اپنی غلطی پر پوری کوشش سے معذرت چاھنا

 مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَاۚ

جو ایک نیکی لے کر آئے گا  تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہیں

آیتِ مذکورہ میں صاف صاف بتا دیا گیا ھے کہ قیامت والے دن انسان کو اُسی نیکی کا آجر ملے گا جو وہ اس دنیا سے بچا کر لے جائے گا لیکن اگر نیکیاں تو بہت کیں لیکن اُنہیں حقوق العباد کا خیال نہ رکھ کر یہاں ھی ضائع کر دیا تو ان نیکیوں کا کوئی آجر اسے نہیں ملے گا 

انسان غلطیوں کا پتلا ھے اس سے غلطیوں کا صادر ھو جانا قرینِ قیاس ھے لیکن بعض اوقات جب  اس کی غلطی سے دوسرے کی عزتِ نفس متاثر ھوتی ھے تو یہ معاملہ بہت سنگین ھو جاتا ھے سچی بات یہی ھے کہ آپ  خواہ کتنے ہی نیک اور پارسا کیوں نہ ہوں،  مگر آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ کسی  دوسرے کی  کردار کشی کریں . 

پھر جب غلطی کرنے والا یعنی دوسرے کی کردار کشی کرکے اس کا دل دکھانے والا  شخص اپنے اس عمل کو صحیح کہنے  پر اصرار بھی کرتا ھے تو صورت حال اور زیادہ سنگین  ھو جاتی ھے بلکہ بعض اوقات حالات نو ریٹرن پر پہنچ جاتے ھیں

بعض  اوقات زیادتی کرنے والا  اپنی غلطی کا ادراک  تو کر لیتا ھے لیکن  اپنی جھوٹی  انا کی خاطر کھل کر معافی مانگنے میں عار محسوس کرتا ھے بس اپنے دل کی تسکین کے لئے رسمی سی معذرت کر لیتا ھے گویا وہ متاثرہ شخص پر یہ بھی ایک طرح کا احسان کر رھا ھوتا ھے یہ صورت حال بھی قابلِ قبول نہیں ھے لیکن بد قسمتی سے ھمارے معاشرے میں عموماً مذکورہ بالا دونوں صورتیں ھی وقوع پذیر ھوتی ھیں

ایک تیسری صورت جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی زندگیوں میں ھمیں ملتی ھے  (اور بدقسمتی سے یہ ھمارے معاشرے میں تقریباً  مفقود ومتروک ہو چکی ھے ) وہ یہ کہ    صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے اگر خدانخواستہ ایسی کسی غلطی کا ارتکاب ھو جاتا تو پھر وہ اپنے مقام و مرتبے کو بالکل نظر انداز کرکے کھلم کھلا متاثرہ شخص سے معافی کے طلبگار ھوتے تھے اور معافی کے حصول کے لئے ھر ممکن کوشش کرتے تھے اور جب تک انہیں اس بات کا یقین نہیں ھوجاتا تھا کہ متاثرہ شخص نے واقعی انہیں معاف کر دیا ھے  اس وقت تک وہ  اس کا دامن نہیں چھوڑتے تھے اور معافی مل جانے پر متاثرہ شخص کے ھر طرح سے احسان مند ھوتے تھے 

 آحادیث مبارکہ میں حضرت ابوزر  رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک واقعہ بیان ھوا ھے جو مذکورہ بالا تیسری صورت کی بھرپور عکاسی کرتا ھے واقعہ درج ذیل ھے:-

ایک مرتبہ جب حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہہ دیا کہ : اے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے! اب تو بھی میری غلطیاں نکالے گا؟

حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر غصے اور افسوس سے بےقرار ہوکر یہ کہتے ہوے اٹھے اللہ کی قسم! میں اسے ضرور بالضرور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے سامنے اٹھاؤں گا۔

حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھو کر سارا واقعہ بیان کر دیا۔ یہ واقعہ سن کر اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مخاطب ھو کر ارشاد فرمایا  اے ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ)!  کیا تم نے اسے ماں کی عار دلائی؟  تمہارے اندر کی جہالت اب تک نہیں گئی۔

(صحيح بخاري)

اتنا سننا تھا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ یہ کہتے ہوئے رونے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے لیے دعائے مغفرت کردیجئے اور پھر روتے ہوئے مسجد سے نکلے ۔ باہر آ کر اپنا رخسار مبارک  مٹی پر رکھ دیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ  سے مخاطب ہوکر کہنے لگے اے بلال (رضی اللہ تعالی عنہ!) جب تک تم میرے رخسار کو اپنے پاؤں سے نہ روند دو گے میں اسے مٹی سے نہ اٹھاؤں گا “ یقیناً تم معزز و محترم ہو اور میں ذلیل و خوار”  یہ دیکھ کر حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوۓ آئے اور حضرت ابوذر  رضی اللہ تعالی عنہ سے قریب ہو کر ان کے رخسار کو چوم لیا اور بےساختہ گویا ہوۓ

اللہ پاک کی قسم !  میں اس رخسار کو کیسے روند سکتا ہوں جس نے ایک بار بھی اللہ کو سجدہ کیا ہو پھر دونوں کھڑےہو کر گلے ملے اور بہت روئے۔۔۔ تو یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا آپس میں برتاؤ

اور آج  اگرھم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو ھمارا حال تو یہ ھے کہ ہم ایک دوسرے کی ہزاروں بار دل آزاری کرتے ہیں  مگر کوئی یہ تک کہنے کو تیار نہیں  ھوتا کہ بھائی  مجھے معاف کر دیں” ،    “ بہن میری معذرت قبول کر لیں “

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم آئے دن لوگوں کے جذبات کو چھلنی کرتے رھتے ہیں مگر ہم معذرت کے الفاظ تک زبان سے ادا کرنا اپنی جھوٹی شان کے خلاف سمجھتے ھیں  اور "معاف کردیجئے" جیسے الفاظ کہتے ھوئے بھی ہمیں شرم محسوس ھوتی ہے   حالانکہ اس سے ھماری محنت و مشقت سے کی ھوئی نیکیاں ھمارے نامۂ آعمال سے نکل جاتی ھیں تو ھم اپنی ان غلیظ   حرکتوں سے اپنی کی ھوئی قیمتی نیکیوں کا ھی بہت بڑا  نقصان کر بیٹھتے ھیں ۔ قیامت والے دن ھمیں اس کا اندازہ ھو جائے گا جب ضرورت ہڑنے پر صرف ایک نیکی بھی کوئی دینے کو تیار نہیں ھو گا ھمیں یہ بات جاننے کی ضرورت ھے کہ اپنی زیادتی پر  معافی مانگ لینا عمدہ ثقافت اور بہترین اخلاق ہے جب کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خود کی بےعزتی کے مترادف ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ھے ھمیں جاننا چاھیے کہ اس دنیا میں ہم سب مسافر ہیں اور ھمارے پاس سامانِ سفر نہایت ہی کم ہے اور جو تھوڑا بہت ھے کم از کم ھمیں اسےضائع ھونے سے بچانے کی تو بھرپور کوشش کرنی چاھیے 

 کوئی بھی انسان  اگر اپنی اصلاح چاہتا ھے تو اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو کھلے دل سے قبول کرے۔ غلطیوں کا اعتراف کرلینا اس لئے بھی بہت ضروری ھے کہ جب تک ہم یہ نہیں سمجھ لیتے کہ ہم سے غلطی سرزد ہوئی ہے تب تک اصلاح کا عمل ممکن نہیں۔ اور بغیر اصلاح کے ارتقاء کا عمل رُک سکتا ہے۔ ترقی کا عمل مشروط ہے غلطیوں کو تسلیم کرنے میں،  جو یہ کلیہ سمجھ جائے گا وہ اپنی ہر غلطی کو کامیابی میں بدل دے گا کیونکہ غلطیوں کے اعتراف سے ہی صحیح چیز کا ادراک ہوتا ہے۔ غلطیوں کو تسلیم کرلینا اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے۔ اگر زندگی میں آگے بڑھنا ھے  اور ایک اچھا انسان بننا ھے  تو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں شرم محسوس نہ کریں ۔ 

اللہ پاک ہم پر اپنا رحم فرمائے اور ھماری کوتاھیوں کو  معاف فرمائے اور ھماری غلطیوں اور نغرشوں سے  درگزر فرمائے اور ھمیں اپنی کی ھوئی نیکیوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: