اپنی غلطی پر پوری کوشش سے معذرت چاھنا

 

انسان غلطیوں کا پتلا ھے اس سے غلطیوں کا صادر ھو جانا قرینِ قیاس ھے لیکن بعض اوقات جب  اس کی غلطی سے دوسرے کی عزتِ نفس متاثر ھوتی ھے تو یہ معاملہ بہت سنگین ھو جاتا ھے سچی بات یہی ھے کہ آپ  خواہ کتنے ہی نیک اور پارسا کیوں نہ ہوں،  مگر آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ کسی  دوسرے کی  کردار کشی کریں . 

پھر جب غلطی کرنے والا یعنی دوسرے کی کردار کشی کرکے اس کا دل دکھانے والا  شخص اپنے اس عمل کو صحیح کہنے  پر اصرار بھی کرتا ھے تو صورت حال اور زیادہ سنگین  ھو جاتی ھے بلکہ بعض اوقات حالات نو ریٹرن پر پہنچ جاتے ھیں

بعض  اوقات زیادتی کرنے والا  اپنی غلطی کا ادراک  تو کر لیتا ھے لیکن  اپنی جھوٹی  انا کی خاطر کھل کر معافی مانگنے میں عار محسوس کرتا ھے بس اپنے دل کی تسکین کے لئے رسمی سی معذرت کر لیتا ھے گویا وہ متاثرہ شخص پر یہ بھی ایک طرح کا احسان کر رھا ھوتا ھے یہ صورت حال بھی قابلِ قبول نہیں ھے لیکن بد قسمتی سے ھمارے معاشرے میں عموماً مذکورہ بالا دونوں صورتیں ھی وقوع پذیر ھوتی ھیں

ایک تیسری صورت جو صہابہ کرام کی زندگیوں میں ھمیں ملتی ھے  (اور بدقسمتی سے ھمارے معاشرے میں تقریباً  مفقود ومتروک ہو چکی ھے ) وہ یہ کہ  صہابہ کرام  سے اگر خدانخواستہ ایسی کسی غلطی کا ارتکاب ھو جاتا تو پھر وہ اپنے مقام و مرتبے کو بالکل نظر انداز کرکے کھلم کھلا متاثرہ شخص سے معافی کے طلبگار ھوتے تھے اور معافی کے حصول کے لئے ھر ممکن کوشش کرتے تھے اور جب تک انہیں اس بات کا یقین نہیں ھوجاتا تھا کہ متاثرہ شخص نے واقعی انہیں معاف کر دیا ھے  اس وقت تک وہ  اس کا دامن نہیں چھوڑتے تھے اور معافی مل جانے پر متاثرہ شخص کے ھر طرح سے احسان مند ھوتے تھے 

 آحادیث مبارکہ میں حضرت ابوزر  رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک واقعہ بیان ھوا ھے جو مذکورہ بالا تیسری صورت کی بھرپور عکاسی کرتا ھے واقعہ درج ذیل ھے:-

جب ابوذرؓ نے بلالؓ کو کہا

اے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے! 

اب تو بھی میری غلطیاں نکالے گا؟

حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر غصے اور افسوس سے بےقرار ہوکر یہ کہتے ہوے اٹھے اللہ کی قسم! میں اسے ضرور بالضرور اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے اٹھاؤں گا۔

یہ واقعہ سن کر اللہ کے رسولؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابوذر کیا تم نے اسے ماں کی عار دلائی؟

 تمہارے اندر کی جہالت اب تک نہ گئی۔

(صحيح بخاري ٣١)

اتنا سننا تھا کہ حضرت ابوذرؓ یہ کہتے ہوئے رونے لگے یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے لیے دعائے مغفرت کردیجئے اور پھر روتے ہوۓ مسجد سے نکلے ۔ باہر آ کر اپنا رخسار مٹی پر رکھ دیا اور حضرت بلالؓ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے

بلالؓ جب تک تم میرے رخسار کو اپنے پاؤں سے نہ روند دو گے میں اسے مٹی سے نہ اٹھاؤں گا “ یقیناً تم معزز و محترم ہو اور میں ذلیل و خوار”  یہ دیکھ کر حضرت بلالؓ روتے ہوۓ آئے اور حضرت ابوذرؓ سے قریب ہو کر ان کے رخسار کو چوم لیا اور بےساختہ گویا ہوۓ

اللہ پاک کی قسم !  میں اس رخسار کو کیسے روند سکتا ہوں جس نے ایک بار بھی اللہ کو سجدہ کیا ہو پھر دونوں کھڑےہو کر گلے ملے اور بہت روئے۔۔۔


اور آج  ھمارا حال یہ ھے کہ ہم ایک دوسرے کی ہزاروں بار دل آزاری کرتے ہیں  مگر کوئی یہ تک کہنے کو تیار نہیں  ھوتا کہ بھائی  مجھے معاف کر دیں” ،    

“ بہن میری معذرت قبول کر لیں “


یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم آئے دن لوگوں کے جذبات کو چھلنی کرتے رھتے ہیں مگر ہم معذرت کے الفاظ تک زبان سے ادا کرنا اپنی جھوٹی شان کے خلاف سمجھتے ھیں  اور "معاف کردیجئے" جیسے الفاظ کہتے ھوئے بھی ہمیں شرم محسوس ھوتی ہے   حالانکہ اپنی زیادتی پر  معافی مانگ لینا عمدہ ثقافت اور بہترین اخلاق ہے جب کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خود کی بےعزتی کے مترادف ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ھے ھمیں جاننا چاھیے کہ اس دنیا میں ہم سب مسافر ہیں اور سامانِ سفر نہایت ہی کم ہے اور جو تھوڑا بہت ھے کم از کم ھمیں اسےضائع ھونے سے بچانے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاھیے 

اللہ پاک ہم سب کو دنیا و آخرت میں معاف فرمائے اور ھماری غلطیوں اور نغرشوں سے  درگزر فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: