حضرت عبد اللہ اندلسی رحمہ اللہ اپنے وقت کے ایک بہت بڑے عالم اور بزرگ ھو گزرے ھیں یہ حضرت شبلی رحمہ اللہ کے مرشد تھے حضرت عبد اللہ اندلسی رحمہ اللہ حافظ القرآن اور حافظ الحدیث تھے۔ لاکھوں سالکین (تصوف میں وہ شخص جو اللہ تعالی کے قرب کا خواھشمند ھو ) ان سے وابستہ تھے اور سینکڑوں مساجد اور خانقاہیں ان کے دم قدم سے آباد تھیں۔ ہر طرف ذکر الٰہی کی رونقیں تھیں۔ آپ رحمہ اللہ ایک دفعہ مریدین کے ہمراہ عیسائیوں کی بستی سے گزر رہے تھے ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺻﻠﯿﺒﯿﮟ ﻟﭩﮏ ﺭﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ، ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ آپ رحمہ اللہ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﻮﺋﯿﮟ ﭘﺮ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﻧﮯ کے لئے ﮔﺌﮯ، ﻭﮨﺎﮞ اُن کی ایک نصرانی ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍ گئی بس پھر کیا تھا اسے دیکھتے ھی رہ گئے ،ﺷﯿﺦ رحمہ اللہ ﮐﺎ فیوض کا بھرا ھوا ﺳﯿﻨﮧ ﻭﮨﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ فورا عتابِ الہی کا شکار ھوئے اور اللہ تعالی کی عطا کی ھوئی باطنی نعمت سے یکسر محروم ھو گئے یعنی وہ دولت چھن گئی جو ان کو ملی ھوئی تھی ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ،ﺟﺎﻭٴ ﻭﺁﭘﺲ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﻭٴ، ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺪﮬﺮ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﻮﮔﯽ ، ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻭٴﮞ ﮔﺎ۔
ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﺭﻭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ!’ ﺷﯿﺦ ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﯾﮧ ﻭﮦ ﺷﯿﺦ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻻکھ ﺣﺪﯾﺜﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﺗﮭﯿﮟ، ﻗﺮﺁﻥ پاک ﮐﮯ ﺣﺎﻓﻆ ﺗﮭﮯ، ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﻣﺴﺠﺪﯾﮟ اور درسگاھیں ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻡ ﻗﺪﻡ ﺳﮯ ﺁﺑﺎﺩ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : اب ﻣﯿﺮﮮ ﭘﻠﮯ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ھے ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﻮﮞ ، ﺍﺏ ﺗﻢ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﻭٴ”- ﺷﯿﺦ رحمہ اللہ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ کون ھے اور ﮐﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ؟ لوگوں نے بتایا ﯾﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ سرﺩﺍﺭ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﮯ۔ شیخ رحمہ اللہ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﺎﮐﺮ ﻣﻠﮯ ، ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ : ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎتھ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ”: ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮨﻮ، ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﻭ، ﺟﺐ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺍﻓﻘﺖ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ، ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ۔۔ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ دو سال تک ﺳﻮﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺭﯾﻮﮌ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔ ﺷﯿﺦ رحمہ اللہ ﺍﺱ ﭘﺮﺑﮭﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﮔﺌﮯ،ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ یہ ﺧﺪﻣﺖ بھی ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ۔ ۔
شیخ رحمہ اللہ نے سالکین کو واپس رخصت کیا اور سؤر چرانے کا کام شروع کر دیا (عیسائی سور پالتے اور ان کے پاس ان کے ریوڑ ہوتے ہیں) آپ رحمہ اللہ صبح سویرے سوروں (خنزیر) کا ریوڑ چرانے کے لئے نکل جاتے اور رات گئے واپس لوٹتے۔ ﺍﺩﮬﺮ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﺟﺐ اپنے شہر ﻭﺁﭘﺲ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ وھاں ﯾﮧ افسوسناک ﺧﺒﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ حضرت رحمہ اللہ کےﮐﺌﯽ عقیدتمند ﺻﺪﻣﮧ ﺳﮯ ﺑﯿﮩﻮﺵ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ﻟﻮﮒ ﺣﯿﺮﺍﻥ و پریشان ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ‘ﺍﮮ ﺍﻟﻠّٰﮧ! ﺍﯾﺴﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ کے ساتھ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ تو عام بندے کی تو حیثیت ھی کیا ھے بہرحال شیخ رحمہ اللہ کو ایک سال اس طرح گزر گیا۔
حضرت شیخ شبلی رحمہ اللہ کے دل میں اپنے شیخ و مرشد کی سچی محبت جاگزین تھی۔ وہ جانتے تھے کہ شیخ کامل ہیں، مگر کسی سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﻮﮔﯽ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮐﺮ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻭں ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ وہ عیسائیوں کی ﺍﺱ ﺑﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﯿﺦ ﮐﺪﮬﺮ ﮨﯿﮟ؟ جواب ملا ﺗﻢ ﻓﻼﮞ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮐﺮﺩﯾﮑﮭﻮ، ﻭﮨﺎﮞ وہ ﺳﻮﺭ ﭼﺮﺍ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ ﺟﺐ حضرت شبلی رحمہ اللہ ﻭﮨﺎﮞ ﮔﺌﮯ۔ دیکھا شیخ عبداللہ اندلسی رحمہ اللہ وہی خطبہ جمعہ پڑھانے والا جبہ پہنے ہوئے، عمامہ باندھے، وہی عصا ہاتھ میں لئے ھوئے کھڑے ہیں اور سوروں کے ریوڑ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ حضرت شبلی رحمہ اللہ قریب آئے۔ سلام کیا اور خیریت دریافت کی۔ بعد میں پوچھا حضرت آپ تو حافظ القرآن تھے کیا اب بھی قرآن پاک یاد ہے؟ شیخ اندلسی رحمہ اللہ نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بتایا، بس فقط ایک آیت یاد ہے۔ وہ آیت یہ ہے۔
وَمَنْ يُّهِنِ اللّـٰهُ فَمَا لَـهٝ مِنْ مُّكْرِمٍ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَآءُ 0 ( سورہ حج)
اور جسے اللہ ذلیل کرتا ہے پھر اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا، بے شک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے
پھر پوچھا کہ حضرت آپ کو ایک لاکھ احادیث مبارکہ یاد تھیں ۔ (چونکہ آپ حافظ قرآن کے ساتھ حافظ حدیث بھی تھے) کیا اب بھی کوئی حدیث یاد ھے فرمایا بس ایک حدیث یاد ہے۔ وہ حدیث یہ ہے۔
من بدل دینہ فاقتلوہ۔
ترجمہ: جو اپنا دین بدلے اس کو قتل کردو
یہ کہنے کے بعد شیخ اندلسی رحمہ اللہ زار و قطار رونے لگے اور آسمان کے طرف دیکھ کر کہا، یا اللہ! میں آپ سے ایسا گمان تو نہیں رکھتا تھا۔
حضرت شیخ شبلی رحمہ اللہ بھی اپنے شیخ و مرشد کی یہ حالت دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر روئے۔ کافی دیر وھاں ٹھرنے کے بعد حضرت شبلی رحمہ اللہ وھاں سے پریشانی کے عالم میں واپس وطن چل پڑے۔ چلتے چلتے جب راستے میں ایک دریا کے کنارے پر پہنچے تو کیا دیکھتے ھیں کہ حضرت عبد اللہ اندلسی رحمہ اللہ تر و تازہ، مسکراتے چہرہ، طبیعت میں بشاشت خوش بخوش سامنے سے ظاہر ہوئے جو دریا میں غسل کرکے باھر نکل رھے تھے حضرت شبلی رحمہ اللہ نے جب آپ کو دیکھا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر بڑے ادب سے ان سے حالات دریافت فرمائے شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس وقت ان سالکین اور بزرگ لوگوں کی جماعت کے ہمراہ عیسائیوں کی بستی سے گزر رہا تھا۔ تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ، یہ عیسائی لوگ کیسے بیوقوف ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنا لیا ھوا ھے جبکہ ھم ایک خدا کی ھی عبادت کرتے ھیں اللہ پاک طرف سے فوراً گرفت ہوئی۔ غیب سے ایک آواز آئی، “اگر تم اسلام پر ہو تو یہ تمہارا کمال نہیں ہے، یہ ہمارا کمال ہے” ۔ بس اس کے ساتھ ہی باطنی نعمت چھن گئی۔ پھر حق تعالیٰ نے مجھے بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیا۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ وہ بات جو عامۃ الناس کے نزدیک کوئی وزن نہیں رکھتی، اس کے کرنے پر بھی خاصان خدا اور مقربین بزرگوں کی پکڑ ہو جاتی ہے۔
حضرت شبلی رحمہ اللہ اپنے پیر و مرشد کے ہمراہ واپس تشریف لائے تو رب تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہی دینی مجالس، ذکر و اذکار اور خانقاہوں کی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں۔
جیسا کہ ہر واقعہ و حکایت میں کوئی سبق اور عبرت ضرور ہوتی ہے۔ اس واقعہ میں بھی سالکین اور مسلمانوں کیلئے کئی طرح کی نصیحتیں اور سبق موجود ہیں۔
ایک سبق تو یہ ہے کہ کمالات و فیوضات و انعامات خداوندی کی کبھی اپنی طرف منسوب نہ کریں۔ بلکہ اسے ھمیشہ عطیہ خداوندی سمجھیں۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ کسی عظیم و بڑے استقامت والے شیخ و بزرگ سے اگر خلاف شرع کوئی بات سرزد ہوجائے (جیسا کہ حضرت شیخ اندلسی رحمہ اللہ سے ہوگئی) تو یہ سمجھیں کہ شیخ پر کوئی سخت آزمائش ہے۔
تیسرا سبق یہ ھے کہ اپنی کیفیت و حلاوت اور واردات (وہ حال جو آدمی پر گزرے) پر کھبی بھی فریفتہ نہ ہوں۔
چوتھا سبق یہ کہ کسی حالت میں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :-
قُلۡ يَٰعِبَادِيَ ٱلَّذِينَ أَسۡرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُواْ مِن رَّحۡمَةِ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلۡغَفُورُ ٱلرَّحِيمُO ( الزمر)
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جانا، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے
پھر ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ایک شیخ کامل سے کیسی عقیدت ہونی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت شبلی رحمہ اللہ کی اپنے شیخ سے محبت و عقیدت تھی اور ان کے لئے خدا کے حضور دعائیں مانگتے رھے یہ بھی سالکین کے لیے ایک مینارہ نور ہے۔