عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 101)


*  قادیانیت اور ملعون مرزا قادیانی*


* ملعون مرزا غلام قادیانی کی پیشگوئیاں*


مرزا غلام قادیانی  نے اپنی متعدد پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے جن میں ملعون مرزا کے مطابق اس کو کسی واقعہ کے پیش آنے کی پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ کچھ پیشگوئیوں کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ھے ان پیشگوئیوں کو مختلف زمرہ جات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔


*مذہبی مخالفین کے متعلق پیشگوئیاں*


*حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ کی موت کی پیشگوئی*


حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ معروف عالمِ دین اور مشہور مناظر بزرگ گزرے ہیں۔ آپ کی مرزا غلام قادیانی سے مخالفت اور اسکا تعاقب بہت مشہور ہے اور مرزا غلام قادیانی  بھی مولانا مرحوم کو اپنے شدید ترین مخالفوں میں سے جانتا تھا۔ مولانا موصوف رحمة اللہ علیہ مرزا غلام قادیانی کی پیشگوئیوں کا تجزیہ کرتے اور اس کا غلط ہونا واضح کرتے۔ مرزا ملعون اس پر سخت غصہ میں آ جاتا لیکن اسے کبھی مولانا موصوف رحمة اللہ علیہ کے سامنے آنے کی ہمت نہ ہو سکی۔ ایک مرتبہ موضع مد میں مولانا مرحوم کا مرزا غلام قادیانی کے ساتھ مباحثہ ہوا۔ مولانا مرحوم نے مرزا قادیانی کی سب پیشگوئیوں کے غلط ہونے کا اعلان کیا۔ مرزا  قادیانی کو غصہ آ گیا اور اس نے مولانا مرحوم کو  قادیان آ کر ان پیشگوئیوں کی تحقیق کی دعوت دے دی اور اسکے غلط ہونے پر اپنی طرف سے انعام دینے کا وعدہ بھی کر دیا۔ مرزا غلام  قادیانی لکھتا ہے:

’’مولوی ثناء اللہ رحمة اللہ علیہ نے موضع مُدّ میں بحث کے وقت یہی کہا تھا کہ سب پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں اس لئے ہم ان کو مدعو کرتے ہیں اور خدا کی قسم دیتے ہیں کہ وہ اِس تحقیق کیلئے قادیان میں آویں اور تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کریں اور ہم قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ ہر ایک پیشگوئی کی نسبت جو منہاج نبوت کی رو سے جھوٹی ثابت ہو ایک ایک سو روپیہ ان کی نذر کریں گے؛ ورنہ ایک خاص تمغہ لعنت کا ان کے گلے میں رہے گا اور ہم آمد و رفت کا خرچ بھی دیں گے، اور کل پیشگوئیوں کی پڑتال کرنی ہوگی تاکہ آئندہ کوئی جھگڑا باقی نہ رہ جاوے ‘‘

(روحانی خزائن جلد 19)

مرزا ملعون   اس سے پہلے بھی یہ لکھ آیا ’’اگر یہ سچے ہیں تو قادیان میں آ کر کسی پیشگوئی کو جھوٹی تو ثابت کریں اور ہر ایک پیشگوئی کیلئے ایک ایک سو روپیہ انعام دیا جائے گا اور آمدو رفت کا کرایہ علیحدہ ‘‘ 

(روحانی خزائن جلد 19)


مرزا  قادیانی کا کہنا تھا کہ ان کی پیشگوئیاں 150 کے قریب ہیں اگر وہ سب کی سب جھوٹی ثابت ہوں تو مولانا مرحوم کو پندرہ ہزار کی بڑی رقم مل جائے گی۔ مرزا قادیانی لکھتا ھے :

’’ رسالہ نزول المسیح میں ڈیڑھ سو (150) پیشگوئی مَیں نے لکھی ہے تو گویا جھوٹ ہونے کی حالت میں پندرہ ہزار روپیہ مولوی ثناء اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ لے جائیں گے اور دربدر گدائی کرنے سے نجات ہوگی بلکہ ہم اور پیشگوئیاں بھی معہ ثبوت ان کے سامنے پیش کر دیں گے اور اسی وعدہ کے موافق فی پیشگوئی سو روپیہ دیتے جائیں گے۔ اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ میری جماعت ہے۔ پس اگر مَیں مولوی صاحب موصوف رحمة اللہ علیہ کیلئے ایک ایک روپیہ بھی اپنے مریدوں سے لوں گا تب بھی ایک لاکھ روپیہ ہو جائے گا وہ سب ان کی نذر ہو گا جس حالت میں دو دو آنہ کیلئے وہ دربدر خراب ہوتے پھرتے ہیں اور خدا کا قہر نازل ہے اور مردوں کے کفن یا وعظ کے پیسوں پر گزارہ ہے، ایک لاکھ روپیہ حاصل ہو جانا ان کیلئے ایک بہشت ہے لیکن اگر قادیان میں نہ آئیں تو پھر لعنت ہے اس لاف و گزاف پر جو انہوں نے موضع مدّ میں مباحثہ کے وقت کی اور سخت بے حیائی سے جھوٹ بولا ‘‘ 

(روحانی خزائن جلد19)

خیر اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتے کہ مردوں کے کفن اور انکی قبر کے پیسوں پر کون گزارا کرتا تھا اور کون “بہشتی مقبرہ “کے نام پر غریبوں کی جیبیں خالی کیا کرتا تھا, اسے کسی اور وقت میں بیان کیا جا سکتا ھے جس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ وہ کتنا بڑا بہروپیا تھا۔

مرزا غلام قادیانی  نے اپنی پیشگوئیوں کی تفتیش کیلئے مولانا موصوف رحمة اللہ علیہ کو قادیان آنے کا چیلنج دیا اور اس پر انعام کا وعدہ کیا اور اس چیلنج کو باربار دہرایا۔ مرزا غلام  قادیانی جانتا تھا قادیان آ کر ڈیڑھ سو پیشگوئیوں کی تفتیش کرنا اور اتنا عرصہ قادیان میں رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور ایک مصروف آدمی کیلئے اتنا طویل وقت نکالنا ایک مشکل ترین مسئلہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایک ایک پیشگوئی کی تاویل اور اس کی تردید و تفتیش میں ایک خاصا عرصہ لگ جائے گا۔ آخر کار مولانا موصوف رحمة اللہ علیہ قادیان چھوڑ جائیں گے اور وہ اپنی فتح کا اعلان کر دے گا۔ اسی یقین کی وجہ سے مرزا غلام  قادیانی نے  ایک اور پیشگوئی داغ دی اور کہا کہ اسے خدا نے بتا دیا ہے کہ’’ مولانا ثناء اللہ رحمة اللہ علیہ قادیان میں تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کیلئے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے اور سچی پیشگوئیوں کی اپنے قلم سے تصدیق کرنا ان کیلئے موت ہوگی‘‘ 

(روحانی خزائن جلد 19۔ صفحہ 148)

یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ کتاب 15 نومبر 1902ء کو شائع ہوئی تھی مرزا غلام  قادیانی کے خدا کی یہ بات بھی غلط نکلی اور مرزا  قادیانی کی ساری امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب اسے معلوم ہوا کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب مرحوم قادیان آ دھمکے ہیں تو اسکے سارے ہوش اڑ گئے۔ مرزا  تسلیم کرتا ھے کہ مولانا ثناء اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ اس سلسلے میں قادیان آئے تھے

ترجمہ خطے کہ سئے ثناء اللہ امرتسری نوشتم وقتے کہ بہ قادیان آمد و بہ تشنگی دروغ ازالہ شبہات خود بخواست و بود ایں تاریخ دہم شوال 1320ھ چوں ایں دجال بہ قادیان آمد

(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 329)

مرزا  ملعون کی یہ کتاب جس میں اس کا خط بھی شامل ہے جنوری 1903ء میں شائع ہوئی تھی اس سے ہی آپ اندازہ کریں کہ مرزا  قادیانی کی 15 نومبر 1902ء کی یہ بات کہ وہ ہرگز قادیان نہیں آئیں گے جنوری 1903ء میں ہی غلط ثابت ہو گئی تھی

مرزا غلام  قادیانی کو اس معاملے میں کافی خفت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے مولانا موصوف رحمة اللہ علیہ کے بارے میں مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی اور مولانا مرحوم پر الزام لگایا کہ انہوں نے ایک جلیل القدر صحابئ رسول سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی توہین کی ہے۔ مرزا غلام  قادیانی حیات مسیح کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’غرض (و ان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل۔مصنف) 

موتہ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ کی طرف اسی وجہ سے اس آیت کی دوسری قراء ت میں مَوتھم واقع ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ کی طرف یہ ضمیر پھرتی تو دوسری قراء ت میں موتھم کیوں ہوتا ؟ دیکھو تفسیر ثنائی کہ اس میں بڑے زور سے ہمارے اس بیان کی تصدیق موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہی معنی ہیں مگر صاحب تفسیر لکھتا ہے کہ ’’ ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے ۔ ابوہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا ‘‘ 

(روحانی خزائن جلد 21)


مرزا غلام قادیانی  نے مولانا موصوف رحمة اللہ علیہ پر یہ الزام اس لئے لگایا کہ لوگ ان کے خلاف ہو جائیں ؛ حالانکہ خود مرزا غلام  قادیانی نے اس کے متصل عبارت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر سخت جرح کر کے ان کی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔

مرزا غلام قادیانی  کا جب یہ وار بھی خالی گیا اور وہ مولانا موصوف رحمة اللہ علیہ کے تعاقب سے حد درجہ پریشان ہو گیا تو اس نے مولانا موصوف رحمة اللہ علیہ کے ساتھ آخری اور فیصلہ کن معرکہ برپا کرنے کا اعلان کر دیا اور کھلے عام کہا کہ جو اس معرکہ میں کامیابی سے پار ہو گا وہ سچا ہو گا اور جسے اس معرکہ میں شکست ہو گی وہ جھوٹا اور باطل پر ہو گا اور جھوٹا سچے کی زندگی میں وبائی مرض مثلا ً ھیضہ وغیرہ میں مبتلا ھو کر مر جائے گا بعد میں کیا ھوا 

یہ پورا واقعہ قسط نمبر: (97 ) میں *مرزا قادیانی کی عبرت ناک موت* کے عنوان سے لکھا جا چکا ھے اسے وھاں دیکھا جا سکتا ھے


المختصر مرزا قادیانی مولانا ثناء اللہ رحمة اللہ علیہ کی زندگی میں ھی ھیضہ کی وبا میں مبتلا ھو کر لیٹرین میں مر گیا لیکن افسوس یہ ہے کہ مرزا ملعون کے جانشینوں نے مرزا ملعون کی عبرتناک موت سے کچھ سبق حاصل نہ کیا۔ حق کے فیصلے کو سامنے دیکھتے ہوئے جھوٹ پر اَڑنا اور عام لوگوں کو گمراہ کرنا بڑی بد بختی کی بات ہے؛ حالانکہ مرزا غلام  قادیانی کہہ چکا تھا کہ اسکی عبرتناک ہلاکت کی صورت میں قادیانیوں کو چاہیے کہ وہ سچائی کا دامن تھام لیں اور غلط بات پر ہرگز نہ اَڑیں۔ یہ مرزا  قادیان کے جانشین  ھیں جنہوں نے  پیروکاروں کو حق کے قریب نہیں آنے  دیا اور سچی بات نہیں بتائی اور آجکل مرزائی لاٹ پادری شیطان مرزا مسرور بھی اسی روش پر گامزن ھے

اگر مرزا مسرور  قادیانی عوام کو مرزا غلام  قادیانی کی درج ذیل یہ فیصلہ کن تحریر بتا دے تو  امید ہے کہ سوائے ضدی اور متعصب نفس پرست کے کوئی بھی قادیانی نہ رہے گا۔ سب کے سب  دینِ اسلام کو قبول کر لیں گے جس میں دنیا کی بھلائی اور آخرت کی عزت ہے اور جس کے بغیر دنیا میں بھی ذلت اور آخرت میں بھی رسوائی ہے۔ مرزا غلام  قادیانی مولانا ثناء اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ ہونے والی بحث میں لکھتا ہے:

’’مَیں اقرار کرتا ہوں کہ اگر مَیں اِس مقابلہ میں مغلوب رہا تو میری جماعت کو چاہئے جو ایک لاکھ سے بھی اب زیادہ ہے کہ سب مجھ سے بیزار ہو کر الگ ہو جائیں کیونکہ جب خدا نے مجھے جھوٹا قرار دے کر ہلاک کیا تو مَیں جھوٹے ہونے کی حالت میں کسی پیشوائی اور امامت کو نہیں چاہتا بلکہ اس حالت میں ایک یہودی سے بھی بدتر ہوں گا اور ہر ایک کیلئے جائے عار وننگ ‘‘

(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 124)

ہم مسلمانوں کو  چاھیے کہ ھم قادیانی عوام کو  محبت و پیار سے اسلام کی دعوت دیں اور اُن سے درخواست کریں کہ وہ غور کریں اور دیکھیں کہ مرزا قادیانی مولانا مرحوم کے مقابل غالب ہوا یا مغلوب؟ مرزا کا مغلوب ہونا اور وبائی ہیضہ سے ہلاک ہونا کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے۔ اسکے باوجود سرورِ دو عالم خاتم الانبیاء و المرسلین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی میں نہ آنا کتنی بڑی بدنصیبی اور شقاوت ہے  آنکھ بند ھوتے ھی اس کا  آچھی طرح پتہ چل جائے گا؟ لیکن اس وقت اس کا کوئی فائدہ نہیں ھو گا

“اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت”


اللہ تعالیٰ بات کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عنایت فرمائے 

آمین یا رب العالمین

Share: