وَالَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ O
اور جنہوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم انہیں ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے، اور بے شک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔(العنکبوت)
حجِ مبرور کی سعادت ایک مسلمان کے لئے عظیم الشان عبادت کا درجہ رکھتی ھے جس کے بے شمار فضائل حدیث کی کتابوں میں موجود ھیں یہی وجہ ھے جس مسلمان کو اللہ پاک نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی اس سعادت سے نواز دیا وہ بھی اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتا ھے ناز کیوں نہ ھو حج مبرور کے سعادت حاصل کرنے والے کے لئے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی مبارک زبان سے نکلی ھوئی یہ خوش خبری ھے کہ وہ گناھوں سے اس طرح پاک ھو جاتا ھے جیسے ماں کے پیٹ سے آج ھی نکلا ھو
غور کا مقام ھے کہ اُس شخص کی خوش قسمتی کا کیا اندازہ ھو سکتا ھے جسے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی زبانی (خواب میں) یہ خوش خبری مل جائے کہ اللہ پاک کی طرف سے اس کا ایک ھم شکل فرشتہ قیامت تک اس کی طرف سے ھر سال حج ادا کرنے کے لئے مقرر ھو گیا ھے
ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور بزرگ گزرے ھیں وہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لیے ایک قافلہ کے ساتھ جا رہا تھا، میرے ساتھ میرے بھائی بھی تھے گویا ایک جماعت تھی۔ سفر کرتے ھوئے جب ھم لوگ کوفہ پہونچے تو وہاں ضروریات سفر خرید نے کے لیے میں بازار گیا ۔ بازار میں گھوم رہا تھا کہ وہ بازار ایک ویران سی جگہ پر ختم ھو گیا ۔ میں نے اس ویران سی جگہ میں ایک خچر ایک طرف مرا ہوا دیکھا اور ایک عورت جس کے کپڑے بہت پرانے اور بوسیدہ تھے، چاقو لیے ہوئے اس کے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی تھی ۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ عورت مردارگوشت لے جا رہی ہے، اس پر ہرگز سکوت نہ کرنا چاہیے۔ عجب نہیں کہ یہ کوئی بھٹیارن عورت ہو اور یہ گوشت پکا کر لوگوں کو کھلادے گی ۔ میں چپکے سے اس عورت کے پیچھے پیچھے چل پڑا ، اس طرح کہ وہ مجھے دیکھ نہ سکے ، چلتی چلتی وہ عورت ایک بڑے مکان کے سامنے پہونچی، جس کا دروازہ بھی کافی اونچا تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا، ا ندر سے آواز آئی کون ہے؟ اس نے کہا کھولو، میں ہی بدحال ہوں، دروازہ کھولا گیا اوراس میں سے چار لڑکیاں آئیں، جن کے چہروں سے بدحالی اور مصیبت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے، وہ عورت اندر گئی اور زنبیل ان لڑکیوں کے سامنے رکھ دی ۔ مجھے چونکہ مردار گوشت کے حوالے سے تشویش تھی اس لئے میں نے کواڑوں کی درازوں سے جھانک کر دیکھنا شروع کر دیا ۔ میں نے دیکھا اندر سے گھر بالکل برباد اور خالی تھا، اس عورت نے روتے ہوئے لڑکیوں کو کہا کہ یہ لو اس گوشت کو پکالو، اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر اختیار ہے، اسی کے قبضہ میں لوگوں کے قلوب ہیں ، وہ لڑکیاں اس کو کاٹ کاٹ کر آگ پر بھوننے لگی۔ مجھے بہت تنگی ہوئی، میں نے باہر سے آواز دی۔
اے اللہ کی بندی! اللہ کے واسطے اس مردار کو نہ کھانا وہ کہنے لگی کہ تو کون ہے؟ میں نے کہا: میں ایک پردیسی آدمی ہوں، کہنے لگی: اے پردیسی ! تو ہم سے کیا چاہتا ہے؟ میں نے کہا مجوسیوں کے ایک فرقے کے سوا مردار کا گوشت کھانا کسی مذہب میں بھی جائز نہیں، وہ کہنے لگی ہم خاندان نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے شریف (سید) ہیں ، ان لڑکیوں کا باپ بڑا شریف آدمی تھا، وہ اپنے ہی جیسوں سے ان کا نکاح کرنا چاہتاتھا، لیکن اس کی نوبت نہ آئی اور اس کا انتقال ہوگیا، جو ترکہ اس نے چھوڑا تھا وہ آھستہ آھستہ ختم ہوگیا۔ یہ ہمیں معلوم ہے کہ مردار کا کھانا جائز نہیں ھے ، لیکن اضطرار کی حالت میں یہ جائز ہو جاتاہے، آج ہمارا چار دن کا فاقہ ہے۔
ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ان کے حالات سن کر مجھے رونا آگیا اور میں روتا ہوا دل لے کر بے چین واپس ہوا اور میں نے اپنے بھائی سے آکرکہا: میرا ارادہ حج کا نہیں رہا، اس نے مجھے بہت سمجھایا، حج کے فضائل بتائے کہ حاجی ایسی حالت میں واپس لوٹتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں رہتا وغیرہ وغیرہ ، میں نے بھائی سے کہا بس میرے ساتھ لمبی چوڑی باتیں نہ کرو، یہ کہہ کر میں نے اپنے کپڑے اوراحرام کی چادریں اور جو سامان میرے ساتھ تھا وہ سب لیامیرے پاس نقد چھ سو درہم تھے، وہ لیے اور ان میں سے سو درہم کا آٹا خریدا اور سودرہم کا کپڑا خریدا اور باقی درہم جو بچے وہ آٹے میں چھپا کر اس بڑھیا کے گھر پہونچا اور یہ سب سامان اور آٹا وغیرہ لیجا کر اس بڑھیا کو دے دیا ۔ اس عورت نے اللہ کا شکر ادا کیا، اور کہنے لگی اے ابن سلیمان! جا اللہ جل شانہ تیرے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردے،اورتجھے حجِ مبرور کا ثواب عطا کرے اور اللہ پاک اپنی جنت میں تجھے جگہ عطا فرمائے، اور تجھے اس احسان کا ایسا بدلہ عطا فرمائے جو تجھ پر اس دنیا میں بھی ظاہر ہوجائے۔ سب سے بڑی لڑکی نے کہا: اللہ جل شانہ تیرا اجر دو چند کردے اور تیرے گناہ معاف کردے ۔ دوسری نے کہا: اللہ جل شانہ تجھے اس سے بہت زیادہ عطا فرمائے جتنا تو نے ہمیں دیا، تیسری نے کہا حق تعالیٰ جل شانہ ہمارے دادا کے ساتھ تیرا حشر بھی کرے، چوتھی نے کہا: جو سب سے چھوٹی تھی، اے اللہ! جس نے ہم پر احسان کیا ہے ا س کا نعم البدل اس کو جلدی عطا کر اور اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دے ۔
ربیع کہتے ہیں کہ میں وھاں سے واپس آیا اور حجاج کرام کا قافلہ اپنے سفر پر روانہ ہوگیا، میں نے کوفہ ھی میں قیام کیا ۔ میں کوفہ میں ہی مجبور پڑا تھا کہ سب لوگ حج سے فارغ ہوکر لوٹ آئے، مجھے خیال ہوا کہ ان حجاج کرام کا استقبال کروں، ان سے اپنے لیے دعا کراؤں، کسی کی مقبول دعا مجھے لگ جائے، جب حجاج کا ایک قافلہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا، تو مجھے اپنے حج سے محرومی پر بہت افسوس ہوا اور رنج کی وجہ سے آنسو نکل آئے، جب میں ا ن سے ملا تو میں نے کہا: اللہ جل شانہ تمہارا حج قبول کرے، ا ن میں سے ایک نے کہا: یہ کیسی دعا ہے؟ میں نے کہا: ایک ایسے شخص کی دعا ھے جو دروازہ تک کی حاضری سے محروم رہا ہو، وہ کہنے لگے بڑے تعجب کی بات ہے، اب تووہاں جانے سے انکار کرتاہے تو ہمارے ساتھ عرفات کے میدان میں نہیں تھا؟تو نے ہمارے ساتھ رمی جمرات نہیں کی؟ تو نے ہمارے ساتھ بیت اللہ کا طواف نہیں کیا؟۔
میں اپنے دل میں سوچنے لگا کہ یہ اللہ کا لطف ہے، اتنے میں خود میرے شہر کا حاجیوں کا قافلہ بھی آگیا ، میں نے انہیں بھی کہا؛ حق تعالیٰ تمہاری سعی قبول فرمائے، تمہارا حج قبول فرمائے، وہ بھی یہی کہنے لگے تو خود بھی ہمارے ساتھ عرفات میں تھا ۔ رمی جمرات بھی تو نے ھمارے ساتھ کی تھی۔ اب انکار کیوں کرتا ہے؟ ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ بھائی! اب آپ انکار کیوں کرتے ہو، کیا بات ہے؟ آخر تم ہمارے ساتھ مکہ مکرمہ میں پہونچے تھے اور مدینہ منورہ میں بھی ھمارے ساتھ تھے، جب ہم قبر اطہر کی زیارت کرکے باب جبریل علیہ السلام سے باہر کو آرہے تھے تو اس وقت اژدہام میں کثرت کی وجہ سے تم نے میرے پاس اپنی امانت رکھوائی تھی، جس کی مہر پر لکھا ہوا ہے مَنْ عَامَلَنَا رِبْح ( جوہم سے معاملہ کرتا ہے نفع حاصل کرتا ہے) یہ تمہاری تھیلی واپس ہے۔
ربیع کہتے ہیں کہ واللہ! میں نے اس تھیلی کو اس سے پہلے دیکھا بھی نہ تھا اس کو لے کر گھر آیا، عشاء کی نماز پڑھی، اپناوظیفہ پورا کیا، اس کے بعد اس سوچ میں جاگتا رہا کہ آخر یہ قصہ کیا ہے، اسی سوچ بچار میں میری آنکھ لگ گئی، تو میں نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی خواب میں زیارت کی میں نے حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو سلام کیا اور ہاتھ چومے، حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے تبسم فرماتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور ارشاد فرمایا:
ربیع! آخر ہم کتنے گواہ اس پر قائم کریں کہ تو نے حج کیا ھے ، تو مانتا ہی نہیں، سن ، تو نے اس عورت پر جو میری اولاد میں سے تھی ، صدقہ کیا اور اپنا زادراہ ایثار کرکے اپنا حج ملتوی کردیا تو میں نے اللہ جل شانہ سے دعا کی کہ وہ اس کا نعم البدل تجھے عطافرمائے ۔
حق تعالیٰ جل شانہ نے ا یک فرشتہ تیری صورت کا بناکر اس کو حکم فرما دیا کہ وہ قیامت تک ہر سال تیری طرف سے حج کیاکرے اور دنیا میں تجھے یہ عوض دیا کہ چھ سو درہم کے بدلے چھ سودینار (اشرفیاں) عطا کیں، تو اپنی آنکھ کو ٹھنڈی رکھ، پھر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بھی یہی الفاظ ارشاد فرمائے من عاملنا ربح ۔۔۔ ربیع کہتے ہیں کہ جب میں سو کر اٹھا تو اس تھیلی کو کھولا تو اس میں چھ سو اشرفیاں تھیں۔
بہرحال یہی سچی پکی بات ھے کہ جو شخص بھی اللہ کے راستہ میں صرف اللہ ھی کی رضا کے لئے کوشش کرتا ھے اللہ پاک اس کے لئے آسان راستے کھول دیتے ھیں