بابرکت رزق کے لئے بابرکت دروازے

مال و دولت کمانا انسانی فطرت میں ھے اور یہ اس کی ضرورت میں بھی شامل ھے  لیکن  کچھ لوگ جائز یا ناجائز طریقے سے مال و دولت تو بہت کما لیتے ہیں لیکن اس مال سے اُنہیں سکونِ قلب حاصل نہیں ھو پاتا۔  پھر عموماً مال کا حال یہ ھوتا ھے کہ  وہ یا تو اُن کی زندگی میں ھی ضائع ہو جاتا ہے یا پھر اُن کے مرنے کے بعد ان کے ورثاء اس کو ضائع کر دیتے ھیں۔   لیکن بہرحال اگے جا کر حساب انہیں ھی دینا ھوتا ھے ۔  کچھ لوگوں کی جمع پونجی تو گو کم ہوتی ہے، لیکن اس میں خیر و برکت کے ایسے غیبی اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے باعث رشک بن جاتی ہے۔

مال کمانے کے اسباب اختیار کرکے انسان کو رزق تو مل جاتا ھے لیکن اس رزق میں برکت کا ھونا ضروری نہیں ھے البتہ  اللہ تعالیٰ نے رزق  کے لئے اور اس میں برکت کے لئے کچھ دروازے مقرر فرمائے ہیں۔  جس نے ان دروازوں کو اختیار کر لیا ان شاء اللہ اس کے رزق میں ھمیشہ برکت رھے گی اور وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا۔

مال و دولت اور بابرکت رزق کے دروازے کن آعمال سے کھلتے ہیں؟ اور ان میں خیروبرکت کیسے پیدا ہوتی ہے؟  وہ اعمال ذیل میں پیشِ کیے جا رھے ہیں۔ 


پہلا دروازہ

 “نماز کا اھتمام کرنا”

حدیث مبارکہ کا مفہوم ھے کہ “جو لوگ پانچ وقت کی نماز کا اھتمام کرتے ھیں اللہ تعالی انہیں پانچ انعام عطا فرماتے ھیں جن میں ایک یہ ھے کہ دنیا میں اُن سے رزق کی تنگی ھٹا لی جاتی ھے” اور اس کے برعکس جو لوگ نماز اھتمام کے ساتھ نہیں پڑھتے، ان کے رزق سے برکت اٹھا لی جاتی ہے، وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان ھی رہتے ہیں۔



دوسرا دروازہ

 “توبہ و استغفار کرنا”

جن اسباب کے ذریعے اللہ تعالٰی سے رزق طلب کیا جاتا ہے' ان میں ایک اہم سبب اللہ تعالٰی کے حضور استغفار و توبہ کرنا ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کرتا ہے، اس کے رزق میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اُسے ایسی جگہ سے رزق دیتے ہیں جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ھوتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا :

ترجمہ : پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لئے باغ اور نہریں بنائے گا۔ (سورۂ نوح)



تیسرا دروازہ

 “صدقہ و خیرات کرنا “ 

صدقہ و خیرات رزق میں برکت کا بہترین ذریعہ ھے۔ حکم خداوندی ہے، تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا۔ انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا، اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا۔ غریب رشتہ دار کو صدقہ دینا دوہرے اجر کا باعث ہے،ایک صدقہ دینے اور دوسرا صلہ رحمی کا ثواب ہوگا۔


چوتھا دروازہ

 “تقویٰ اختیار کرنا”

  جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں، اللہ ان کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ھے : اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے۔اور اسے وھاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے۔


پانچواں دروازہ

 “کثرت سے نفلی عبادت کرنا”

 جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں، اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ حکم خداوندی ہے، اگر تم عبادت میں کثرت نہیں کرو گے، تو میں تمہیں دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا۔ لوگ سنتوں اور فرض پر ہی توجہ دیتے ہیں، اور نفل چھوڑ دیتے ہیں۔ جس سے رزق میں تنگی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔


چھٹا دروازہ

 “حج اور عمرہ کی کثرت کرنا”

حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہیں، جس طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی ہے۔ (ترمذی)

نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ”حج اور عمرہ کو یکے بعد دیگرے ادا کرو، اس لیے کہ انہیں باربار کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے ہی دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو“۔(ابنِ ماجہ)


 ساتواں دروازہ

 “رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا “

رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا بھی رزق میں برکت کا باعث ھے ۔ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔ حدیث شریف کی علمی تحقیق کچھ بھی ہو،  تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ وسعتِ رزق اور درازیٔ عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔


 آٹھواں دروازہ

 “کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا” 

غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں ان کے کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے اور رزق میں برکت کا بہت بڑا سبب ھے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا: یاد رکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور اُن کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘


نواں دروازہ

 “ اللہ پر توکل کرنا “

جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا، تو اسے ضرور ملے گا، اور جو شک کرے گا، وہ پریشان ہی رہے گا۔ جو اللہ پر توکل کرے گا اس کے لئے اللہ کافی ھو جائے گا ۔ اللہ تعالی کا  ارشاد ہے:  جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ اور حدیث میں یہ مضمون وارد ہے کہ ”اگر تم لوگ اللہ تعالی پر ایسا توکل رکھو جیسا کہ توکل رکھنے کا حق ہے تو حق تعالی تمہیں اس طرح روزی پہنچائے جس طرح پرندوں کو پہنچاتا ہے جو صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو سیر ہوکر لوٹتے ہیں“۔


دسواں دروازہ

 “ اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا “

 انسان جتنا  اللہ تعالی کا شکر ادا کرے گا، اللہ رزق کے دروازے کھولتا چلا جائے گا۔ قرآنِ کریم کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر انسان نعمتوں کا شکر ادا کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں اور اگر وہ نعمتوں کی ناشکری کرے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ انتہائی شدید ہے  ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ھے

ترجمہ’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔‘‘ (سورہ ابراہیم)


 گیارہواں دروازہ

 “گھر میں مسکرا کر داخل ہونا”

مسکرا کر گھر میں داخل ہونا  رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی سنت  ہے۔ حدیث میں آتا ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا اللہ تعالٰی فرماتے ہیں، کہ اُس شخص کا رزق بڑھا دوں گا، جو شخص گھر میں داخل ہو اور درود شریف پڑھ کر مسکرا کر سلام کرے۔


 بارھواں دروازہ

 “ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا”

جو شخص ماں باپ کا فرمانبردار ھوتا ھے، ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہیں ہوتا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا کہ جس کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اسکی عمر لمبی( برکت والی )کر دی جائے اور اس کے رزق میں اضافہ کر دیا جائے تو وہ والدین سے اچھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں کیساتھ صلہ رحمی کرے۔ (صحیح الترغیب والترھیب للالبانی)


تیرھواں دروازہ

 “ہر وقت باوضو رہنا”

 جو شخص ہر وقت نیک نیتی کے ساتھ  باوضو رہے گا۔ تو اس کے رزق میں بھی کمی نہیں ہوگی۔ ایک بزرگ نے ایک مرتبہ ایک مجلس میں فرمایا ۔ رزق بڑھانے کے لیے چند اعمال ہمارے مشائخ کے مجربات میں سے  ہیں۔ ان میں سے ایک ہمیشہ باوضو رہنا ھے ۔ کئی آکابرین  نے اپنی کتابوں میں یہ بات لکھی ہے کہ جب ہم نے ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق کی پریشانیوں سے محفوظ فرما دیا۔  لہٰذا ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرنی چاہیے


چودھواں دروازہ

 “چاشت کی نماز پڑھنا” 

چاشت کی نماز پڑھنے یعنی روزی کمانے کے اوقات میں سے وقت نکال کر اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے اللہ رب العزت رزق میں برکت ڈال دیتے ہیں۔ چاشت کی نماز سے رزق میں برکت بڑھتی ہے۔ حدیث میں ہے چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے، اور تنگدستی کو دور کرتی ہے۔


پندرھواں دروازہ

 “روزانہ سورة واقعة پڑھنا” 

شعب الایمان کی ایک روایت میں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے منقول ہے کہ جو شخص ہر رات سورہ واقعہ کے پڑھنے کا اہتمام کرے گا، وہ فقر و فاقہ سے محفوظ رہے گا۔نیز اس روایت کے راوی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادیوں کو روزانہ اس سورت کے پڑھنے کاحکم فرماتے تھے۔ اس سورہ کے پڑھنے سے رزق بہت بڑھتا ہے۔


 سولھواں دروازہ

 “ اللہ سے دعا مانگنا”

جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے، اللہ اس کو خواہش کے مطابق اسے عطا کرتا ہے۔  

دن رات اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے ۔(مسند ابی یعلی، مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ،)


 سترھواں دروازہ

 “صرف رزقِ حلال پر اکتفا کرنا”

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ(سورہ النساء)

اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ۔

اللہ تعالی نے برکت صرف رزقِ حلال میں رکھی ھے بے شک تھوڑا ھی کیوں نہ ھو ۔ حرام رزق سراسر دنیا وآخرت میں  تباھی کا باعث بنتا ھے چاھے کروڑوں یا اربوں میں ھی کیوں نہ ھو۔ جو شخص رزقِ حرام  سے بچے گا اللہ پاک اُس کی لئے برکت والے رزق کے دروازے کھول دیں گے ۔ 


آٹھارواں دروازہ

“اپنے مال کی زکوة ادا کرنا “

جو شخص پابندی سے ذكوة  دیتا رھتا ھے رب کریم اس کے مال میں برکت عطا فرماتے ھیں اور اس کا باقی مال بھی محفوظ، پاک اور بابرکت ہو جاتا ہے۔ زکوة دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے۔ سورۃُ الاعراف میں ہے :وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ:’’میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے ؛ اس لئے میں ان لوگوں کے لئے رحمت کا فیصلہ کروں گا ، جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ‘‘ ۔(الاعراف)


  اُنیسواں دروازہ

“اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لئے فارغ کرنا 

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: یقینا اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابن آدم اپنے کو میری عبادت کے لیے فارغ کر میں تیرے سینے کو غنا سے بھردوں گا اور تیرے فقر کو زائل کردوں گا، اور اگر تونے ایسا نہیں کیا تو میں تیرے ہاتھ کو مشغول کردوں گا اور تیرے فقر کو زائل نہ کروں گا“۔ 

حاصل بحث یہ ہے کہ دین دار لوگ فقر سے خوف زدہ نہیں ہوتے ہیں نیز ان کی غیب سے مدد بھی ہوتی ہے، اس کے برخلاف مالدار دنیار دار مستقل مشغول رہتے ہیں اور ہمیشہ ان کو فقر کا خوف دامن گیر رہتا ہے، دل ان کا غنی نہیں ہوتا۔


بیسواں دروازہ

“اللہ کی راہ میں خرچ کرنا

اللہ کی راہ میں حسب حیثیت خرچ کرنے کے عمل سے بھی رزق میں اضافہ ہوتا ہے یاور برکت ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے مال میں کوئی کمی نہیں آتی، اللہ تعالی کا فرمان ھے  ’’تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کروگے وہ اس کا بدلہ دیں گے اور وہ بہترین رزق دینے والے ہیں۔ ‘‘

 رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:’’ ہر دن جس میں لوگ صبح کرتے ہیں،دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ، ایک دعاء کرتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والوں کو بہتربدل عطا فرما۔ دوسرا دعاء کرتا ہے کہ جو نہ خرچ کرے اس کا مال تلف کر۔‘‘(صحیح بخاری)


اکیسواں دروازہ

 “ شرعی علوم کے لئے وقف لوگوں پر خرچ کرنا”


دینی طلبہ اور اداروں پر خرچ کرنا روزی میں برکت کا باعث ھے چنانچہ  نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے زمانے میں دوبھائی تھے، ان میں ایک نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں رہتا تھا اور دوسرا محنت ومزدوری کرتا تھا، محنت ومزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا

«لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ».

’’شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو‘‘۔

[سنن الترمذي]


بائیسواں دروازہ

“آخرت پر نظر ھونا “

انسان کا مقصد حیات اللہ کی عبادت کرنا اور اپنی عاقبت سنوارنا ہے اور اسی پر اس کی نظر ہونی چاہئے۔ یہ دنیا تو چند روزہ ہے اور اس کو ختم ہونا ہی ہے۔ انسان ابدی زندگی کو اپنا مطمح نظر بنائے، کیوں کہ دنیا ایسے شخص کے خود پیچھے آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس شخص کی آخرت پر نظر ہو اس کے دل کو اللہ تعالی قناعت عطا فرماتے ہیں، اس کے بکھرے ہوئے معاملات کو سمیٹ دیتے ہیں اور دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی سے مفلسی کو کھینچ لیتے ہیں۔ دنیا اس کے پاس حقیر ہوکر پیچھے آتی ہے، اس کی صبح و شام قناعت پر ہوتی ہے۔‘‘


تئیسواں دروازہ

 “نکاح کرنا “

 رزق میں اضافہ اور خوش حالی کے حصول کا ایک دروازہ  نکاح ہے۔نکاح کرنے سے دو نصیب جڑتے ہیں اور اللہ رزق میں اضافہ و برکت عطا فرماتا ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں جو صالح ہون ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا ۔ اللہ بڑی وست والا اور علیم ہے۔‘‘


چوبیسواں دروازہ 

  “ تجارت میں سچائی اختیار کرنا”

تاجر کے رزق میں برکت اور اضافہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ تجارت میں سچ بولے۔ اپنا مال جھوٹ بول کر نہ بیچے، اپنے مال کی کمزوری بتاکر بیچے۔ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرے۔سچے تاجر کیلئے قیامت کے دن انبیاء اور صدیقین کی ہمراہی کی خوش خبری دی گئی ہے۔

 رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا: ’’کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے اور اس میں جو کچھ عیب ہو اسے بیان نہ کرے اور جسے اس عیب کا علم ہو اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ اس کو بیان نہ کرے۔‘‘


پچیسواں دروازہ

  “ صبح سویرے کام پر نکلنا”

صبح سویرے کام کے لیے گھر سے نکلنے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خیر وبرکت رکھی ہے۔ رزق کے دروازے صبح اٹھ کر کوشش کرنے والوں کیلئے ہی کھلتے ہیں۔ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے دعا فرمائی کہ ’’ اے اللہ میری امت کے منہ اندھیرے نکلنے والوں کو برکت عطا فرما ۔‘‘ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   فوجی دستہ صبح سویرے روانہ فرمایا کرتے تھے۔

مندرجہ بالا بابرکت  رزق کے بابرکت دروازوں کے علاوہ آسان اور روز مرہ کی زندگی پر منحصر کچھ آعمال اور بھی ھیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:-

سلام کہہ کر گھر میں داخل ہونا، نماز کیلئے مسجد جانا، جماعت سے نماز پڑھنا، مریض کی عیادت کو جانا،  جنازے کے ساتھ جانا،  حق بات کرنا، اللہ کے راستہ میں ھجرت کرنا اور ھجرت کرنے والوں کی نصرت کرنا ، غیبت نہ کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ تیر بہدف آعمال ، قرآن و سنت اور بزرگوں کے تجربات سے ماخوذ  ہیں، اللہ تعالی ہمیں ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

Share:

 کافی دنوں سے دماغ میں یہ بات آرھی تھی کہ اپنے ماضی کے بارے میں کچھ لکھوں لیکن پھر اسے ایک فضرل سی پریکٹس سمجھ کر خاموش ھو جاتا رھا لیکن آج پھر دماغ میں یہ بات آئی کہ ھو سکتا ھے میرے بچوں کے لئے اس میں کوئی بات فائدہ مندثابت ھو جائے اب سب باتیں بھی زھن میں نہیں رھیں سخت حالات اور پردیس کے مسلسل ٹھہیروں نے اب یاد داشت بھی وہ نہیں رھنے دی جس پر کسی زمانہ میں خود مجھے بھی  فخر ھوتا تھا 

تو آئیے کوشش کرتے ھیں جو کچھ بھی ھاتھ آجائے میری پیدائش کے وقت میرے والدین لاھور کے موچی دروازہ کےمحلہ گیلانیاں میں قیام پذیر تھے وھیں پر میری پیدائش ھوئی اوروالدہ صاحبہ کے مطابق  مجھ سے پہلے میری ایک بہن دو ڈھائی سال کی عمر میں ھندوستان سے پاکستان ھجرت  کرتے وقت  فوت ھو چکی تھی پھر اُس کے دو تین  سال بعد میرے بڑے بھائی نصیر آحمد مرحوم ھمارے آبائی گاؤں بدورتہ میں پیدا ھوئے تھے ۔ اُن کے چھ یا سات سال کے بعد میری پیدائش ھوئی ۔ پہلے میرا نام سعید آحمد رکھا گیا مگر کچھ دنوں کے بعد میرے والدین ماڈرن نام کی طرف متوجہ ھوئے اور میرا نام  سعید آحمد سے تبدیل کرکے نسیم آحمد رکھ دیا گیا جو کہ میرے بڑے بھائی کے نام سے میچ کرتا تھا 

والدہ مرحومہ دیہات کے کھلے ماحول کی عادی تھیں ۔ اس لئے اُن کی طبیعت شہر کے تنگ ماحول میں اکثر خراب رھتی تھی جس میں میری پیدائش کے بعد اور بھی آضافہ ھو گیا تھا ۔ ڈاکٹروں نے اُنہیں چند ماہ کے لئے کھلی فضا میں بیجھنے کا مشورہ دیا ھمارے اکلوتے ماموں جان  اور نانی جان گوجرانوالہ کے ایک گاؤں ڈوگرانوالہ میں رھتے تھے تو ھمیں چند ماہ کے لئے وھاں بیجھ دیا گیا 

 ھم  یہاں  تین  چار ماہ رھے تو والدہ صاحبہ  کی صحت پر بہت ھی خوشگوار اثرات مرتب ھوئے ۔ والد صاحب ھمیں لینے کے لئے آئے تو اتفاق سے اس وقت ماموں کے گھر کے قریب ھی ایک گھر فروخت ھو رھا تھا ماموں  جان نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ یہ مکان خرید لیں اور بچوں کو لاھور رکھنے کی بجائے یہاں پر ھی رکھ لیں تاکہ والدہ صاحبہ کی صحت کا کوئی مسئلہ نہ ھو گو ھمارا آبائی گاؤں بدورتہ تھا جہاں ھماری زمین اور باقی خاندان تھا لیکن ماموں جان کی وجہ سے یہاں یہ مکان خرید لیا گیا اور ھم لاھور والد صاحب کے پاس رھنے  کی بجائے ماموں کے گاؤں اپنے گھر میں رھنے لگے ۔  لیکن آنے والے سالوں میں اس فیصلے کی وجہ سے ھمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا 

والد صاحب الگ معاشی دباؤ میں آ گئےکیونکہ اُس وقت ان کی تنخوٰہ چالیس روپے تھی اور یہ مکان ۵۰۰ روپے کا خریدا گیا تھا لہذا وہ قرض  تلے آگئے جو اگلے کئی سالوں تک ادا نہ ھو سکا جس کی وجہ سے گھریلو معاملات بُری طرح متاثر ھوئے ۔ بہرحال یہاں آکر میرے بعد یکے بعد دیگرے دو بہنیں پیدا ھوئیں جو بچپن میں ھی انتقال کر گئیں اور ایک بھائی سلیم آحمد پیدا ھوئے جو مجھ سے چھ سال چھوٹے ھیں 

بڑے بھائی جان  نے سکول جانا شروع کردیا ۔ وہ سکول جاتے تھے اور مجھے بھی پہلی جماعت کا نصاب گھر پر تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھاتے رھتے تھے اس طرح میں نے پہلی جماعت کا نصاب گھر پر ھی مکمل کر لیا تھا سالانہ امتحان میں ایک یا ڈیڑھ ماہ باقی رہ گیا تھا اور مجھے امتحانوں کے بعد داخل کروانے کا پروگرام تھا لیکن والدہ صاحبہ نے ماموں صاحب کو کہا کہ اسے پہلی جماعت میں بٹھانے کا کیا فائدہ وہ تو اس نے پڑھ لیا ھوا ھے آپ اس کو سکول  لے جائیں اور ماسٹر صاحب سے کہیں کہ وہ اب اس کو داخل کر لیں امتحان کے بعد دوسری جماعت میں ھو جائے گا

پہلے تو ماموں صاحب نے انکار کیا کہ ایک مہینہ صبر کر لیں پھر اس کو داخل کروا دیں گے لیکن والدہ صاحبہ کے زیادہ زور دینے پر وہ مجھے لے کر سکول چلے گئے اور اساتذہ سے بات کی اساتذہ نے بھی یہی کہا کہ ایک ماہ بعد آجانا ماموں صاحب نے کہا کہ آپ پہلے بچے کا امتحان تو لے لیں  پھر فیصلہ کر لینا سکول میں ماسٹر شبیر صاحب تھے انہوں نے میرا امتحان لیا تو بہت خوش ھوئے اور مجھے چھ آنے انعام دیا اور کہنے لگے اس وقت میری جیب میں یہی ھے ورنہ زیادہ دے دیتا ۔ماسٹر شبیر صاحب نے دیگر اساتذہ سے مشورہ کرکے اس شرط پر داخل کر لیا کہ فیسیں شروع سال سے دینی پڑیں گیں اور داخلہ فیس بھی دینی ھو گی ۔لیٹ فیس بھی دینی ھوگی۔  اس وقت ہرائمری کی ماھوار فیس چار آنے ھوا کرتی تھی اور داخلہ فیس غالبا پانچ روپے تھی تو گویا لیٹ فیس جمع کرکے یکمشت لگ بھگ گیارہ روپے ادا کرکے میرا داخلہ ھو گیا اور میں کلاس میں بیٹھ گیا اور ایک ماہ بعد دوسری جماعت میں ھو گیا ۔ گیارہ روپے کا انتظام کیسے ھوا یہ ایک الگ کہانی ھے۔ دوسری جماعت  ماسٹر شبیر صاحب کے پاس ھی تھی اور میں پڑھائی میں کافی آچھا تھا اس لئے استاد کے کافی قریب رھتا تھا 

سال کے آخر میں ماسٹر شبیر صاحب کی ٹرانسفر ھو گئی اور اُن کی جگہ ماسٹر حمید صاحب آگئے ۔ میری ایک تو عمر کم تھی دوسرا میں کافی ھلکا پھلکا تھا جس کی وجہ سے اپنی عمر سے بھی چھوٹا نظر آتا تھا انہوں نے مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ اتنا چھوٹا بچہ دوسری کلاس میں کیسے آگیا انہوں نے سکول کا ریکارڈ چیک کیا تو اُس میں بھی میری عمر مطلوبہ عمر سے کم نکلی تو وہ کہنے لگے کہ اس بچے کو ھم دوسری جماعت میں نہیں بٹھا سکتے کیونکہ اس کی عمر کم ھے لہذا اس کو پہلی جماعت میں بیجھا جائے

دوسرے اساتذہ نے میری صورت حال  اُن کو بتائی تو کہنے لگے کہ اس کی عمر کا کیا کریں؟  اگر کھبی بھی چیک ھو گیا تو پھر مسئلہ بن جائے گا لیکن جب انہوں نے میرا تعلیمی ریکارڈ دیکھا تو میں ٹاپر بچوں میں تھا ۔ اپنی تسلی کے لئے اُنہوں نے اگلے دن تمام کلاس کا ٹیسٹ لیا تو میں اُن دو بچوں میں شامل تھا جنہوں نے ٹیسٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی

ماسٹر حمید صاحب نے مجھے بلایا اور بہت پیار کیا کہنے لگے بیٹا !میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاھتا۔  آپ کل اپنے ابو کو لے کر آئیں تاکہ مسئلہ کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ میں نے عرض کیا کہ میرے ابو تو لاھور میں ھوتے ھیں البتہ یہاں میرے ماموں ھیں وہ آسکتے ھیں کہنے لگے ٹھیک ھے اُن کو لے آؤ ۔ سکول میں شور مچ گیا تھا کہ مجھے پہلی کلاس میں بیجھا جا رھا ھے اور میں رو رھا تھا

میں روتا ھوا گھر گیا اور تمام صورت حال سے والدہ صاحبہ کو اگاہ کیا انہوں نے مجھے تسلی دی اور کہا رات کو آپ کے ماموں آئیں گے تو اُن سے بات کرتی ھوں  ۔ ھمارے تمام معاملات ھمارے ماموں ھی دیکھتے تھے وہ ھر روز بلاناغہ عشاء سے پہلے یا پھر عشاء  کے بعد ھمارے گھر آیا کرتے تھے ھمیں کہانیاں  سناتے اور اہنی بہن سے خوب گپ شپ لگاتے اور چلے جاتے 

بنبننننننن



Share:

نعت شريف -جو ياد مصطفى ﷺ ســے دل كو بہلایا نهيں كرتـے



جو يادِ مصطفى ﷺ ســے دل كو بہلایا نهيں كرتـے

حقيقت ميں وه لطفِ زندگی پايا نهيں كرتــے


زبان پر شكوۂ رنج وآلم لايا نهيں كرتــے

نبى ﷺ كے نام ليوا غم سـے گھبرایا نهيں كرتــے


ارے أو ناسمجهـ قربان هو جا اًن کی عزت پر

يه لمہے زندگى ميں بار بار آيا نهيں کرتے


يه هـے دربار محمد ﷺ يہاں  آپنوں كا كيا کہنا

يهاں سے هاتھ خالى غير بھی جايا نهيں كرتے


يه دربار مصطفی ﷺ ھے یہاں ملتا هـے بن مانگے

ارے نادان يہاں دامن كو پھیلایا نہیں  كرتـے


محمد ﷺ عرش پر پہنچے تو خود خدا نـے فرمايا

يه اپنا گھر ھے اپنے گھر ميں شرمايا نهيں كرتے


گناهگاروں كو هم بخشيں گے تم سـے وعده كرتــے هيں

محمد ﷺ  ھم کھبی جھوٹی قسم اُٹھایا نهيں كرتے


جو ياد مصطفى ﷺ ســے دل كو بہلایا  نهيں كرتـے

حقيقت ميں وه لطفِ زندگی پايا نهيں كرتــے


از حضرت مولانا پیر حافظ شيخ ذوالفقار آحمد صاحب نقشبندی حفظہ اللہ 

Share:

عورت کی عبادات کی لذت شوھر کے حقوق سے مشروط ھے


اسلام سے پہلے عورت  کی کوئی اھمیت نہیں تھی بلکہ دوسری چیزوں کی طرح یہ بھی ایک طرح  کی ملکیت ھی سمجھی جاتی تھی اور معاشرے میں اس کے کوئی حقوق نہیں تھے ۔ اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان فرائض و حقوق کے اعتبار سے توازن قائم کیا اس طرح عورت کو جہاں اتنے زیادہ حقوق ملے جو اس سے پہلے کھبی نہیں ملے تھے اور نہ ھی  آج تک  کوئی مذھب  دے سکا  وھاں اس کو شوھر کے حقوق کی آدائیگی  کا بھی سختی سے پابند کیا گیا یہاں تک کہ اس کی عبادات میں ایمانی حلاوت کو شوھر کے حقوق کی آدائیگی کے ساتھ مشروط کر دیا گیا اور اُس کی نفلی عبادات میں شوھر کی آجازت اور رضامندی کو لازمی قرار دیا گیا چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ ایک خاتون نے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ شیخ محترم!  شادی سے قبل میں نماز اور روزے کی بہت پابند تھی۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں لذت محسوس کرتی تھی لیکن اب مجھے ان چیزوں میں ایمان کی وہ حلاوت نہیں مل پاتی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے پوچھا میری مسلمان بہن ! مجھے یہ بتاؤ اپنے خاوند کے حقوق ادا کرنے اور اس کی بات ماننے کا آپ کس قدر اہتمام کرتی ہیں؟ وہ سائلہ حیرت سے کہنے لگی شیخ محترم ! میں آپ سے قرآن پاک  کی تلاوت٬ نماز ، اذکار ، تسبیحات اور روزے کی پابندی اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی حلاوت کے متعلق پوچھ رہی ہوں اور آپ مجھ سے میرے شوھر کے حقوق کے متلعق استفسار کر رہے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرمانے لگے میری بہن ! بعض خواتین اس لئے ایمان کی حلاوت  اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی لذت اور عبادت کا پرلطف اثر محسوس نہیں کر پاتیں کیونکہ وہ اپنے شوھر کے حقوق اور اُس کے آداب کا خیال نہیں رکھتیں کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا فرمان ھے 

*ولا تَجدُ المرأة حلاوة الإيمان حتَّى تؤدِّي حقَّ زوجها*  

کوئی بھی عورت اس وقت تک ایمان کی حلاوت نہیں پا سکتی جب تک وہ اپنے خاوند کے حقوق کما حقہ ادا نہ کر دے 

ایک حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا’’ اگر میں کسی کو کسی مخلوق کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے‘‘ (ترمذی)۔ 

کسی مخلوق پر کسی دوسری مخلوق کا زیادہ سے زیادہ حق بیان کرنے کے لئے اس سے زیادہ بلیغ اور مؤثر کوئی دوسرا عنوان نہیں ہوسکتا جو رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اس حدیث مبارکہ میں بیوی پر شوہر کا حق بیان فرماکر اختیار فرمایا ھے ۔ اس حدیث مبارکہ کا  مدعا یہی ھے کہ شادی کی بعد عورت پر اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہوجاتا ہے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ اس کی فرمانبرداری اور رضا جوئی میں کوئی کمی نہ کرے ،اور ہمہ وقت اس کی خدمت کو عبادت سمجھے۔

حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ! خاوند کاعورت پر کیا حق ہے ‘‘ارشاد فرمایا ’’وہ بلائے تو انکار نہ کر۔ اگرچہ تجھے کتنی ہی مصروفیت کیوں نہ ہو،اور رمضان کے سوا کوئی بھی روزہ اس کی اجازت کے بغیر نہ رکھ ،اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا۔ خود بخود نکلی تو رحمت کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک کہ لوٹ کر نہ آئے‘‘حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت کعبؓ کا یہ قول سنا ہے کہ قیامت کے دن عورت سے پہلے اس کی فرض نماز کے متعلق سوال ہوگا پھر خاوند کے حقوق کے متعلق سوال ہوگا۔

رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے ایک فرمان کا مفہوم ھے کہ وہ قوم کھبی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کر دئیےلیکن  بد قسمتی سے موجودہ پر فتن دور میں گو سب عورتیں تو نہیں لیکن عورتوں کی ایک محدود  تعداد ایسی موجود ھے جن  پر ھر وقت اپنے شوھر پر چودھراھٹ قائم کرنے کا بھوت سوار رھتا ھے ۔ انہیں گھر میں مرد کی حاکمیت قبول نہیں ، گویا گھر میں یہ خود حاکم  اور شوھر کو محکوم بنا کر رکھنا چاھتی ھیں ، یہی وجہ ھے کہ ایسی عورتیں اپنے شوہر کے ساتھ بعض اوقات سخت ترین بد تمیزی کی مرتکب تک ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات شوھر کو نیچا دکھانے کے لئے  شوھر کے ناپسندیدہ لوگوں کو اپنے گھر کی راز کی باتیں بتاتی ھیں اور انہیں شوھر پر فوقیت دینا شروع کر دیتی ھیں ۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت میں تو ان کے اخلاق گویا آسمان کی بلندیوں  کو چھو رھے ھوتے ھیں لیکن بیچارے شوھر کے لئے یہ ھمیشہ مائی مصیبتے بنی رھتی ھیں ۔ موبائل فون پر دوسروں کے ساتھ تو گھنٹوں گفتگو کر لیتی ہیں لیکن شوھر کے لئے ان کے پاس چند منٹ کا بھی وقت نہیں ھوتا یا پھر اسے یہ  اپنی شان کے خلاف سمجھتی ھیں۔  ان کے نزدیک شوھر کی کوئی اھمیت ھی نہیں ھوتی  ۔ مزے داری کی بات یہ ھے کہ ان تمام باتوں کے باوجود ایسی عورتیں ھمیشہ اپنے آپ کو مظلوم اور شوھر کو ظالم بنا کر پیش کرتی رھتی ھیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ھوتی ھے  ۔ آج کل اکثرگھروں میں جو مسائل پیدا ھو رھے ھیں،  اولادیں خراب ھو رھی ھیں وہ ایسی ھی عورتوں کی اس ھٹ دھرمی کا نتیجہ ھیں ۔ 

ایسی عورتوں کی بھی آج کل کوئی کمی نہیں ھے کہ جو عبادت و ریاضت میں تو دن رات لگی رھتی ھیں لیکن شوھر کی فرمانبرداری اور اُس کے حقوق  کی ادائیگی ان کے نزدیک بہت ھی غیر اھم بلکہ فضول سا کام ھے ۔ رھی شوھر کی خدمت وہ  تو ان کے نزدیک شاید پرانے زمانے کی دقیانوسی باتیں ھیں ۔اس کے باوجود ایسی عورتیں اگر اپنے آپ کو نیک اور پرھیزگار بھی سمجھتی ھیں تو پھر اُن کی عقل پر ماتم ھی کیا جا سکتا ھے ۔ 

یاد رکھیں عورت وہی جنتی ہے جو اپنے شوہر کی عزت  اور اُس کے حقوق کی پاسداری کرتی ہے ۔ بیوی کا شوھر کو سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تابعداری میں انتہا کردے اور شوھر کی خدمت کو عبادت کا درجہ دے ۔ عورت سے  گھر ضرور  بنتے ہیں لیکن  مردوں سے گھر سنورتے ہیں اگر مرد نہ ہو تو عورت کی گھر میں کوئی وقعت نہیں۔ یقین نہ آئے تو ایسی عورتوں کو پوچھ لیں جن کے خاوند ان کی یہ مصیبتیں جھیل جھیل کر اس دنیا سے کوچ کر چکے ھیں ۔اس لیے مسلمان عورتوں  کو اپنے شوہروں کے ساتھ حسن سلوک اورحسن خلق والا رویہ رکھنا چاہیے تاکہ مرد انہیں دیکھ کر خوش ہوں۔

 اللہ پاک  تمام مسلمان عورتوں کو مردوں سے وفاداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور میاں بیوی دونوں کو اپنے فرائض اور حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،

( آمین یا رب العالمین)


Share:

گیارہ شوال تین ھجری یومِ غزوۂ اُحد ۔۔ اسلام کا دوسرا معرکہ حق و باطل

 


غزوۂ اُحد کا پسِ منظر


کعب بن اشرف کا قتل 

بدر میں مسلمانوں کی شاندار فتح کی خبر سے مدینہ کے یہود کو سخت صدمہ پہنچا ایک تو وہ تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمان قریش جیسی عظیم قوت کو شکست دے سکتے ہیں ، دوسرے انہیں مسلمانوں کی عسکری قوت کا بھی اندازہ ہو گیا تھا چنانچہ وہ پہلے سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگے ان باغیانہ سرگرمیوں کا سرغنہ یہود کا ایک سردار کعب بن اشرف تھا ۔وہ مسلمان عورتوں کے فرضی عشقیہ قصے بیان کرتا اور اپنے شعروں میں حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی ہجو یعنی برائی بیان کرتا ۔قریش کی شکست کی خبر سن کر اس سے رہا نہ گیا وہ بدر کے مقتولین کے افسوس کے لئے مکہ مکرمہ گیا ان کے مرثیے کہے پھر مختلف قبائل کا دورہ کرکے مسلمانوں سے بدلہ لینے پر اکسایا ۔چنانچہ حضور آکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے اس سازشی کی نیت کو بھانپتے ہوئے اس کا خاتمہ ضروری سمجھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ایک صحابی محمد بن مسلم رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ایک چھوٹی سی چھاپا مار جماعت کو اس کے خلاف بھیجا ۔انہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کر دیا اس سے یہود میں خوف پھیل گیا اور انہوں نے تحریری طور پر عہد کیا کہ آئندہ ایسی حرکتوں اور باغیانہ سرگرمیوں سے باز رہیں گے ۔


قریشِ مکہ کی تیاریاں

قریش مکہ کو شکست ہوئی تو بدلہ لینے کے لیے فیصلہ کن اور منظم جنگ کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہو گئے، افرادی اور معاشی قوت کو جمع کرنے کے لیے مسلسل محنت شروع کر دی۔بدر میں مسلمان جس قافلے کے لیے نکلے تھے وہ ابوسفیان کی معیت میں بچ نکلا اور مکہ پہنچ گیا یہ قافلہ جو مال تجارت لے کر آیا تھا قریش مکہ کو اس میں بہت نفع ہوا انہوں نے اس بات پر مشورہ کیا کہ جتنا نفع ہوگا وہ سب اس جنگ میں لگائیں گے۔مشورہ کی مخصوص جگہ ”دارالندوہ“ میں اجلاس ہوا اور یہ طے ہوا کہ ارد گرد کے قبائل کو ساتھ ملایا جائے تاکہ فیصلہ کن جنگ ہو،خوب تیاری کی گئی۔ 3000 افراد پر مشتمل لشکر تیار ہوا جن میں سات سو زرہ پوش (جنگی لباس جو لوہے کا بنا ہوا ہوتا ہے) 3000 اونٹ، 200 گھوڑے شامل تھے۔ قریش اپنے ساتھ 15 خواتین بھی لائے تھے اور ان کو لانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ عورتیں جنگی اشعار پڑھ کر اپنے نوجوانوں کو جنگ کے لیے بھڑکائیں گی۔کچھ اونٹ کھانے کے لیے کچھ باربرداری کے لیے جبکہ کچھ اونٹ اس نیت سے لائے تھے کہ واپسی پر مسلمانوں کے ا موال چھین کر ان پر لاد کر لے جائیں گے۔ 5 شوال المکرم کو قریشی لوگ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔


حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قاصد

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مکہ میں موجود تھے، انہوں نے ایک تیز رفتار قاصد کو خط دے کر بھیجا کہ وہ جلدی پہنچ کر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کو کفار کے عزائم سے آگاہ کرے،وہ قاصد خفیہ راستوں سے ہوتا ہوا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس مدینہ منورہ پہنچا۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے لشکر قریش کے حالات معلوم کرنے کے لیے دو انصاری صحابی حضرت انس اور حضرت مونس رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور ان کے ساتھ حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو لشکر کے افراد کی تعداد معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے واپس آ کر اطلاع دی کہ ان کی تعداد 3ہزار کے لگ بھگ ہے۔


رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا خواب مبارک

دوسرے دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنا ایک خواب سنایا کہ ایک مضبوط قلعہ ہے، اس میں ایک گائے ہے، میرے ہاتھ میں تلوار ہے، میں نے اپنی تلوار کو ہلایا تو اس کا آگے کا حصہ ٹوٹ گیا،پھر میں نے دوبارہ ہلایا تو وہ صحت مند اور اچھی بھلی ہو گئی۔


رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے خواب کی تعبیر

پھر رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے اپنے اس خواب کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ قلعہ سے مراد مدینہ ہے، گائے سے مراد مسلمانوں کا لشکر ہے اس کے ایک حصہ گرنے سے مراد مسلمانوں کی شہادت ہے۔تلوار کا ہلنا جنگ سے کنایہ ہے۔ اگلے حصے کا گرنا اس سے مراد جنگ کے حالات خراب ہونا/نقصان ہونا ہے،پھر گائے کا ٹھیک ہونا اس سے مراد ہے جنگ کے حالات کا دوبارہ ٹھیک ہوناہے


قریش کی تجارتی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش

چونکہ قریش کی معیشت کا انحصار شام وعراق کی تجارت پر تھا بدر کی فتح کے بعد مسلمانوں نے شام اور مکہ کی قدیم تجارتی شاہراہ قریش بند کر دی تو انہیں مجبور عراق کی طرف رخ کرلیا۔ان کا ایک قافلہ بھاری مال و تجارت لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے بر وقت اس قافلے کی اطلاع مل گئی ۔قریش کو معاشی محاذ پر زک پہنچانے کا یہ بہت اچھا موقعہ تھا جس سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ایک دستہ نے کفار کے لاکھوں روپے کے سامان پر قبضہ کرلیا اس کاروان تجارت کے لٹ جانے کے بعد قریش پر شام و عراق کی دونوں شاہراہیں بند ہوگئیں چنانچہ معاشی بدحالی سے بچنے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں تیز کردیں ۔

عرب کی بیرونی اور اندرونی تجارت پر قریش مکہ کی اجارہ داری تھی جو ان کی خوشحالی کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھی مسلمانوں نے ان کی تجارتی شاہراہوں کی ناکہ بندی کرکے ان کی تجارتی اجارہ داری ختم کر دی اور دوسرے ان کی جگہ خود لے لی ۔اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ قریش کی جنگ کی تیاریوں کے لئے مال کی ضرورت تھی اور اس طرح ان کے وسائل محدود ہوگئے ۔



غزوۂ اُحد کے اسباب و وجوہات


1- جنگ بدر کے لیے محض عمر بن حضرمی کے قتل کو بہانہ بنایا گیا تھا لیکن میدان میں بڑے بڑے سردار مثلا ابوجہل ولید،عتبہ ،شیبہ وغیرہ مارے گئے تھے اب مکے کے نئے سردار ابوسفیان نے ان کا بدلہ لینے کے لیے جنگ کی تیاری شروع کر دی مکہ کے نئےسردار ابوسفیان نے بدر کے مقتولین کا بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی شام سے آنے والے قافلے کا تمام سرمایہ جنگی تیاریوں کے لیے وقف کر دیا ۔شاعروں نے جذبات بھڑکانے والی نظمیں کہیں اور عورتوں نے طعنے دیے اس طرح ایک سال میں تین ہزار آدمیوں کی فوج لڑائی کے لیے تیار ہوگئی ۔


2-شام کی تجارتی شاہراہ جس پر مکے کی معیشت کا انحصار تھا اسے محفوظ کرنے کے لیے مدینہ کی حکومت کا خاتمہ ضروری سمجھا۔


3-مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قریش کو تمام قبائل عرب پر خاص امتیاز حاصل تھا بدر کی شکست نے قریش کی شہرت کو بہت نقصان پہنچایا ۔اور قبائل عرب میں ان کی اہمیت کم ہو گی اس بات کا تقاضا تھا کہ اس کا بدلہ لے کر اپنے گرتے ہوئے وقار کو سنبھالا جائے ۔



میدانِ جنگ کے بارے مشاورت

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا کہ مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے یا مدینہ کے اندر رہ کر؟بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مقابلہ کیا جائے جبکہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم(اکثر وہ حضرات تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے)کی رائے یہ تھی کہ باہر نکل کر جنگ لڑی جائے۔ مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے سے کفار قریش ہمیں کمزور سمجھیں گے۔اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہی خواہش تھی، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھائی:اس اللہ کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی، میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مدینہ سے باہر نکل کر ان کو مار نہ ڈالوں۔


منافقین کی رائے

اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَیّ ابن سلول بھی اپنے ساتھ 300 افراد لے کر اپنے غلط مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوا۔ اس کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر جنگ کی جائے کیونکہ یہ مدینہ کی تاریخ ہے کہ مدینہ کے رہنے والوں نے جب بھی اندر رہ کر جنگ لڑی ہے ان کو فتح ملی ہے۔



غزوہ اُحد کے واقعات اور تفصیل


جمعہ کے دن شوال 3ھ کو کفارِ مکہ کا لشکر مدینہ کے قریب وادی قناۃ پہنچ گیا۔ کچھ مسلمانوں کا خیال تھا کہ مدینہ کے اندر رہ کر کفار کا مقابلہ کیا جائے لیکن حضرت حمزہؓ جیسے صحابہ اس بات پر مُصر تھے کہ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں کفار سے لڑائی کی جائے



اُحد کی طرف روانگی

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے جمعہ کے دن عصر کے بعد فیصلہ فرمایا کہ مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  گھر تشریف لے گئے اور جنگ کی تیاری فرمائی چنانچہ1000 کا لشکر نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی قیادت میں مدینہ سے اُحُد کی طرف نکلا۔ جس میں صرف2گھوڑے تھے، ایک نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس جبکہ دوسرا حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ کا قائم مقام حاکم بنایا۔لشکر ِاسلام مغرب سے پہلے مدینہ منورہ  سے نکلا اور شیخین کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔


رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کی غداری

اس موقع پر عبداللہ بن اُبَیّ منافق اپنے ساتھ 300 افراد لے کر یہ کہتے ہوئے واپس چلا گیا کہ جنگ ہمارے مشورے کے مطابق نہیں ہے، اس لیے ہم اس میں اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے۔


صف بندی اور دو بدو لڑائی

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے صف بندی فرمائی۔سامنے مدینہ منورہ پشت کی جانب اُحُد پہاڑ تھا، محفوظ طریقہ پر صفیں بنائی گئیں۔ مشرکین کی طرف سے سب سے پہلے مبارزت(میدان میں مقابلے کے لیے اپنے فریق کو للکار کرلڑنے کی دعوت دینا)کرتے ہوئے میدان میں طلحہ بن ابی طلحہ اترا،مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اس کو قتل کیا، اس کے بعد عثمان بن ابی طلحہ میدان میں آیا تو اس کے مقابلے میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اسے قتل کیا پھر ابو سعد بن ابی طلحہ آیا تو اس کے مقابلے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اسے قتل کر دیاپھر اس کے بعد عمومی جنگ شروع ہوئی اور افراتفری مچ گئی۔


جبلِ رماۃ پر مقرر دستہ

اُحدپہاڑ کی ایک طرف دَرَّہ ہے جو جبلِ رماۃ کے نام سے معروف ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ پچاس تیر اندازوں کو مقرر فرمایا اور تاکید کی کہ جب تک میرا حکم نہ ہو آپ لوگوں نے یہاں سے ہٹنا نہیں، چاہے فتح ہو یا شکست۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی جانثاری اور جوانمردی کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے اور مشرکین بھاگنے پر مجبور ہوگئے کچھ مسلمان ان کو بھگا رہے تھے اور کچھ مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے۔دَرَّہ پر مقرر تیر انداز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر نیچے اتر کر اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر غنیمت اکٹھی کرنے لگے۔ دوسری طرف خالد بن ولید جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے درہ خالی دیکھا اور اچانک حملہ کردیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درّے سے نیچے اُترنے کی وجوھات 

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا حکم تھا کہ جب تک میں نہ کہوں آپ نے یہاں سے نہیں ہلنا چاہے، فتح ہو یا شکست۔اس کے باوجود وہ نیچے کیوں اترے؟ پہلی بات یہ ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتہاد تھا اور اس میں خطا سرزد ہوگئی۔ اللہ رب العزت نے ان کی اس اجتہادی خطا کو معاف فرما دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ان پر اعتراض کریں۔قرآن کریم میں ہے 

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ۙ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۵۵}

جو لوگ تم میں سے احد کے دن جبکہ مومنوں اور کافروں کی دو جماعتیں ایک دوسرے سے گتھ گئیں جنگ سے بھاگ گئے تو ان کے بعض افعال کے سبب شیطان نے ان کو پھسلا دیا تھا۔ مگر اللہ نے ان کا قصور معاف کر دیا۔ بیشک اللہ بخشنے والا ہے بردبار ہے

( (سورۃ آل عمران)) 

ہمارا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین محفوظ ہیں۔ محفوظ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے بشری تقاضوں کے مطابق کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کے ذمے میں وہ گناہ باقی نہیں رہنے دیتے یعنی دنیا میں اس گناہ سے معافی اور اس گناہ کی وجہ سے ملنے والے اُخروی عذاب سے ان کو محفوظ فرما لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے معاف فرما دینے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر الزام درست نہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگ کی ابتداء سے مورچے پرمامور تھے، انہیں میدان میں اتر کر لڑائی کا موقع ہی نہ ملا، اگرچہ مورچہ سنبھالنے کا اور پہرے کا ثواب ملا ہے لیکن انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں میدان میں اتر کر بہادری کے ساتھ لڑنے اور کفار کو بھگانے والی شجاعت کا ثواب نہیں مل رہا۔ اب جب انہیں دشمن کے بھاگ جانے کا اور لشکر اسلام کے فتح یاب ہونے کا یقین ہوا تو وہ نیچے اتر آئے تاکہ دونوں اجر حاصل کر سکیں۔ مورچہ پر پہرے دینے والا بھی اور میدان میں جہاد و قتال کرنے والا بھی۔ جب کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس مبارک جذبے کے تحت درے سے نیچے اترے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا، اس بابرکت کام میں ان کی مدد کرنے لگے۔اس وجہ سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید درست نہیں۔


صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم  سے اللہ تعالی کی بے پناہ محبت

صحابہ کرام  قُربِ خدا اور قُربِ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کےاس مقام پر فائز تھے کہ جہاں ان کی صورتاً لغزش پر بھی محبوبانہ عتاب نازل ہوا۔ لیکن جہاں یہ محبوبانہ عتاب نازل ہوا اسی کے متصل بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کا اعلان بھی کر دیا اور محبت کی شدت اور انتہاء کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ تسلی پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ فوراً ساتھ دوسری مرتبہ بھی ازراہ شفقت مزید فرمایا کہ بخش دیا ہے۔ اور یہ وہاں ہوتا ہے جہاں محبت بہت زیادہ ہو تاکہ کمال محبت کا اظہار ہو جائے۔یہ واقعہ تکوینی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کرایا گیا تاکہ خدا تعالیٰ کی ان سے محبت سب کے سامنے آشکار ہو سکے،ان سے محبت خداوندی کا اظہار ان کے لیے اعزاز ہے، ان پر الزام نہیں۔



جنگ میں افراتفری کی کیفیت 

خالد بن ولید جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے شدید حملہ کر دیا جس کے بعد مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ صرف دس افراد درہ پر باقی بچے تھے اور گیارہویں حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ تھے سب شہید ہو گئے۔ اب جیتی ہوئی جنگ بظاہر ہاتھ سے نکل گئی۔اس افراتفری کی شدید کیفیت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی حفاظت کے لیے چند مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے۔


حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب بھی اس جنگ میں شریک تھے،آپ کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اَسَدُ اللہِ وَاَسَدُ رَسُوْلِہ(یعنی اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا شیر)قرار دیا تھا۔

غزوہ بدر میں جبیر بن مطعم کے چچا طُعَیْمہ بن عدی کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا جبیر کو اس کا بہت صدمہ تھا۔ انتقام کے طور پر جبیر نے اپنے غلام وحشی بن حرب سے کہا کہ اگر تو میرے چچا کے قاتل حمزہ (رضی اللہ عنہ)کو قتل کرے تو تو آزاد ہے چنانچہ جب کفارقریش غزوہ احد کے لیے مکہ سے روانہ ہوئے تو وحشی بھی ان کے ہمراہ چل پڑے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جنگ اُحد میں بڑی جوانمردی سے لڑ رہے تھے، جب جنگ اُحد شروع ہوئی تو کفار کی طرف سے سباع بن عبدالعزیٰ میدان میں للکارتا ہوا آیا تو اس کے مقابلہ کے لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے اترے۔ اے سباع!اے عورتوں کے ختنے کرنے والی عورت کے بیٹے! تو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  سے مقابلہ کرے گا پھر اس پر تلوار سے وار کیا اور ایک ہی وار سے اسے واصل جہنم کردیا۔ وحشی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی تاک میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس کے قریب سے گزرے تو اس نے پیچھے کی طرف سے حملہ کردیا اور نیزہ مارا جو کہ ناف کی طرف سے پار ہو گیا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس حملے کی شدت کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر بعد شہید ہوگئے۔

جنگ بدر میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ کا باپ عتبہ اور چچا شیبہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور اس کے بھائی ولید کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا اس لیے وہ انتقام کی آگ میں جل رہی تھی اس نے حبشی غلام وحشی کو انعام کا لالچ دے کر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرنے پر آمادہ کر لیا ۔وہ نیزہ پھینکنے میں بہت ماہر تھا اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کردیا ۔ہندہ نے جوشِ انتقام میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکال کر دانتوں تلے چبا ڈالا ۔ 


رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے دندان مبارک شہید

عُتبہ بن ابی وقاص جو کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے۔ انہوں نے اس افرا تفری کی حالت میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر حملہ کردیا اور پتھر پھینکا جس سے آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے دندان مبارک شہید اور نچلا ہونٹ مبارک زخمی ہو گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جتنا حریص اپنے بھائی کے قتل کا ہوں اتنا کسی کے قتل کا نہیں۔


رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے رخسار مبارک اور سر مبارک زخمی

عبداللہ بن قَمِءَہ نے بھی رحمتِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر حملہ کیا یہ قریش کا مشہور پہلوان تھا اس نے اتنی شدت سے حملہ کیا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے رُخسار مبارک زخمی ہوگئے اور خَود(لوہے کی بنی ہوئی جنگی ٹوپی) کے دو حلقے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کے مبارک چہرے میں گھس گئے۔عبد اللہ بن شہاب (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) نے پتھر مارا جس سے پیشانی مبارک زخمی ہوئی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے زخموں سے خون بہنے لگا جس کو حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ(جو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے والد ہیں) نے چوس کر نگل لیا۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے فرمایا:جس کے خون میں میرا خون بھی شامل ہو جائے اس پر جہنم کی آگ اثر نہیں کرے گی۔


تیر چلاؤ!میرے ماں باپ آپ پر قربان

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ اُحُد کے دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر ان کو دیے اور فرمایا: تیر چلاؤ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔اس دن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے۔


ابی بن خلف کا قتل

دشمنِ اسلام ابی بن خلف جس نے ایک گھوڑا اس نیت سے پالا تھا کہ اس پر سوار ہو کر حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کو قتل کروں گا (نعوذ باللہ) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو اس بات کی خبر پہنچی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا اس کو میں ہی قتل کروں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ احد والے دن جنگ کے دوران آمناسامنا ہوا تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنے پاس کھڑے ایک صحابی سے نیزہ لیا اور اس کی گردن پر دے مارا جس سے وہ چیختا چلاتا وہاں سے دوڑا اور وہ دوڑتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے مجھے قتل کر ڈالا ہے۔ اس کے ساتھیوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اتنا معمولی سا زخم ہے اس پر اتنا چیخ رہا ہے، یہ کوئی اتنا بڑا اور گہرا زخم بھی نہیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے مکہ میں کہا تھا کہ میں تجھے قتل کروں گا اور اللہ کی قسم اگر یہ تکلیف تمام عرب میں تقسیم کر دی جائے تو سب لوگ مر جائیں گے مقام سَرِف میں اسی تکلیف سے مر گیا۔ دنیا کے دو انسان سب سے زیادہ بد بخت اور بد نصیب ہیں ایک وہ جوکسی نبی کو شہید کرے،دوسرا وہ جسے نبی اپنے ہاتھوں سے قتل کرے۔

اس غزوہ میں ابتداً مسلمان فاتح ہوگئے اور پھر درمیان میں کچھ نقصان ہوا، اس کے بعد اللہ تعالی نے فضل فرمایا اور مسلمان سنبھل گئے مزید نقصان نہ ہوا۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عقیدت، محبت اور ان کی اطاعت نصیب فرمائے۔( آمین )اگرچہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی ان کے پاس ہتھیار بھی کافی نہ تھے لیکن جوشِ ایمانی سے انہوں نے ایسے جنگ کی کہ کفار کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان سے بھاگ نکلے ۔اس پر مسلمانوں نے ان کا پیچھا کرنے کی بجائے غنیمت کا مال جمع کرنا شروع کر دیا۔ درے پرجن پچاس صہابہ کرام  کو آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے مقررکیا تھا وہ بھی مال غنیمت جمع کرنے میں شریک ہوگئے ان کے سردار نے کافی سمجھایا کہ حضور آکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے حکم کے بغیر کسی حال میں تم اس جگہ سے نہیں ہٹ سکتے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی ۔خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے درے کو خالی دیکھا تو اپنے سو سواروں کو ساتھ لے کر پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اب سامنے سے بھی دشمن پلٹ آیا اور مسلمانوں کو اچانک آگے پیچھے دونوں طرف سے دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا ۔اس بدحواسی میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی آپ کفار کا سارا زور حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی جانب تھا کہ کس طرح سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو شہید کرتے ہیں ۔اس پر صحابہ کرام کی ایک بہادر جماعت نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو گھیرے میں لے لیا اسی اثناء میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوگئے چونکہ ان کی صورت حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   سے کافی ملتی تھی ۔اس لیے کفار نے شور مچادیا کہ نعوذباللہ حضور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  شہید ہو گئے اس پر مسلمانوں نے شدت سے جنگ شروع کر دی کہ حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے ۔اسی دوران ایک صحابی کی نظر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر پڑی اس نے دوسروں کو آگاہ کیا کہ حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ہم میں موجود ہیں اس پر کچھ اور لوگ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے گرد جمع ہوئے ۔کفار ہر طرف سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  پر حملہ کر رہے تھے لیکن جانثار صحابہ ہر وار کو اپنے اوپر برداشت کرتے۔ اسی اثناء میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کا چہرہ مبارک زخمی ہوا دو دندان مبارک شہید ہو گئے اور خود کی کڑیاں چہرے میں چبھ گئیں لیکن اس حالت میں بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   کی زبان مبارک پر جو الفاظ تھے وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی وسعت قلبی کی واضح دلیل ہیں :


" اے خدا میری قوم  کو معاف فرما وہ نادان ہے اور نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں "


چند جانثار صحابہ کرام آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے کفار نے پیچھا کرنا چاہا لیکن پتھر برسا کر ان کا حملہ پسپا کر دیا گیا اس پر ابو سفیان ایک پہاڑی پر چڑھ کر دیوتا کے نعرے لگانے لگا جواب میں مسلمانوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے 



غزوۂ اُحد میں صحابیات کا کردار 

جنگ احد میں مسلمان خواتین نے جن میں امِ سلیط، امِ سلیم، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھما شامل تھیں۔  زخمیوں کو پانی پلانے کی خدمات سرانجام دیں ۔کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  زخمی ہوگئے تھے اس لئے آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا میدان میں پہنچ گئی اور آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے زخموں کو دھو کر ان پر چٹائی کا ٹکڑا جلا کر رکھا اس پر پٹی باندھی جس سے خون بہنا بند ہو گیا اسی طرح ایک انصاری خاتون کو یکے بعد دیگرے ان کے باپ، بھائی اور شوہر کی شہادت کی خبر ملی لیکن وہ حضور پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے بارے میں پوچھتی تھیں جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو سلامت دیکھا تو کہا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  خیریت سے ہیں تو پھر سب کی تکلیفیں ہیچ ہیں ۔

اس جنگ میں 70  صہابہ کرام  شہید ہوئے جن میں حضور پاک  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے جبکہ کفار کے ۳۷ آدمی مارے گئے ۔


شہداءِ  غزوہ اُحد

ابو ایمن

ابو حبہ انصاری

ابو سفیان بن حارث بن قیس

ابو ہبیرہ بن حارث

اصيرم

انس بن نضر

انیس بن قتادہ

اوس بن ارقم

اوس بن ثابت

ایاس بن اوس

ایاس بن عدی

ثابت بن عمرو انصاری

ثابت بن وقش

ثعلبہ بن ساعدہ

ثعلبہ بن سعد

ثقب بن فروہ

حارث بن انس بن مالک

حارث بن اوس بن معاذ

حارث بن ثابت

حارث بن عدی

حارث بن عقبہ

حباب بن قیظی

حبیب بن زید

حسیل بن جابر

حمزہ بن عبد المطلب

حنظلہ بن ابی عامر

خارجہ بن زید بن ابی زہیر

خداش بن قتادہ

خلاد بن عمرو بن الجموح

خنیس بن حذافہ

خیثمہ بن الحارث

ذکوان بن عبد قیس

رافع بن مالک

رفاعہ بن عمرو

رفاعہ بن وقش

سبیع بن حاطب

سعد بن ربیع

سعید بن سوید

سلمہ بن ثابت

سلیم بن عمرو

سہل بن قیس

شماس بن عثمان

صیفی بن قیظی

ضمرہ بن عمرو

عامر بن مخلد

عباد بن سہل

عبادہ بن خشخاش

عباس بن عبادہ

عبد اللہ بن جبیر

عبد اللہ بن جحش

عبد اللہ بن سلمہ

عبد اللہ بن عمرو بن حرام

عبد اللہ بن عمرو بن وہب

عبید بن تیہان

عبید بن معلی

عتبہ بن ربیع

عمارہ بن زیاد

عمرو بن جموح

عمرو بن قیس

عمرو بن مطرف

عمرو بن معاذ

عمروبن ایاس انصاری

عنترہ مولی سلیم بن عمرو

قیس بن عمرو

قیس بن مخلد

مالک بن ایاس

مالک بن سنان

مالک بن نمیلہ

مجذر بن زیاد

مصعب بن عمیر

نعمان بن عبد عمرو

نعمان بن مالک

نوفل بن ثعلبہ

وہب بن قابوس

کیسان انصاری

یزید بن حاطب

قیس بن زید

مالک بن امہ 

رضی اللہ تعالی عنھمُ


شھداءِ اُحد کی نمازِ جنازہ اور تدفین 

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن شہداء رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کے پاس لائے گئے، تو آپ دس دس آدمیوں پر نماز جنازہ پڑھنے لگے، اور حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش اسی طرح رکھی رہی اور باقی لاشیں نماز جنازہ کے بعد لوگ اٹھا کر لے جاتے رہے، لیکن حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش جیسی تھی ویسی ہی رکھی رہی۔ [سنن ابن ماجه]

چند اہل مدینہ اپنے شہداء کو میدانِ جنگ سے مدینہ شہر لے آئے مگر حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے حکم دیا کہ شہداء  کو ان کے مقامِ شہادت پر ہی دفن کیا جائے۔ لہٰذا حضرت حمزہؓ کی قبر کے احاطے میں حضرت مصعب بن عمیرؓ (مسلمانوں کے پہلے سفیر)، حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور حضرت شماس بن عثمانؓ کو دفن کیا گیا۔ مہاجرین میں سے یہ چار صحابہ شہادت کے رتبے سے ہمکنار ہوئے باقی 66 شہداء کا تعلق انصار سے تھا جن کی قبریں  الگ ہیں۔روایت ہے کہ حضرت حمزہؓ کی قبر کی زیارت کے لیے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کبھی کبھی تشریف لے جایا کرتے اور وہاں سب شہداء کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے۔ 



Share:

میزبانِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی تاریخی حیثیت


ھجرت کے بعد  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے جس مکان میں نزول فرمایا یہ مکان بھی اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتا ھے ۔ درآصل یہ مکان یمن کے ایک بادشاہ تبع حمیری نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی آمد سے ایک ھزار سال پہلے بنوایا تھا گویا مدینہ منورہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے کسی اور کے گھر میں نہیں بلکہ اپنے ھی گھر میں نزول فرمایا تھا یہ مکان چونکہ اس وقت حضرت ابو آیوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں تھا اور وھی اس گھر میں اپنے خاندان کے ساتھ  رہائش پذیر تھے  اس لئے انہیں میزبانِ رسول کہا جاتا ھے ۔  یمن کے اس بادشاہ کا بہت دلچسپ اور سبق آموز قصہ روایت کیا گیا ھے جو درج ذیل ھے : -


یمن کے بادشاہ تُبّع حمیری کا قصہ

حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ بہت حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے “بیت اللہ “ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا کافی علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر بیت اللہ کے متعلق کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف پر ریشمی غلاف چڑھایا جو خانہ کعبہ پر چڑھایا جانے  والا پہلا غلاف تھا ۔  اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔ 

پھر یہ بادشاہ یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہی علماء نے جو کتبِ سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے کتابوں میں پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائیں گے تو ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ھو گی۔ 

یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے لئے یہاں پر چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس ھی حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کے لئے ایک دو منزلہ بہت ھی  عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  مدینہ منورہ تشریف لائیں  تو یہی مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ کر دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے رخصت ھو گیا ۔ 

وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی خدمت اقدس میں  ایک ہزار سال بعد پیش ہوا۔  کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟ پڑھیے اور عظمتِ حضورآکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی شان دیکھئے:


کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے 

شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  طرف 

 اما بعد: 

اے اللہ کے حبیب  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) ! میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) پرایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کے  ساتھ آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ  (صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ) اس کے سچے رسول ہیں۔“

شاہ یمن نے یہ خط اشعار کی شکل میں لکھا تھا جس کے عربی الفاظ مندرجہ ذیل ھیں 


شاہ تبع کے اشعار

شهدت على أحمد أنه رسول

شهدت على أحمد أنه رسول

من الله بارئ النسمْ

فلو مد عمري إلى عمرہ

لكنت وزيرا له وابن عمْ

وجاهدت بالسيف أعداءه

وفرجت عن صدره كل غمْ


شاہ یمن نے یہ خط لکھ کر اس پر اپنی مہر بھی لگائی تھی اور شاہ کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں رکھا اور جب حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع حمیری نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی کے سامنے  حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم  کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا کہ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم کو شاہ یمن تبع حمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے  انہیں دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ حیران ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے فرمایا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ خط دیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآصحابہ وسلم نے سن  کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔ سبحان اللہ!) 

(میزان الادیان، تاریخ ابن عساکر)


Share:

لیلۃ الجائزۃ (چاند رات ) - بخشش و مغفرت اور انعام کی رات

وَلَا تَكُـوْنُـوْا كَالَّتِىْ نَقَضَتْ غَزْلَـهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ۖ     (92

اور اس عورت جیسے نہ بنو جو اپنا سوت محنت کے بعد کات کر توڑ ڈالے،     (سورۃ النحل)


لیلة الجائزہ یعنی عید الفطر کی رات (چاند  رات )کی فضیلت بلا شبہ احادیث مبارکہ و اقوال سلف  میں مذکور ہے،اور فقہائےاسلام و محدثینِ ملت نے  اس رات میں عبادت کرنے کو مستحب قرار دیا ہے ، اور اسی پر احناف کا عمل ہے،تاہم اس رات میں کوئی بھی اجتماعی عمل ثابت نہیں ہے لہذا ھمیں صرف انفرادی عبادات میں ھی مشغول ھونا چاھیے۔

اللہ تعالیٰ اس رات میں روزہ داروں کو انعام و اکرام  سے نوازتے ہیں، اس بابرکت رات میں بندوں کی مغفرت کے فیصلے ہوتے ہیں، اس لیے اس رات کو عبادت میں گزارنا چاہیے. تلاوت ، نماز ، دعاء و مناجات میں مشغول رہنا چاہیے۔ اپنی اور اپنے مرحومین کی بخشش مانگنی چاہیے۔ اس لیے اسےکھیل تماشے اور بازاروں میں گھومنے، لغویات اور فضول کاموں میں مشغول رہ کر برباد نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کس قدر بیوقوفی اور نادانی کی بات ہے کہ سارا مہینہ تو مزدوری کی جائےاور جب اجرت اور مزدوری لینے کا وقت آئے تو انسان اپنے مالک کی نافرمانیوں میں لگ جائے۔ گناہوں میں مبتلا ہو جائے۔ ظاھر ھے یہ تو درحقیقت اپنی محنت کو ضائع کرنے والی بات ہے۔

یہ ایسی مبارک رات ہے اگر کوئی شخص اس میں اللہ کی عبادت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرماتے ہیں۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ ھے ۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ۔  سنن ابن ماجہ،

 حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے فرمایا: جو شخص نے دونوں عیدوں (عید الفطر اور عید الا ضحیٰ) کی راتوں میں ثواب کا یقین رکھتے ہوئے عبادت میں مشغول رہا تو اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے ۔ 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاأَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: فَإِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ الْفِطْرِ سُمِّيَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةُلَيْلَةَ الْجَائِزَةِ، فَإِذَا كَانَتْ غَدَاةُ الْفِطْرِ بَعَثَ اللَّهُ الْمَلَائِكَةَ فِي كُلِّ بِلَادٍ فَيَهْبِطُونَ الْأَرْضَ، فَيَقُومُونَ عَلَى أَفْوَاهِ السِّكَكِ، فَيُنَادُونَ بِصَوْتٍ يُسْمِعَ مَنْ خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا الْجِنَّ وَالْإِنْسَ فَيَقُولُونَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ اخْرُجُوا إِلَى رَبِّكُمْ رَبٍّ كَرِيمٍ يُعْطِي الْجَزِيلَ وَيَعْفُو عَنِ الذَّنْبِ الْعَظِيمِ فَإِذَا بَرَزُوا إِلَى مُصَلَّاهُمْ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِلْمَلَائِكَةِ مَا جَزَاءُ الْأَجِيرِ إِذَا عَمِلَ عَمَلَهُ؟ قَالَ فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ إِلَهَنَا وَسَيِّدَنَا جَزَاؤُهُ أَنْ تُوَفِّيَهُ أَجْرَهُ قَالَ فَيَقُولُ فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَلَائِكَتِي أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ ثَوَابَهُمْ مِنْ صِيَامِهِمْ شَهْرَ رَمَضَانَ وَقِيَامِهِمْ رِضَايَ وَمَغْفِرَتِي وَ يَقُولُ: عِبَادِي سَلُونِي فَوَعِزَّتِي وَجَلَالِي لَا تَسْأَلُونِي الْيَوْمَ شَيْئًا فِي جَمْعِكُمْ لِآخِرَتِكُمْ إِلَّا أَعْطَيْتُكُمْ وَلَا لِدُنْيَاكُمْ إِلَّا نَظَرْتُ لَكُمْ وَعِزَّتِي لَأَسْتُرَنَّ عَلَيْكُمْ عَثَرَاتِكُمْ مَا رَاقَبْتُمُونِي وَعِزَّتِي لَاأُخْزِيكُمْ وَلَا أَفْضَحُكُمْ بَيْنَ يَدَيْ أَصْحَابِ الْأُخْدُودِ انْصَرَفُوا مَغْفُورًا لَكُمْ قَدْ رَاضَيْتُمُونِي وَرَضِيتُ عَنْكُمْ فَتَفْرَحُ الْمَلَائِكَةُ وَتَسَتَبْشِرُ بِمَا أَعْطَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ إِذَا أَفْطَرُوا مِنْ رَمَضَانَ۔

فضائل الاوقات للبیہقی، حدیث نمبر109

 جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے جس کا نام لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں یہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے کناروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے پکارتے ہیں جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے اے محمد  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی امت اپنے پروردگار کی طرف اپنے رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے۔

پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں: اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔

تو اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان المبارک کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے خطاب فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو،  میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا۔ دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کو چھپاتا رہوں گا۔ میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں کے سامنے رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ اس امت کو جو عید کے دن اجرو ثواب ملتا ہے اسے دیکھ کر فرشتے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی رحمتِ خاصہ اس رات میں  ہماری طرف متوجہ ہوتی ہے اوربدقسمتی سے  ہم لوگ ایسے کاموں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں جو اللہ کو ناراض کرنے والے ہیں۔ اس موقعہ پر ایک  دردمندانہ گزارش ان نوجوان بھائیوں سے ھے جو اس رات میں شیطان کا پوری محنت سے استقبال کرتے ہیں، اپنے کریم رب کو ناراض کر کے گناہوں میں خود کو مبتلا کر لیتے ہیں۔ موسیقی،   ناچ گانا، اچھل کود، فضول خرچی، نظربازی وغیرہ سے لطف اُٹھاتے ھیں ۔ اللہ معاف فرمائےبعض تو  شراب نوشی اور زنا تک کے بڑے بڑے گناہ اس رات میں کر ڈالتے ہیں۔

 کتنے ہی ایسے نوجوان بھی  ہوتے ہیں جو رمضان المبارک کا پورا مہینہ پورے ذوق و شوق سے صیام و قیام میں گزارتے ھیں  اور آخری عشرہ میں اعتکاف جیسی عظیم عبادت میں بھی مصروف ہوتے ہیں لیکن اعتکاف مکمل کرکے مسجد سے باہر نکلتے ہیں تو عید کی تیاری کے عنوان سے سب سے پہلے اپنی داڑھی کو اس طرح  منڈوا  ڈالتے ہیں جیسے داڑھی کے ساتھ اُن کی عید  ھو ھی نہیں  سکتی ۔ ان بھولے بادشاھوں کو شاید یہ معلوم ھی نہیں  ھے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں اس عمل سے شدید نفرت کا اظھارکیا ھے تو سوچنا چاھیے کہ جس عمل سے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  ناراض ھوتےھیں اُس عمل سے اللہ تعالی کیسے راضی  ھوں گے؟۔ اسی طرح ھماری بعض بہنوں اور بیٹیوں  کا حال بھی ھے کہ وہ یہ رات  بجائے عبادات کے عید کی تیاری کے عنوان سے نعوذباللہ ارادی یا غیر ارادی طور پر  شیطان لعین  کو خوش کرنے میں گزار دیتی ھیں ۔ 

خدا کے لیے ذرا غور کریں کہ سارا رمضان  المبارک کا مہینہ عبادات میں مصروف رہ کر تم نے جتنی نیکیاں کمائی ہیں ، اب تو ان کی اجرت لینے کا وقت ہے۔ لہذا بازاروں میں جا کر چوڑیاں چڑھانے، مہندی لگوانے، بیوٹی پارلر پر فیشن کے نام پر ناجائز اور حرام کاموں سے قطعی اجتناب پرتیں اور  اس رات میں بازاروں کی رونق بننے سے خود کو بچائیں۔

اس رات میں عورتیں اپنے اپنے گھروں میں رہیں، والدین، بہن بھائی اور بیوی بچوں سے اچھی اچھی باتیں کریں، کسی غریب، بے آسرا، یتیم، مسکین اور لاوارث بچوں کے بارے میں صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ گھر میں رہ کر خوب عید کی جائز تیاری کریں۔ اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے اچھے اچھے  کھانے بنائیں۔ اپنے گھر والوں کی پسندیدہ ڈشیں تیار کریں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کریں جس نے خوشی کے یہ لمحات نصیب فرمائے۔ فوت شدگان کو فراموش نہ کریں ۔اُنہیں نیک کام کرکے  ایصال ثواب کریں، ان کا تذکرہ خیر کے ساتھ کریں ۔ اُ ن کے آچھے کاموں کو یاد کریں  اور ان کے لیے دعائے مغفرت  کریں۔

لیلۃ الجائزہ اللہ رب العزت کے خصوصی فضل و کرم کی بڑی عظمت و فضیلت والی رات ہے، جو اللہ تعالیٰ کے طرف سے امت محمدیہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو ایک خصوصی تحفہ ہے جس کی اس کے بندوں/مسلمانوں کو بے حد قدر کرنی چاہیے اور اس مبارک شب کے قیمتی اور بابرکت لمحات کو خرافات میں ضائع کرنے کے بجائے توبہ و مناجات، اللہ کے ذکر و اذکار، تلاوت ، نوافل اور دعاؤں میں بسر کیا جانا چاھیے ۔

دیکھا گیا ھے کہ عموماً لوگ اس رات میں شب بیداری تو کرتے ھیں لیکن عبادات کا کوئی اہتمام نہیں کرتے، بلکہ اس رات کو عبادت کی رات نہیں سمجھتے لہذا اس رات کو سیرو تفریح، ہوٹلوں میں کھانے پینے، گانے سننے اور بازاروں میں خریداری کی نذر کردیتے ہیں، جو بہت بڑی محرومی کی علامت ہے۔  بعض تاجر حضرات اس رات میں اپنے کاروبار میں اس قدر مشغول رہتے ہیں کہ اگلے دن عید کی نماز بھی ادا نہیں کر پاتے یعنی اُن کی نماز عید تک نکل جاتی ہے، لہٰذا پوری کوشش کریں کہ یہ مبارک رات کسی قیمت پر بھی  خرافات کی نظر ہوکر ضائع نہ ہونے پائے۔

ہم نے مہینے بھر، رب کریم کے ساتھ جو تعلق استوار کرنے کی سعی کی،اسے اللہ تعالیٰ سے معافی، بخشش، مغفرت اور جہنم سے آزادی کے پروانے حاصل کرنے میں صرف کرنا چاھیے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہینے بھر کی ہماری محنت اور جدوجہد جوکہ ہم نے اپنے رب سے اپنے ٹوٹے ہوئے رشتے کو استوار کرنے میں صرف کی اور اب جب کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہورہا ہے،اپنے مومن بندوں اور بندیوں پر انعامات کی برکھا برسانے والا ہے، ہمارے کسی معمولی نافرمانی والے عمل سے خدانخواستہ ضائع نہ ہوجائے، لہٰذا اس مبارک رات  کو اللہ تعالیٰ سے عافیت و سلامتی ، مغفرت اور حمت طلب کرتے ہوئے خوب یادِ الٰہی میں گزارنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں پوری طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

Share: