہ قابل قبول ہو۔

اس موقع پر قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر نے از خود درخواست پیش کی کہ ہمیں بھی اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس کی یہ درخواست منظور کر لی گئی،اس نے 182صفحات پر مشتمل اپنا محضرنامہ پیش کیا ، اسے چھاپ کر تمام ممبران قومی اسمبلی میں تقسیم کیا، قادیانی اور لاہوری گروپ نے صرف تحریری طور پر ہی اپنا موقف جمع نہیں کرایا،بلکہ تمام ممبران کے سامنے زبانی بھی اپنا موقف پیش کرنے کی درخواست کی ، جسے مفتی محمود رحمہ اللہ سے مشاورت کے بعد قبول کر لیا گیا،جب ان کی درخواست قبول ہوگئی تو انہیں فکر  لاحق ہوئی اور انہوں نے بھٹو صاحب سے شکوہ کیا کہ وہاں مولوی ہماری بے عزتی کریں گے ، ہم سے الٹے سیدھے سوال کریں گے، اس پر  جے  اے رحیم نے کہا کہ سوالات  اٹارنی جنرل کے ذریعے کیے جائیں ، اس پرفیصلہ ہوگیا لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ قادیانی اور لاہوری گروپ کے سربراہان اور اٹارنی جنرل تو قومی اسمبلی کا حصہ نہیں ھیں  تو وہ کس حیثیت سے قومی اسمبلی سے خطاب کریں گے؟اس کے حل کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دیاگیا ۔ اس طرح اٹارنی جنرل کے ذریعہ مرزا ناصر اور لاہوریوں پرجرح ہوئی۔ 5؍اگست1974ء سے اس خصوصی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا۔ 5؍ اگست سے 11؍ اگست تک 6دن اور پھر 20؍ اگست سے 24؍ اگست 5دن ، کل گیارہ دن مرزا ناصر پر جرح ہوئی ۔ 27,28 اگست دو دن لاہوری گروپ کے صدر الدین عبدالمنان اور مسعود بیگ پر جرح ہوئی ۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے اپنے بیان میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:’’ مرزا ناصر قادیانی  کی سربراہی میں قادیانی  جماعت ربوہ کا بیان ۵؍ اگست تا ۱۰؍اگست کو ہوا۔ اس کے بعد دس یوم کا وقفہ رہا۔ مرزا ناصر  کا مزید بیان ۲۰ ؍ اگست تا ۲۴؍اگست ہوا۔ کل گیارہ روز تک بیان ہو تا رہا۔ اس کے بعد قادیانی جماعت کے دوسرے گروہ کا بیان ہوا، جس کا سربراہ صدر الدین تھا۔چونکہ صدر الدین کافی بوڑھا تھا اور اچھی طرح بات سننے کی قوت نہیں رکھتا تھا ۔ اس لیے اس کا بیان میاں عبدالمنان عمر کے وسیلے سے ہوا۔ اس کا بیان دو دن میں ہوا۔ یہ اس وجہ سے نہیں ہوا کہ ایوان کسی قسم کا امتیاز برت رہا تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے حقائق، دستاویزات اور مرزا غلام قادیانی  کی تحریریں پہلے گروپ کے بیانات میں ریکارڈ پر آچکے تھے اور جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے ، مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔(مصدقہ رپورٹ، جلد۵،ص:2717)

مرزا ناصر کو اپنی چال بازیوں اور فریب کاری پر بڑا گھمنڈ تھا، وہ بڑا پُر امید تھا کہ ہم تمام ممبران کو چکرا دینے اور ان کی ذہن سازی میں کامیاب ہوجائیں گے، وہ اسمبلی میں بڑے اکڑ کر فاتحانہ انداز میں داخل ہوا ، ان کے ظاہری حلیہ ( سر پر عمامہ، چہرے پر داڑھی، بدن پر اچکن)کو دیکھ کر ممبران اسمبلی نے مفتی محمود اور ان کے رفقاء کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھا کہ آپ ان نیک لوگوں کو کافر بنانے چلے ہیں، تو مفتی محمود رحمہ اللہ نے مسکرا کر کہا کہ صبر کرو ، بہت جلد ان کی حقیقت کا پتا چل جائے گا۔ یہی ہوا جب ان پر جرح شروع ہوئی اور سوال و جواب ہوئے تو ہر ایک کی آنکھیں کھل گئیں ۔ اس پوری بحث کے دوران ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ممبر نے ان کے حق میں کوئی ایک لفظ کہا ہو، ان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہو ، کسی بات پر ناراض ہو کر احتجاج کیا ہو ، بائیکاٹ تو دور کی بات صرف واک آوٹ ہی کیا ہو، بلکہ بحث کے آخر میں ممبران اسمبلی نے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا، وہ خیالات بتا رہے ہیں کہ ان کی رائے قادیانیوں اور لاہوریوں کے حق میں کیا تھی۔

قومی اسمبلی کی یہ مصدقہ رپورٹ شائع ہوچکی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ گواہوں پر جرح کے دوران کسی ممبر کو اظہار خیال کی اجازت نہیں دی گئی ، انہیں آخر میں موقع دیا گیا ، قادیانیوں اور لاہوریوں نے جب اپنا موقف بیان کردیا تو مفتی محمودؒ نے پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے اپنا موقف پیش کیا جو دو دن میں مکمل ہوا۔ قادیانیوں کے محضر نامے کا شق وار جواب مولانا غلام غوث ہزاروی نے دیا جسے مولانا عبدالحکیم نے پڑھ کر سنایا۔ دو دن اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنا بیان مکمل کیا۔

یہ رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے،اس میں آپ کو نظر آئے گا کہ کس طرح مرزا ناصر سے سوالات ہوئے اور مرزا ناصر نے کسی طرح ٹال مٹول سے کام لیا، بات کو گھمایا پھرایا، مگر جان نہ چھڑا سکا، کئی مرتبہ لاجواب ہوا ۔ بہت سی مرتبہ سوال پر حیران و ششدر رہ گیا ، کوئی جواب نہ بن سکا۔ بہت سی جگہ مجبوراً اسے تسلیم کرنا پڑا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ پوری رپورٹ پانچ جلدوں میں 2952 صفحات پر مشتمل ہے ۔ویسے تو پوری رپورٹ ہی پڑھنے کے قابل ہے ،مگر اس میں خاص طور پر مفتی محمود رحمہ اللہ اور اٹارنی جنرل کا بیان پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ پوری جرح، بیانات اور غور و خوض کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے، چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیا گیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی ، اس کے بعد وزیر اعظم نے تقریر کی۔

وزیر اعظم کی تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سوتیس ووٹ آئے ہیں ،جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا۔ اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی بل اتفاقِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔

قادیانی اپنے عقائد و نظریات کی بنیاد پر اپنے وجود کے اوّل دن سے ہی اسلام سے خارج تھے، بلکہ انہوں نے ایک نئے نبی کو مان کر از خود اپنا راستہ مسلمانوں سے علیحدہ کرلیاتھا، یہی وجہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے علاوہ دیگر تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔قومی اسمبلی نے انہیں کافر قرار نہیں دیا، ہاں قومی اسمبلی نے ان کے افکار و نظریات ، عقائد و خیالات کو دیکھتے ہوئے ان کی آئینی حیثیت متعین کی کہ وہ دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ایک اقلیت ہیں۔

آج یہ شور مچاتے ہیں کہ ہم اس آئین کو کیسے تسلیم کریں جس میں ہماری نفی کی گئی ہے ،یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس آئین نے تو انہیں ایک حیثیت دی ہے، ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ اس ترمیم سے پہلے ان کا اپنا کوئی وجود نہیں تھا، نہ وہ مسلمانوں میں شامل تھے ، نہ دیگر اقلیتوں میں۔ آئین نے ان کی ایک حیثیت متعین کر کے نہ صرف یہ کہ ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے ، بلکہ انہیں آئینی طور پر حقوق دیئے ہیں کہ وہ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔دوسری اقلیتوں کی طرح ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی، وہ غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں، غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے انتخاب لڑ سکتے ہیں، دیگر اقلیتوں کی طرح اسمبلی کا حصہ بن سکتے ہیں، آئین انہیں یہ سارے حقوق دیتا ہے، مگر افسوس آئین کی جس شق کو متفقہ طور پر منظور کر کے آئین کا حصہ بنایا گیا، جس کی پوری امت مسلمہ نے توثیق کی ، عدالت عظمیٰ جس کی کئی بار توثیق کرچکی، قادیانی امت اس شق کو نہ ماننے پر بضد ہے۔اور تمام فیصلوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے خود کو مسلمان کہلانے اور اسلام کا نام استعمال کرنے پر بضد ،دنیا بھر میں بغاوت کا کھلم کھلا اظہار کر رہی ہے، اور اپنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے انسانی حقوق کی آڑ میں پناہ لینے کی کوشش کر رہی ہے، قادیانی دنیا بھر میں اس متفقہ اور جمہوری فیصلے کے خلاف لابنگ کر رہے ہیں اور اسے ختم کرانے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں۔مغربی عالمی سیکولر لابیوں کی انہیں مکمل پشت پناہی حاصل ہے، ان حالات میں تمام مسلمانوں خصوصاً اہل پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ چوکنا رہیں اور عقیدۂ ختم  نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ اور اس دستوری فیصلے کا مسلسل پہرہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ہرچور راستے کو بند کر کے اس میں نقب لگانے کی کوشش کو ناکام بنادیا جائے۔

Share: